کاروباری دنیا میں جدت اور تبدیلی کا اپنانا ایک لازمی جُزو سمجھا جاتا ہے اور کرونا وائرس کے بحران میں لاک ڈاؤن اور سماجی فاصلے قائم رکھنے کی پابندیوں کی وجہ سے کاروباری کمپنیوں اور کارکنان کا آن لائن ٹیکنالوجی کے استعمال پر انحصار کئی گنا بڑھ گیا ہے۔
اقتصادی تحقیق کے قومی بیورو کے مطابق، امریکہ میں اس وقت 37 فیصد ملازمتیں گھروں سے کام کرکے سرانجام دی جا سکتی ہیں۔
دوسری طرف، کووڈا 19 کی وجہ سے پیدا ہونے والی غیر معمولی صورتحال کے نتیجے میں تین کروڑ امریکی بے روزگار ہو چکے ہیں۔
کاروبار کی صورتحال پر نظر ڈالیں تو 'والٹ ہب' نامی تنظیم کے ایک سروے کے مطابق، کرونا وائرس سے متاثرہ علاقوں میں 87 فیصد چھوٹے پیمانے کے بزنس نقصان برداشت کر رہے ہیں، جبکہ 35 فیصد کا کہنا ہے کہ وہ تین ماہ سے زیادہ نہیں چل سکیں گے۔
لیکن، واشنگٹن ایریا کی ایک کاروباری تنظیم، ایشیائی امریکی چیمبر آف کامرس کی سربراہ، ڈاکٹر سینڈی شاو کہتی ہی کہ موجودہ صورتحال کارکنان اور کاروبار کے مالکان کے لیے ایک بڑا چیلنج بھی ہے اور ساتھ ہی ایک موقع بھی فراہم کرتی ہے۔
اگر کاروباری مالکان کی بات کی جائے، تو وہ کہتی ہیں اقتصادی کارروائیوں کے یکسر رک جانے سے انہیں اپنے کاروبار کو بچانا ہے اور دوسرا انہی حالات میں ایک نئی سوچ کے ذریعے اپنے کاروبار کو چلانا بھی ہے۔
ڈاکٹر شاو کہتی ہیں کہ انٹرنیٹ سیمینار جنھیں 'ویبینار' کہا جاتا ہے کو استعمال کرتے ہوئے بہت سے بزنس لیڈر اپنے کاروبار کو جاری رکھنے کے لیے نئی راہیں تلاش کر سکتے ہیں۔
ان کا کہنا ہے ہے کہ ایسے میں ٹیکنالوجی کا استعمال دو طرفہ ہے۔ ایک تو یہ کہ کاروبار کی بقا کے لیے بزنس لیڈرز کو سمال بزنس ایسوسی ایشن جیسے اداروں سے فوری ریلیف پروگرام سے مستفید ہونا ہے۔ دوسرا یہ کہ مشینوں کی مصنوعی ذہانت کو استعمال کرتے ہوئے اپنے کاروبار کو ڈیٹا اور معلومات کی بنیاد پر آگے بڑھانا ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ مشینوں کی مصنوعی ذہانت کو استعمال کرتے ہوئے کاروبار میں جدت اور اس کے چلانے میں جدوجہد کہاں تک کامیاب ہوتی ہے۔
ماہرین کہتے ہیں کہ اگرچہ وائرس کے پھیلاؤ سے پہلے ہی آن لائن خرید و فروخت میں اضافہ دیکھنے میں آیا تھا، لیکن بہت سے کاروبار ایسی نوعیت کے ہیں جن میں براہ راست انسانی تال میل اور بات چیت ایک لازمی جُزو ہے، جیسا کہ پراپرٹی کی خرید و فروخت، تعمیرات، ریسٹورنٹ کی صنعت اور بہت سے چھوٹے پیمانے کی روزمرہ ضروریات کے کاروبار۔
ورجینیا کے علاقے ٹایسںز کارنر میں سیفائر ریسٹورنٹ کے مالک، مظہر چغتائی کہتے ہیں کہ آن لائن ٹیکنالوجی اہم ہے، لیکن یہ تمام مسائل کا حل نہیں۔
کسی بھی علاقے میں عام حالات میں ریسٹورنٹس بزنس کی کامیابی کا انحصار بہت حد تک لوگوں کا گھروں سے باہر کھانے سے لطف اندوز ہونے کے رجحان اور پارٹیوں کے اہتمام پر ہوتا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ موجودہ سماجی پابندیوں کو سامنے رکھتے ہوئے، انہوں نے آن لائن چین ٹیکنالوجی کا استعمال بڑھا دیا اور اپنی ایڈورٹائزمنٹ کی مہم تیز کردی۔
اور اب پہلے ہی سے بنے تعلقات اور آن لائن ایڈورٹائزمنٹ کے ذریعے وہ اپنے بزنس کو پہلے کے مقابلے میں 25 فیصد تک قائم رکھے ہوئے ہیں۔
لیکن ان حالات میں ٹرانسپورٹ کی اہمیت کم نہیں ہوئی، کیونکہ زیادہ تر گاہک گھروں میں کھانا منگواتے ہیں۔ ان حالات میں اشتہاروں کے نرخ میں اضافہ اور ٹرانسپورٹ کے استعمال کی وجہ سے کاروبار کرنے کے اخراجات کہیں زیادہ پڑتے ہیں۔
