بھارت میں کیے جانے والے ایک سروے کے مطابق 84 فی صد بھارت کے شہری سمجھتے ہیں کہ تمام مذاہب کا احترام کیا جانا چاہیے۔
بین الاقوامی ادارے ’پیو ریسرچ سینٹر‘ کے حال ہی میں جاری کی جانے والی سروے رپورٹ کے مطابق بھارت کے بڑے چھ مذاہب ہندو، مسلم، سکھ، عیسائی، بودھ اور جین کے پیروکاروں کا خیال ہے کہ انہیں اور دوسروں کو بھی اپنے مذہب پر عمل کرنے کی آزادی حاصل ہے۔
یہ رپورٹ 2019 کے اختتام اور 2020 کے اوائل میں 26 ریاستوں میں کیے گئے ایک سروے کی بنیاد پر تیار کی گئی ہے۔
’پیو ریسرچ سینٹر‘ کے سروے میں 17 زبانیں بولنے والے 30 ہزار بالغ شہریوں سے مختلف سوالات پوچھے گئے تھے۔
اکثریت دوسرے مذاہب میں شادی کی مخالف
اس رپورٹ کا قابل ذکر پہلو یہ ہے کہ بیشتر افراد نے کہا کہ وہ دوسرے مذاہب میں شادی کے خلاف ہیں اور شادی صرف اپنے مذہب میں ہونی چاہیے۔
رپورٹ کے مطابق دو تہائی ہندوؤں یعنی 67 فی صد ہندو عورتوں اور 65 فی صد ہندو مردوں کا کہنا ہے کہ دوسرے مذاہب میں ہندو مردوں اور عورتوں کی شادیاں نہیں ہونی چاہئیں۔ جب کہ 80 فی صد مسلمان، مسلم خواتین کی دوسرے مذاہب میں شادیوں کے خلاف ہیں۔
بھارت کی حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے اقتدار والی ریاستوں اتر پردیش، آسام، گجرات، مدھیہ پردیش اور کرناٹک نے تبدیلیٴ مذہب مخالف قوانین منظور کیے ہیں اور ان کے تحت مقدمات بھی درج ہو رہے ہیں۔ ان قوانین کے مطابق شادی کے لیے مذہب بدلنے کو غیر قانونی قرار دیا گیا ہے۔
جب کہ یہ رپورٹ بتاتی ہے کہ 98 فی صد شہری اسی مذہب کو مانتے ہیں جس میں وہ پیدا ہوئے۔
رپورٹ کے مطابق صرف 0.7 فی صد لوگوں کا کہنا ہے کہ ان کی ایک ہندو کے طور پر پرورش ہوئی مگر اب وہ دوسرے مذہب کو مانتے ہیں۔
صفر اعشاریہ آٹھ فی صد کا کہنا ہے کہ ان کی پرورش ایک ہندو کے طور پر نہیں ہوئی لیکن اب وہ ہندو ہیں۔
رپورٹ کہتی ہے کہ صرف 0.4 فی صد ہندو اپنا مذہب تبدیل کر کے عیسائی بنے ہیں۔ جب کہ 0.1 فی صد کا کہنا ہے کہ انہوں نے اپنا پیدائشی عیسائی مذہب ترک کر دیا ہے۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ حالیہ دنوں میں بین المذاہب شادیوں اور بالخصوص ہندو عورتوں کی مسلم مردوں سے شادی کو ’لو جہاد‘ قرار دینے کے تناظر میں اس رپورٹ کی اہمیت بہت بڑھ جاتی ہے۔
دوسرے مذاہب میں شادیوں کی تعداد دو فی صد
ماہرین کے مطابق غیر مسلم خواتین کے مسلم مردوں سے شادی کا جتنا پروپیگنڈا کیا جاتا ہے، اتنی سچائی نہیں ہے۔
تجزیہ کار آلوک موہن رپورٹ کے حوالے سے کہتے ہیں کہ بھارت میں صرف دوسرے مذاہب میں شادیوں پر ہنگامہ نہیں ہوتا بلکہ اپنے مذہب کی دوسری برادریوں میں ہونے والی شادیوں پر بھی تنازع ہوتا ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ بھارت میں ہونے والی شادیوں میں صرف 10 فی صد شادیاں ایسی ہیں جو دوسری برادریوں میں ہوئی ہیں۔ جب کہ 2.1 فی صد شادیاں دوسرے مذاہب میں ہوئی ہیں۔
انگریزی روزنامے ’انڈین ایکسپریس‘ کی ایک رپورٹ کے مطابق دارالحکومت دہلی میں 2019 میں جنوری سے ستمبر کے درمیان رجسٹرڈ ہونے والی 19،250 شادیوں میں صرف 589 شادیاں دوسرے مذاہب میں ہوئی ہیں۔
