بھارت میں کرونا وبا کے باعث ایک طویل عرصے تک گھروں میں محدود شہری بڑی تعداد میں شمالی بھارت کے سب سے مشہور تفریحی مقام شملہ کا رخ کر رہے ہیں۔
بھارت میں وائس آف امریکہ کی نامہ نگار انجنا پسریچہ کی رپورٹ کے مطابق، شملہ کے ہل سٹیشن کے مناظر کچھ ایسے ہیں کہ جیسے کرونا وبا کا خطرہ مکمل طور پر ٹل چکا ہو۔ کہیں لوگ گھڑ سواری کرتے نظر آرہے ہیں، تو کچھ ہمالیہ کی فلک بوس چوٹیوں کے نظاروں سے محظوظ ہو رہے ہیں۔ سیاحوں کے رش کی وجہ سے اس خوبصورت ہل اسٹیشن کے کیفے اور ریستوران بھی اب مستقل مصروف ہیں۔
اپریل اور مئی کے مہینوں میں بھارت کرونا وبا کی شدید لپیٹ میں تھا۔ اب جبکہ صورتحال میں بہتری آئی ہے لوگ سیر و تفریح کے لئے باہر نکل آئے ہیں اور ماہرین اسے 'ریوینج ٹریول' یا الجھن دور کرنے والی سیر و تفریح قرار دے رہے ہیں۔ یوں، جیسے ایک سال تک ذہنی تناؤ، لاک ڈاونز اور تنہا رہنے کے بعد وبا کو شکست دینے پر فتح کا اعلان کیا جا رہا ہو۔
شہری تو اپنے طور پر جشن منا رہے ہیں، لیکن حکام اس صورتحال سے خاصے پریشان ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اس غیرذمہ دارانہ رویے کی وجہ سے کووڈ پر قابو پانے کی کوششوں کو نقصان پہنچے گا۔
چندی گڑھ سے شملہ آنے والی، یامنی شرما نے بتایا کہ،''میں تفریح کرنے آئی ہوں۔ کووڈ کی وجہ سے میں طویل عرصے تک گھر تک ہی محدود تھی۔ مجھے اور میرے دوستوں کو اب کہیں باہر نکلنا تھا''۔
بڑی تعداد میں یوں لوگوں کے باہر نکل آنے پر ماہرینِ صحت بھی تشویش کا اظہار کر رہے ہیں۔ ان کے مطابق، کرونا کی دوسری لہر اور ڈیلٹا ویرئینٹ کے پھیلنے میں ان مہینوں میں جاری سیاسی ریلیوں اور مذہبی تقریبات کا بڑا ہاتھ تھا۔
مئی کے مہینے میں بھارت میں روزانہ کی بنیاد پر کرونا کے چار لاکھ کیسز سامنے آرہے تھے۔ ہسپتالوں میں بستر کم پڑ گئے تھے اور شہری اپنی مدد آپ کے تحت آکسیجن سلنڈرز اور ادویات کی اپیل کرتے نظر آرہے تھے۔
اس صورتحال کی وجہ سے پورے ملک میں ایک خوف کا عالم تھا۔ لوگوں نے خود کو گھروں میں بند کر لیا تھا۔ مگر صورتحال بہتر ہوتے ہی حکام کی جانب سے لاک ڈاونز اور سختیوں میں کمی کر دی گئی جس سے شہریوں کے حوصلے پھر سے بلند ہوگئے۔
لوگوں کے اچانک یوں بڑی تعداد میں نکل آنے پر وزیر اعظم نریندر مودی بھی چپ نہ رہ سکے۔ انہوں نے اپیل کی ہے کہ ' میں اس بات پر زور دے کر کہنا چاہتا ہوں کہ یوں بڑی تعداد میں ہل اسٹیشنز، اور مارکیٹوں میں بغیر ماسک کے نکل آنا ٹھیک نہیں ہے'۔
انہوں نے مزید کہا کہ، ''وائرس اپنی مرضی سے آتا جاتا نہیں ہے، ہم اصولوں کی خلاف ورزی کر کے اسے خود واپس لاتے ہیں''.
