اسلام آباد کی احتساب عدالت نے توشہ خانہ ریفرنس میں سابق صدر آصف علی زرداری کے قابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جب کہ سابق وزیراعظم نواز شریف کو اشتہاری قرار دینے کی کارروائی شروع کر دی ہے۔
منگل کو کیس کی سماعت کے دوران احتساب عدالت کے جج اصغر علی نے ریمارکس دیے کہ یہ کریمنل کیس ہے۔ آصف علی زرداری کو پیش ہونا پڑے گا جب کہ نوازشریف دانستہ طور پر عدالتی کارروائی کا حصہ نہیں بن رہے۔
دورانِ سماعت نیب پراسیکیوٹر سردار مظفر نے سابق وزیراعظم نوازشریف کو برطانیہ میں سمن ارسال کرنے کی رپورٹ پیش کی اور آگاہ کیا کہ دفترِ خارجہ کے ذریعے نواز شریف کے وارنٹ اور سمن برطانیہ بھیجے ہیں۔ سابق صدر آصف علی زرداری کو بھی سمن کی تعمیل کرا دی گئی ہے۔
نیب پراسیکیوٹر نے آصف علی زرداری کی عدم پیشی پر وارنٹ جاری کرنے کی استدعا کی تو ملزم کے وکیل فاروق ایچ نائیک نے اپنے موکل کی میڈیکل رپورٹ عدالت میں پیش کر دی۔
فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ آصف زرداری کی عمر زیادہ ہے۔ کرونا کی وجہ سے پیش نہیں ہو سکتے جس پر فاضل جج نے ریمارکس دیے کہ یہ کریمنل کیس ہے۔ آصف علی زرداری کو ایک بار عدالت تو پیش ہونا ہی پڑے گا۔ یہ میڈیکل رپورٹ ایسی تسلی بخش نہیں کہ ان کو استثنیٰ دیا جائے۔
فاروق ایچ نائیک نے عدالت سے آصف علی زرداری کے وارنٹ گرفتاری جاری نہ کرنے کی استدعا کی اور یقین دلایا کہ ان کے موکل آئندہ سماعت پر عدالت میں پیش ہوں گے۔ آصف زرداری سابق صدرِ پاکستان ہیں وہ کہیں بھاگ نہیں رہے۔
جج اصغر علی نے ریمارکس دیے کہ آصف زرداری کو کرونا ہوا تو نہیں۔ لہذٰا آصف زرداری کی استثنیٰ کی درخواست مسترد کرتے ہیں۔
عدالت نے سابق صدر کے قابلِ ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کیے تو فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ میری مودبانہ گزارش ہے کہ وارنٹ واپس لیے جائیں۔ آصف زردادی بڑے آدمی ہیں، وارنٹ کا میڈیا پر بہت غلط تاثر جائے گا۔ میں سینئر وکیل ہوں، بیان حلفی دیتا ہوں وہ آجائیں گے جس پر جج نے کہا میں نے اب آرڈر کر دیا ہے وہ اب واپس نہیں ہو گا۔ آصف زرداری آئندہ سماعت پر پیش نہ ہوئے تو ناقابلِ ضمانت وارنٹ جاری ہوں گے۔
احتساب عدالت نے نواز شریف کو اشتہاری قرار دینے کی بھی کارروائی شروع کر دی ہے۔ جج محمد اصغر علی نے ریمارکس دیے کہ نواز شریف دانستہ طور پر عدالتی کارروائی کا حصہ نہیں بن رہے۔
عدالت نے ریفرنس پر سماعت 17 اگست تک ملتوی کر دی ہے۔ سماعت کے بعد میڈیا سے گفتگو میں آصف زرداری کے وکیل فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ آصف زرداری بیمار ہیں میں نے ان کی طرف سے حاضری سے استثنی کی درخواست دی تھی۔ عدالتوں میں رش ہوتا ہے۔ لہذٰا آصف زرداری کو بھی کرونا کا خطرہ ہے۔ اُنہوں نے علالت کی وجہ سے قومی اسمبلی کے سیشن میں بھی شرکت نہیں کی تھی۔
توشہ خانہ ریفرنس ہے کیا؟
اسلام آباد کی احتساب عدالت میں نیب کی طرف سے دائر کیے گئے ریفرنس میں کہا گیا ہے کہ آصف زرداری اور نواز شریف نے صرف 15 فی صد قیمت ادا کر کے توشہ خانہ سے گاڑیاں حاصل کیں۔
نیب نے الزام عائد کیا کہ یوسف رضا گیلانی نے اس سلسلے میں نواز شریف اور آصف زرداری کو سہولت فراہم کی اور اس حوالے سے قوانین کو نرم کیا۔
ریفرنس میں مزید کہا گیا ہے کہ آصف زرداری کو ستمبر، اکتوبر 2008 میں متحدہ عرب امارات سے بلٹ پروف (بی ایم ڈبلیو 750، ماڈل 2005، لیکسز جیپ ماڈل 2007) اور لیبیا سے (بی ایم ڈبلیو 760، ماڈل 2008) گاڑیاں تحفے میں ملیں۔