پیو ریسرچ سینٹر کے سروے میں بحیثیت ماہر مشیر شریک رہنے والے نئی دہلی کے ’سینٹر فار اسٹڈی آف ڈیویلپنگ سوسائٹی‘ میں ایسوسی ایٹ پروفیسر ہلال احمد وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہتے ہیں کہ بھارتی معاشرہ بہت حد تک قدامت پسند ہے۔ اس میں اصلاح کی ضرورت ہے۔ بین المذاہب شادیوں کا معاملہ اسی قدامت پسندی کی کوکھ سے باہر نکلتا ہے۔
ان کے مطابق مذہبی فرقوں میں جب بھی انفرادی حقوق کی بات آتی ہے تو وہ دوسروں کو رعایت دینے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔
ان کا کہنا ہے کہ بھارت کے عوام کی اکثریت دوسرے مذاہب میں شادی کو قبول کرنے کو تیار نہیں ہوتی۔
’لو جہاد کی کوئی حقیقت نہیں‘
ہلال احمد کہتے ہیں کہ دوسرے مذاہب یا دوسری برادری میں جو شادیاں ہوتی ہیں وہ اکثر پسند کی یعنی ’لو میرج‘ ہوتی ہیں اور بھارتی سماج میں اپنے ہی مذہب یا اپنی ہی برادری میں ہونے والی ’لو میرج‘ کو عام طور پر قبول نہیں کیا جاتا۔
ان کے مطابق پیو ریسرچ سینٹر کی رپورٹ بتاتی ہے کہ ’لو جہاد‘ کی کوئی حقیقت نہیں ہے۔ یہ ایک سیاسی پروپیگنڈا ہے اور لوگوں کو اکسانے کے لیے اس کا اختراع کیا گیا ہے۔
وہ اس سے اتفاق نہیں رکھتے کہ مسلم مردوں کی غیر مسلم عورتوں سے شادی کا ایک مقصد غیر مسلم خواتین کا مذہب تبدیل کرانا بھی ہوتا ہے۔
خیال رہے کہ دائیں بازو کی ہندوتوا نواز تنظیموں کا الزام ہے کہ مسلم نوجوان ایک سازش کے تحت غیر مسلم لڑکیوں کو اپنی محبت میں پھنساتے ہیں اور پھر ان سے شادی کرکے جبراً ان کا مذہب تبدیل کرا دیتے ہیں۔
ان کا الزام ہے کہ اس کام کے لیے خلیجی ملکوں سے ایک ایک نوجوان کو دس دس لاکھ روپے ملتے ہیں۔
تاہم تجزیہ کاروں اور تحقیقی رپورٹیں تیار کرنے والے اداروں کا کہنا ہے کہ یہ الزام بے بنیاد ہے اور آج تک اس کا کوئی ثبوت پیش نہیں کیا جا سکا ہے۔
قابل ذکر ہے کہ گزشتہ دنوں نئی دہلی کے مسلم اکثریتی علاقے جامعہ نگر سے ’اسلامک دعویٰ سینٹر‘ چلانے والے ایک نو مسلم محمد عمر گوتم اور جہانگیر قاسمی کو جبریہ تبدیلی مذہب کے الزام میں گرفتار کیا گیا ہے۔
ان پر پولیس کا الزام ہے کہ انہوں نے ایک ہزار غیر مسلموں کا مذہب زبردستی یا لالچ دے کر تبدیل کرایا ہے۔ وہ اس کا ریکٹ چلاتے رہے ہیں اور اس کے لیے انہیں غیر ممالک سے فنڈ ملتا رہا ہے۔
عمر گوتم کے اہل خانہ نے اس الزام کو سختی سے مسترد کیا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ جو غیر مسلمان اپنا مذہب بدلنے کی نیت سے ان کے پاس آتے تھے، وہ ان سے کہتے تھے کہ خوب اچھی طرح غور کر لیجیے، پھر فیصلہ کیجیے۔ اس کے علاوہ اگر کوئی نوجوان اپنا مذہب تبدیل کرانے کے لیے ان کے پاس آتا تھا تو وہ اس کے گھر والوں کو اس کی اطلاع دیتے تھے۔
اترپردیش کی پولیس نے ان دونوں کے خلاف قومی سلامتی ایکٹ (این ایس اے) جیسے سخت قانون کے تحت مقدمہ قائم کیا ہے اور عدالت کے حکم پر انہیں جیل میں ڈال دیا گیا ہے۔
بین المذاہب شادیوں کی دشواریاں
ہلال احمد کا کہنا ہے کہ دوسری برادری یا دوسرے مذہب میں اپنی مرضی اور پسند سے شادی کرنے والوں کو دو سطحوں پر دشواریوں کا سامنا ہوتا ہے۔ ایک تو یہ کہ ان کا اپنا سماج ان کو قبول نہیں کرتا، گھر کے لوگ قبول نہیں کرتے، وہ ایسے لوگوں کا ساتھ نہیں دیتے۔
