پاکستان کے وزیرخارجہ بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ دنیا میں دسیوں لاکھوں اموات کا سبب بننے والی عالمی وبا سے جو سبق سیکھا جا سکتا ہے وہ یہ کہ ایسے معاملات پر ملکی اور بین الاقوامی سطح پر سیاست نہیں ہونی چاہیے اور نہ ہی منافع خوری اور خوف پھیلانے کی حوصلہ افزائی کی جا سکتی ہے۔
بلاول بھٹو زرداری نے ان خیالات کا اظہار کرونا وائرس سے متعلق دوسرے ورچوئل سربراہ اجلاس سے خطاب کے دوران کیا جس کا افتتاح امریکہ کے صدر جو بائیڈن کے خطاب سے ہوا۔
یہ اجلاس ایسے وقت میں ہوا ہے جب امریکہ میں کووڈ نائنٹین کے سبب اموات کی تعداد جان ہاپکنز یونیورسٹی کے مطابق دس لاکھ ہو چکی ہے جبکہ دنیا بھر میں اس وبا کے سبب 62 لاکھ افراد موت کے منہ میں جا چکے ہیں۔ امریکہ کے اندر دس لاکھ اموات کا اعلان صدر جو بائیڈن نے اس ورچوئل اجلاس کے دوران کیا۔
صدر بائیڈن نے پہلے سے ریکارڈ شدہ پیغام میں کہا کہ عالمی وبا ابھی ختم نہیں ہوئی۔ انہوں نے حکم دیا کہ ملک کے اندر کرونا کے سبب زندگی سے محروم ہونے والے افراد کی یاد میں قومی پرچم سرنگوں رکھا جائے۔
ورچوئل اجلاس میں کینیڈا، نیوزی لینڈ، جرمنی، سینیگال، انڈونیشنیا، امریکہ اور بھارت سمیت کئی ممالک کے راہنماوں نے شرکت کی۔
بلاول بھٹو نے کہا کہ کرونا وائرس سے ہر ملک نے گزشتہ 26 ماہ کے دوران اپنی اپنی سطح پر جنگ کی ہے اور مختلف سطحوں پر کامیابی حاصل کی ہے۔ ان کے بقول، آج ہم اس پوزیشن میں ہیں کہ آئندہ اس طرح کے بحرانوں سے نمٹنے کے لیے قلیل اور طویل مدتی حل تلاش کریں۔
انہوں نے کہا کہ صحت سے متعلق ایسے بحرانوں سے نمٹنے کی حکمت عملی کے واضح سائنسی شواہد ، منطق اور ماہرین کی رائے پر مبنی ہونی چاہیے۔
بلاول بھٹو نے اجلاس کو کووڈ پر قابو پانے میں پاکستان کی حکمت عملی سے بھی آگاہ کیا اور بتایا کہ پاکستان نے محدود وسائل کے باوجود فوری لاک ڈاون اور ضروری انفراسٹرکچر کے قیام کے ذریعے اس وبا کے خلاف مثبت نتائج حاصل کیے۔ سمارٹ لاک ڈاون کے ساتھ ساتھ ویکسین اور بوسٹرز کے ذریعے وبا پر قابو پانے کی حکمت عملی اختیار کی گئی۔ تاہم، انہوں نے کہا کہ اب بھی ہمھیں چاہیے کہ ہم مرض کی تشخیص اور اس کے علاج کے لیے ضروری ٹولز تک رسائی کو یقینی بنائیں۔
انہوں نے کہا کہ وباوں کے خلاف ہمارا رسپانس سماج کی ضروریات کے مطابق ہونا چاہیے۔ ہر ملک اور علاقے کو اپنی حکمت عملی ترتیب دینی چاہیے۔
Your browser doesn’t support HTML5
پاکستانی وزیر خارجہ نے کہا کہ وباوں کے خلاف جنگ میں کوئی ایک حکمت عملی سب کے لیے کارگر نہیں ہو سکتی۔ان کے بقول چین نے کووڈ کے خلاف جو ’ زیر وکووڈ اپروچ‘ اختیار کی وہ متعدد زندگیاں بچانے اور معیشت کی بحالی میں کامیاب رہی۔
بلاول بھٹو نے کہا کہ وائرس اور بیکٹیریا قوموں میں تفریق نہیں کرتے۔ ان کا مقابلہ کرنے کے لیے ہم سب کو ایک ہو کر اقدامات کرنے چاہیں۔
انہوں نے کہا کہ متعدد ممالک اور بین الاقوامی تنظیموں نے جس طرح ہماری مدد کی، اس کا اعتراف کیا جانا چاہیے۔ اقوام متحدہ اور امریکہ نے بڑے پیمانے پر پاکستان کی مدد کی اور اسے ویکسین کی 62 ملین خوراکیں فراہم کیں ۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان اس پر مشکور ہے اور اسے بچوں کے لیے کرونا ویکسین کی اضافی 64 ملین خوراکیں فراہم کی گئیں جو پاکستان کو موصول ہو چکی ہیں
وزیر خارجہ نے اس موقع پر کہا کہ ہمھیں ڈاکٹروں اور ہیلتھ کئر وکروں کا بھی شکریہ ادا کرنا چاہیے جنہوں نے اس مشکل وقت میں اپنے لوگوں کو بچانے کے لیے اپنے فرائض سے بڑھ کر خدمات انجام دیں۔
SEE ALSO: کرونا وائرس کے پھیلاؤ سے کئی شہر بند، چین کی تجارت متاثر ہونے لگیاجلاس سے بھارت کے وزیراعظم نریندر مودی نے بھی خطاب کیا اور بھارت کے تجربات سے دنیا کو آگاہ کیا۔ ان کا کہنا تھا کووڈ نے دنیا کی سپلائی چینز کو بری طرح متاثر کیا اور بھارت نے مشکل حالات میں لوگوں کی جانوں پر توجہ کی حامل حکمت عملی اختیار کی۔ ان کے بقول حکومت نے صحت کے لیے ملکی تاریخ میں سب سے زیادہ وسائل مختص کیے اور دنیا کا سب سے بڑا ویکسی نیشن پروگرام شروع کیا۔
بھارت کے وزیراعظم نے بھی اس بات پر زور دیا کہ عالمی وباوں سے نمٹنے کے لیے ایک مربوط نظام کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں سپلائی چینز کا ایک جامع اور مضبوط نظام بھی استوار کرنا چاہیے۔