مذکورہ ریفرنس کے مطابق سابق صدر فوری طور پر ان گاڑیوں کی اطلاع دینے اور کابینہ ڈویژن کے توشہ خانہ میں جمع کرانے کے پابند تھے۔ لیکن انہوں نے نہ تو گاڑیوں کے بارے میں مطلع کیا نہ ہی انہیں جمع کرایا گیا۔
نیب ریفرنس میں الزام عائد کیا گیا ہے کہ سال 2008 میں نواز شریف کے پاس کوئی سرکاری عہدہ نہیں تھا۔ اس کے باوجود اپریل تا دسمبر 2008 میں انہوں نے اس وقت کے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کو کوئی درخواست دیے بغیر اپنے فائدے کے لیے کابینہ ڈویژن کے تحت طریقہ کار میں غیر قانونی طور پر نرمی حاصل کی۔
ریفرنس کے مطابق خواجہ انور مجید نے ‘ایم ایس انصاری شوگر ملز لمیٹڈ’ کے اکاؤنٹس استعمال کرتے ہوئے نیشنل بینک آواری ٹاور کے ایک اکاؤنٹ سے 92 لاکھ روپے آصف زرداری کے اکاؤنٹ میں منتقل کیے۔
اس کے علاوہ انہوں نے ایک اکاؤنٹ کے ذریعے آصف زرداری کو ایک کروڑ 11 لاکھ 17 ہزار 557 روپے کی ادائیگی کی۔ ملزم نے اپنی غیر قانونی اسکیم کے سلسلے میں آصف زرداری کو مجموی طور پر دو کروڑ تین لاکھ 17 ہزار 557 روپے ادا کیے۔
نیب کا الزام ہے کہ خواجہ عبدالغنی مجید نے آصف زرداری کو ناجائز فائدہ پہنچانے کے لیے تین ہزار 716 ملین (371 کروڑ 60 لاکھ) روپے کی خطیر رقم ادا کی۔
نیب نے ان افراد کو بدعنوانی کا مرتکب ٹھیراتے ہوئے عدالت سے انہیں قرار واقعی سزا دینے کی استدعا کی ہے۔
توشہ خانہ کیا ہے؟
پاکستان میں رائج قانون کے مطابق جب بھی کوئی حکمران یا بیوروکریٹ کسی سرکاری دورے پر بیرون ملک جائے اور اسے وہاں تحائف ملیں تو وہ وطن واپس کر یہ تحائف اسٹیٹ بینک آف پاکستان میں جمع کراتا ہے۔
سرکاری قوانین کے تحت سرکاری افسر، عوامی نمائندے یا مسلح افواج سے وابستہ کوئی بھی افسر سرکاری تحائف ظاہر کرنے کا پابند ہے۔ یہ تحائف فی الفور کابینہ ڈویژن کے ماتحت سرکاری تحائف کی تحویل کے مرکز توشہ خانہ میں جمع کیے جاتے ہیں۔
اگر کوئی اس کی خلاف ورزی کرتے ہوئے پایا جاتا ہے تو اس کے خلاف ضابطے کی کارروائی عمل میں لائی جاتی ہے۔
توشہ خانہ پاکستان بننے کے بعد وزارتِ خارجہ کے ماتحت تھا۔ لیکن 1973 میں اسے کابینہ ڈویژن کے ماتحت کر دیا گیا۔ صوبائی سطح پر ملنے والے سرکاری تحائف ‘ایس اینڈ جی اے ڈی’ کے ماتحت کیبنٹ سیکشن کے پاس رکھے جاتے ہیں۔
قانون کے مطابق ملنے والے تمام تحائف پہلی فرصت میں توشہ خانہ میں جمع کرانا ضروری ہے۔
کیبنٹ ڈویژن ایسے تحائف کی قیمت کا تعین کر کے فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کے علاوہ ٹیکسلا میوزیم، نیشنل کونسل آف آرٹس، وغیرہ سے تحفے کی نوعیت کے حوالے سے رجوع کرسکتی ہے۔ پرائیویٹ سطح پر بھی تحائف کی قیمت جانچی جاسکتی ہے۔
قیمت کا تعین کرنے والی پرائیویٹ کمپنیاں ‘پاکستان جیولری اینڈ جم اسٹونز ایسوسی ایشن’ کی نامزد کردہ ہوتی ہیں۔
رولز کے مطابق ایسا تحفہ جس کی مالیت 10 ہزار روپے تک ہو۔ وہ تحفہ کسی قیمت کے بغیر ہی تحفہ وصول کرنے والے کو دیا جا سکتا ہے۔
ایسا تحفہ جس کی مالیت 10ہزار روپے سے زیادہ ہو وہ قیمت کا 15 فی صد ادا کرکے حاصل کیا جاسکتا ہے۔
علاوہ ازیں چار لاکھ روپے یا اس سے زائد مالیت کا تحفہ صدر مملکت اور وزیر اعظم کے سوا کسی کو رعایتی قیمت پر نہیں دیا جاسکتا۔ ایسے تحائف کو سال میں دو مرتبہ نیلامی میں فروخت کیا جاتا ہے اور خریداری کے لیے پہلی ترجیحی اسی فرد کو دی جاتی ہے جسے یہ تحفہ ملا ہوتا ہے۔
باقی بچ جانے والے تحائف عام نیلامی کے لیے پیش کیے جاتے ہیں۔ نایاب اور نوادرات کا درجہ رکھنے والے تحائف عجائب گھر میں رکھے جاتے ہیں۔