انہوں نے کہا کہ دوسرے یہ کہ ایسی شادیوں میں درمیان میں مذہبی اور ثقافتی عقائد کا معاملہ بھی آ جاتا ہے۔ مذہب کے نام پر بھی ٹکراؤ ہوتا ہے اور تہذیب و ثقافت کے نام پر بھی۔ جو لوگ اس ٹکراؤ سے نبرد آزما ہو جاتے ہیں وہ اپنی شادی بچا لے جاتے ہیں۔ لیکن کچھ لوگ اس کے شکار بھی بن جاتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ دوسری برادری میں شادی کرنے سے پیش آنے والی دشواری دوسرے مذہب میں شادی کرنے سے اور زیادہ بڑھ جاتی ہے۔ جو مذہبی تنازع کی شکل بھی لے سکتی ہے۔
’دوسرے مذہب میں شادی سے معاشرہ متاثر نہیں ہوتا‘
دوسرے مذہب میں شادی کرنے والے سابق آئی اے ایس 70 سالہ خواجہ شاہد نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ شادی ایک ذاتی معاملہ ہے۔ دوسرے مذہب میں شادی کرنے سے سماج میں اتھل پتھل کی کوئی گنجائش نہیں ہے اور اتھل پتھل ہونی بھی نہیں چاہیے۔ ایسی شادیوں کا معاشرے پر بھی کوئی اثر نہیں پڑتا۔
تاہم ان کا کہنا ہے کہ کچھ معاملات مذہبی عقائد کی وجہ سے متنازع بھی ہو جاتے ہیں۔ مار پیٹ اور خون خرابہ بھی ہو جاتا ہے۔ کچھ لوگ اپنی لڑکی کو ہلاک بھی کر دیتے ہیں۔ یعنی غیرت کے نام پر قتل بھی ہو جاتا ہے۔
خواجہ شاہد کے مطابق ایسی دشواریاں شروع شروع میں پیش آتی ہیں۔ اگر شادی کامیاب ہو جائے اور اولاد پیدا ہو جائے تو یہ تنازعات ختم ہو جاتے ہیں اور دو مختلف مذاہب کے ماننے والے خاندانوں میں بھی ایسا رشتہ قائم ہو جاتا ہے جیسا کہ ہم مذہب شادیوں میں ہوتا ہے۔ آگے چل کر معاشرہ بھی ایسے جوڑوں کو قبول کر لیتا ہے۔
ان کے مطابق بعض اوقات ایسی شادیوں میں قانونی پہلو بھی آجاتا ہے۔ یعنی ہندو مذہب کے مطابق شادی نہیں ہوئی یا اسلام مذہب کے مطابق شادی نہیں ہوئی۔
ان کا کہنا ہے کہ ان کے ذاتی تجربات اور مطالعات بتاتے ہیں کہ جو لوگ دوسرے مذہب یا برادری میں شادی کرتے ہیں۔ ان میں اگر آپس میں تنازعات پیدا ہوں یا لڑائی جھگڑے ہوں تو درمیان میں مذہب نہیں آتا۔ وہ لوگ ان چیزوں سے اوپر اٹھ چکے ہوتے ہیں۔ جو ایسا نہیں کر سکتے ان کو ایسی شادی کرنی بھی نہیں چاہیے۔
ان کے مطابق اگر ایسی شادیاں ناکام بھی ہوتی ہیں تو مذہب کی وجہ سے نہیں ہوتیں بلکہ ذاتی وجوہات کی وجہ سے ہوتی ہیں۔
خواجہ شاہد بھی ’لو جہاد‘ کے پروپیگنڈے کو مسترد کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ لڑکے اور لڑکیاں ایک دوسرے کو پسند کرکے شادی کرتے ہیں اور پھر آگے چل کر وہ دوسرے کا مذہب اختیار کر لیں وہ الگ بات ہے لیکن اس میں کوئی صداقت نہیں ہے کہ دوسرے کا مذہب تبدیل کرانے کے لیے ایسی شادیاں کی جاتی ہیں۔
انہوں نے عمر گوتم کے معاملے میں کہا کہ جو حقائق سامنے آرہے ہیں اور مذہب اسلام قبول کرنے والوں کے جو بیانات آرہے ہیں ان سے پتا چلتا ہے کہ ان کے مرکز میں بھی زبردستی مذہب تبدیل نہیں کرایا جا رہا تھا۔
خواجہ شاہد کہتے ہیں کہ بھارت کا قانون سب کو اپنی پسند کی شادی کرنے یا اپنی پسند کا مذہب اختیار کرنے کی اجازت دیتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ جب بھی ایسی کسی شادی کا معاملہ عدالت میں پہنچا ہے تو اس نے اس شادی کو تسلیم کیا ہے اور اسے قانونی طور پر جائز ٹھیرایا ہے۔
یاد رہے کہ گزشتہ چند ماہ کے دوران بین المذاہب شادیوں کے متعدد معاملات سپریم کورٹ، دہلی ہائی کورٹ، الہ آباد ہائی کورٹ اور دیگر عدالتوں میں پہنچے ہیں جہاں شادی شدہ جوڑوں نے عدالت سے تحفظ کا مطالبہ کیا ہے اور عدالتوں نے ان کو سیکیورٹی فراہم کی ہے۔