بڑی تعداد میں سیر و تفریح میں مصروف عوام کی تصاویر اور وڈیوز کی طرف اشارہ کرتے ہوئے صحت عامہ سے متعلق حکام نے شہریوں کو یہ یاد دلانے کی کوشش کی ہے کہ بھارت نے کرونا وبا پر ابھی مکمل قابو نہیں پایا ہے۔
وفاقی کووڈ انتظامیہ گروپ کے سربراہ ونود کے۔ پال کہتے ہیں، ''جنگ ابھی ختم نہیں ہوئی ہے۔ اگر ہم نے احتیاط نہ کی تو ہم وائرس کو پھر سے فعال ہونے کا موقع فراہم کریں گے۔ ہم بڑی مشکلوں سے کیسز کی تعداد میں کمی لا پائے ہیں اور غیر ذمہ داری کی وجہ سے ہماری ساری کوششوں پر پانی پھر جائے گا''.
حکام کی پریشانی کی وجہ سمجھ بھی آتی ہے۔ بھارت اس وقت کرونا بچاؤ ویکسین کی کمی کا شکار ہے اور اب تک محض پانچ فیصد آبادی ہی کو ویکسین لگ پائی ہے۔
کرونا وبا سے نبردآزما حکام اور ڈاکٹرز بار بار یاد دہانی کرا رہے ہیں کہ عوام کا یوں بے دھڑک باہر نکل آنا کووڈ کی تیسری لہر کو دعوت دے سکتا ہے۔
انڈین میڈیکل ایسوسی ایشن نے عوام کے ساتھ ساتھ صوبائی حکومتوں سے بھی اپیل کی ہے کہ احتیاطی تدابیر میں جلد نرمی نہ لائی جائے۔
ایسوسی ایشن کے جاری کردہ ایک پیغام میں کہا گیا ہے کہ سیر و تفریح، زیارتوں پر جانا اور مذہبی رسومات کی اہمیت اپنی جگہ، مگر ان سب کے لئے کچھ ماہ انتظار کیا جاسکتا ہے۔ بغیر ویکسینز کے لوگوں کا یوں گھلنا ملنا وبا کو پھر سے تیزی سے پھیلا سکتا ہے۔
حکام کے اس انتباہ کا ملا جلا رد عمل سامنے آرہا ہے۔ ریاست اتراکھنڈ نے حال ہی میں ایک بڑی مذہبی تقریب پر پابندی لگا دی۔ اس تقریب کے لئے ہر سال ہزاروں زائرین دوسری ریاستوں سے آتے ہیں۔ دوسری طرف ریاست اتر پردیش ہے جو حال ہی میں کرونا وبا سے شدید متاثر رہ چکی ہے مگر یہاں ریاستی حکومت نے ایک بڑی مذہبی تقریب کی اجازت دی ہوئی ہے۔
شہری بھی یہ جانتے ہیں کہ خطرہ ابھی ٹلا نہیں مگر وہ اپنی ذہنی تھکاوٹ دور کرنے کے لئے وبا کے خطرے کو نظر انداز کرنا چاہتے ہیں۔
شملہ آئے ایک اور سیاح چاکشو شرما کہتے ہیں ''کووڈ کی وجہ سے میرے امتحانات ملتوی ہوگئے۔ مجھے گھر سے باہر نکلنے کی ضرورت محسوس ہوئی یہ میری ذہنی صحت کے لئے ضروری ہوگیا تھا''؛ جبکہ، سیاح، یامنی شرما مانتی ہیں کہ یہ پھر سے ایک مسئلہ بن سکتا ہے، مگر ان کے بقول، ''اتنے طویل عرصے گھر کے اندر بند بھی تو نہیں بیٹھا جا سکتا''.
کرونا وبا نے صرف لوگوں کی زندگیاں ہی خطرے میں نہیں ڈالیں بلکہ اس کی وجہ سے لوگوں کا روزگار بھی بری طرح متاثر ہوا۔
یہی وجہ ہے کہ وبا کا خطرہ گو کہ مکمل طور پر نہیں ٹلا مگر ریاست ہماچل پردیش کے ٹورزم کی صنعت سے جڑے افراد نے سیاحوں کی واپسی پر سکھ کا سانس لیا ہے۔
دنیا کے مختلف ممالک کی طرح بھارت بھی اس مشکل سے دوچار ہے کہ جان بچانے کو زیادہ اہمیت دی جائے یا روزگار بچانے کو۔ معیشت کا مکمل رک جانا بھی عوام کو شدید مشکلات میں ڈال دیتا ہے۔