چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) کے طویل المدت منصوبے کا باضابطہ آغاز کر دیا گیا ہے۔
وفاقی وزیر برائے منصوبے بندی احسن اقبال نے پیر کو ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ طویل المدت منصوبے کا بنیادی جز پاکستانیوں کے معیارِ زندگی کو بہتر بنانا ہے۔
اُنھوں نے کہا کہ اس کا مقصد یہ ہے کہ سی پیک منصوبے کے ثمرات ملک کے تمام علاقوں اور وہاں بسنے والے تمام طبقات تک پہنچیں، تاکہ اُن کے بقول کوئی پیچھے نہ رہے۔
احسن اقبال نے کہا کہ ’سی پیک‘ منصوبے کا ایک حصہ کنیکٹیوٹی ہے جس کے تحت ملک کے تمام حصوں کو سڑکوں کے جال کے ذریعے معاشی مراکز سے جوڑنا ہے۔
اُنھوں نے کہا کہ طویل المدت منصوبے کے آغاز کے بعد اُن کے بقول اب سی پیک کے ذریعے پاکستان اور چین کے درمیان 2030ء تک اسٹریٹیجک اور معاشی شراکت داری کا آغاز ہو گیا ہے۔
احسن اقبال کا کہنا تھا کہ اب تک 27 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کو حتمی شکل دی جا چکی ہے۔
چین کے 'ون بلیٹ ون روڈ منصوبے' کے تحت لگ بھگ 60 ارب ڈالر مالیت کا 'چین پاکستان اقتصادی راہداری' منصوبہ 2030ء تک مکمل ہو سکے گا۔
’سی پیک‘ طویل المدت منصوبے کی منظوری گزشتہ ماہ دونوں ملکوں کی اعلیٰ سطحی جوائنٹ کوآپریشن کمیٹی کے اسلام آباد میں ہونے والے ایک اجلاس میں دی گئی تھی۔
اس منصوبے کے تحت پاکستان کے چاروں صوبوں میں خصوصی صنعتی زون بھی قائم کیے جانے ہیں۔
گزشتہ ہفتے ہی وفاقی وزیر احسن اقبال نے چین پاکستان اقتصادی راہداری سے متعلق پارلیمان کی کمیٹی کو بتایا تھا کہ ’سی پیک‘ کے تحت تین منصوبوں کے لیے فنڈز بیجنگ کی طرف سے مالی حکمتِ عملی پر نظرِ ثانی مکمل ہونے تک روک دیے گئے ہیں۔
لیکن اُنھوں نے یہ بھی واضح کیا کہ نظرِ ثانی کا یہ مطلب نہیں کہ چین نے یہ منصوبے ترک کر دیے ہیں۔
’سی پیک‘ کے تحت چین کے شہر کاشغر سے پاکستان کے جنوب مغربی ساحلی شہر گوادر تک صنعتوں، بنیادی ڈھانچے اور مواصلاحات کا جال بچھایا جانا ہے۔
پاکستان میں اس وقت لگ بھگ 20 ہزار چینی شہری سی پیک کے علاوہ چینی کمپینوں کے دیگر منصوبوں سے وابستہ ہیں اور توقع کی جا رہی ہے کہ اُن کی تعداد میں مزید اضافہ ہو سکتا ہے۔
رواں ماہ اسلام آباد میں چین کے سفارت خانے کی طرف سے ایک غیر معمولی انتباہ جاری کیا گیا تھا جس میں پاکستان میں موجود چینی شہریوں کو دہشت گردوں کے ممکنہ حملوں سے متعلق خبردار کیا گیا تھا۔
واضح رہے کہ رواں سال جون میں کوئٹہ سے دو چینی اساتذہ کو اغوا کے بعد قتل کر دیا گیا تھا اور اس کی ذمہ داری دہشت گرد تنظیم داعش نے قبول کی تھی۔
پاکستانی حکومت کی طرف سے پہلے ہی چین پاکستان اقتصادی راہداری منصوبے کے تحفظ کے لیے ہزاروں اہلکاروں پر مشتمل خصوصی فورس تشکیل دی جا چکی ہے اور پاکستانی حکام یہ کہتے رہے ہیں کہ ملک میں چینی شہریوں کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے مزید اقدامات بھی کیے جائیں گے۔