صحت اور طبی سہولیات کے شعبوں میں بھی ٹیکنالوجی کا استعمال بہت حد تک بڑھ چکا ہے، اور ماہرین کے مطابق، اب نجی شعبوں میں نئے مواقع پیدا ہو رہے ہیں۔
ورجینیا میں مقیم پاکستانی نژاد، ڈاکٹر شائستہ حمید کہتی ہیں کہ ٹیلی میڈیسن اور ٹیلی سائیکیٹری دونوں ہی کا اس بحران میں استعمال بڑھ گیا ہے۔ موجودہ صورتحال سے قبل ٹیلی میڈیسن کا رجحان بڑھ رہا تھا۔ لیکن، پھر بھی بہت سے لوگ اس کے استعمال سے ہچکچاہٹ محسوس کرتے تھے۔
انھوں نے کہا کہ خاص طور پر ایسے مریض جنہیں مناسب دیکھ بھال کی سہولیات میسر نہیں ان کے لئے ٹیلی میڈیسن سروس کی فراہمی بہت اہم ہے اور وہ اس سے مستفید بھی ہو رہے ہیں۔ بقول ان کے، ''میں سمجھتی ہوں کہ اس بحران کے بعد ٹیلی میڈیسن کا رجحان مزید بڑھے گا''۔
امریکہ میں اعلیٰ تعلیم بھی ایک بڑی صنعت ہے۔ ہر سال دنیا سے آئے طلبا و طالبات امریکی یونیورسٹیوں میں تعلیم حاصل کرتے ہیں، اور یوں اربوں ڈالر کی اقتصادی کارروائیوں کو عمل میں لاتے ہیں۔ انٹرنیٹ ٹیکنالوجی استعمال کرتے ہوئے امریکہ کے بیشتر سکول کالج اور یونیورسٹیوں نے تعلیم کا سلسلہ جاری رکھا ہے۔
مارک میکڈونلڈ ماہر مواصلات ہیں اور واشنگٹن کی جارج ٹاؤن یونیورسٹی میں صحافت کی تعلیم دیتے ہیں۔ انھوں نے کہا ہے کہ کووڈ 19 کی وجہ سے پابندیاں ان کی تعلیمی سرگرمیوں پر زندگی کے دوسرے شعبوں کی طرح اثرانداز نہیں ہوئیں۔
وہ کہتے ہیں کہ آن لائن میٹنگز کی زوم ٹیکنالوجی ان کی اور ان کے شاگردوں کی بہترین دوست ثابت ہوئی ہے، کیوں کہ اس کے ذریعے وہ تعلیم کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔
لیکن، وہ کہتے ہیں کہ سوچنے کی بات یہ ہے کہ وہ لوگ جنھیں انٹرنیٹ کی سہولت میسر نہیں ان پر موجودہ بحران کے کتنے منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔
انھوں نے بتایا کہ کرونا وائرس کے دنوں میں ہی یہ بات سامنے آئی ہے کہ وہ لوگ جنہیں انٹرنیٹ کی رسائی حاصل نہیں یا ان کے پاس اس کے استعمال کی مناسب صلاحیت نہیں ان کو اس وبا نے مالی طور پر بری طرح متاثر کیا ہے۔
انٹرنیٹ کی عدم دستیابی نے خاص طور پر دنیا کے کم ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک کے لئے بہت بڑے اقتصادی مسائل کھڑے کر دیے ہیں۔
اقوام متحدہ کی ایک تازہ ترین رپورٹ کے مطابق، کرونا وائرس کی وبا کی وجہ سے دنیا میں ڈیڑھ ارب سے زائد ملازمین کو برطرفی کا سامنا ہے۔
کرونا وائرس کے پھیلاؤ کے اس دور میں لوگوں کو اس سوچ میں ڈال رکھا ہے کہ کیا ٹیکنالوجی اور خاص طور پر انٹرنیٹ ٹیکنالوجی کا غیر مساوی استعمال لوگوں کہ مستقبل میں مزید عدم توازن پیدا کرے گا یا یہ بحران ایک مثبت تبدیلی لانے کا لمحہ ثابت ہوگا۔
ڈاکٹر شاو کہتی ہیں کہ ٹیکنالوجی انسانوں کے مابین بالمشافہ ملاقات کی نعم البدل نہیں ہو سکتی۔
انھوں نے کہا کہ اس بحران میں آن لائن ٹیکنالوجی کے استعمال نے یہ بات کھل کر واضح کر دی ہے کہ مستقبل میں ٹیکنالوجی اور انسانی ملاب تقریباً ایک جیسی اہمیت اختیار کرلیں گے۔ ان غیر معمولی حالات سے پیدا ہونے والا نیا معمول ملا جلا ہوگا اور بہت سے کاروبار اور کارکنان کو مشینوں کی مصنوعی ذہانت اور اپنی ذہنی اختراع سے کام لینا ہوگا، کیونکہ آئندہ ملازمت کے مواقع اور کاروبار کی کامیابی سخت تر مقابلے کی صورت اختیار کر لے گی۔