سی پیک شفاف منصوبہ ہے: اسد عمر

فائل فوٹو میں صوبہ خیبر پختونخواہ میں سی پیک کے تحت قائم کیا گیا رشکئی اکنامک زون میں کام کا ایک منظر فوٹو دیوا سروس وی او اے

پاکستان نے کہا کہ چین کے ساتھ جاری اس کے سی پیک منصوبوں پر دنیا کی نظریں رہتی ہے اور حکومت اس کو شفاف انداز میں خوش اسلوبی کے ساتھ تکمیل کی جانب بڑھا رہی ہے۔

اسلام آباد کے ایک اعلی عہدیدار نے اس امریکی تھنک ٹینک کی حالیہ رپورٹ کو غلط قرار دیا ہے جس میں کہا گیا کہ اس منصوبے کے حوالے سے معلومات خفیہ رکھی گئی ہیں۔

وزیرمنصوبہ بندی اسد عمر کا کہنا تھا کہ سی پیک کے حوالے سے سب معلومات پارلیمان کے فورم پر دی جا چکی ہے جبکہ پارلیمانی اوور سائٹ بھی موجود ہے۔

بجلی بنانے سے متعلق منصوبوں کی تمام معلومات نیشنل الیکٹرک پاور ریگولیٹری اتھارٹی (نیپرا) کی ویب سائٹ پر موجود ہیں۔

اسد عمر کا یہ بھی کہنا تھا کہ ہم یہ نہیں کہتے ہیں کہ گزشتہ حکومت کی سی پیک پالیسیاں بری تھیں۔

اس موضوع پر بات کرتے ہوئے تجزیہ کار فرخ سلیم کا کہنا ہے کہ سی پیک کے 17 بڑے پراجیکٹس تھے جس میں سے 9 پراجیکٹس مکمل ہو چکے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ چین کے ساتھ سی پیک منصوبوں میں قرض کی شرح سود کے ساتھ 7 فیصد انشورنس بھی ادا کرنا پڑتی ہے۔ توانائی کے منصوبوں میں 85 فیصد استعمال کی شرط عائد کی گئی ہے جس کی وجہ سے ٹیرف میں اضافہ ہورہا ہے۔

اس سے قبل اسلام آباد میں سی پیک اتھارٹی کے چئیرمیں خالد منصور کے ساتھ ایک نیوز کانفرنس میں اسد عمر نے دعوٰی کیا کہ "ہائبرڈ وار کے ذریعے ایسے منصوبوں کے خلاف سازشیں کی جاتی ہیں اور اس مقصد کیلئے غلط معلومات پھیلانے کی کوشش بھی ہوتی ہے، جبکہ بعض اوقات ہمارے اپنے لوگ بھی اس سازش کا حصہ بن جاتے ہیں۔"

اسد عمر نے کہا کہ امریکی تھنک ٹینک کی رپورٹ میں سی پیک قرض کو خفیہ قرض کہا گیا ہے حالانکہ حکومت کی جانب سے قرضوں کیلئے ساورن گارنٹی دی گئی۔

ان کا کہنا تھا کہ امریکی رپورٹ میں کسی خفیہ قرضے کی بات کی گئی جو ہمارے علم میں نہیں، خود مختار گارنٹی حکومت دیتی ہے اور یہ کوئی خفیہ قرضہ نہیں، کئی منصوبے حکومت نجی شعبہ کے ذریعے خود مختار گارنٹی سے مکمل کرتی ہے، توانائی کے منصوبوں کیلئے قرض فراہم کیا گیا اور کچھ قرض حکومت کو دیا گیا۔

انہوں نے کہا کہ مذکورہ رپورٹ میں مہنگے قرضوں کی بات بھی کی گئی لیکن اوسط قرضوں پر شرح سود 4 فیصد ہے، کثیر الجہتی قرض اس میں زیادہ ہیں اور اوسط شرح سود 4.25 فیصد ہے۔

اس کے علاوہ حکومت کو دی گئی گرانٹ کی اوسط شرح سود 2 فیصد بنتی ہے، پاکستان کے سی پیک سے متعلق قرضے خطرناک حد تک نہیں ہیں۔

اسد عمر کا کہنا تھا کہ ’مغربی دنیا اور ممالک سے 74 فیصد قرضے لیے گئے، پاکستان کو 74 فیصد قرضوں سے خطرہ نہیں تو چین کے 26 فیصد قرضوں سے کیسےخطرہ ہوسکتا ہے۔ آئی ایم ایف پروگرام کا حصہ ہونے پر ہم نے سی پیک کی تفصیلات فراہم کیں‘

اسد عمر نے کہا کہ یہ بڑا منصوبہ شفاف انداز میں خوش اسلوبی سے آگے بڑھ رہا ہے۔ سی پیک کے کچھ منصوبے کرونا کے باعث تاخیر کا شکار ہوئے لیکن بیشتر منصوبے بروقت مکمل ہوئے، پی ٹی آئی حکومت آنے کے بعد سی پیک منصوبوں پر تیزی سے کام ہوا۔

وفاقی وزیر منصوبہ بندی نے کہا کہ سی پیک ایک عظیم الشان منصوبہ ہے جس میں دوسرے ممالک کی شرکت کو خوش آمدید کہیں گے۔ انہوں نے کہا کہ پارلیمان میں، سینیٹ اور قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹیاں برائے منصوبہ بندی سی پیک کے علاوہ ایک مشترکہ کمیٹی سی پیک سے متعلق سوالات پوچھتی ہیں، یعنی اس پر پارلیمانی نگرانی بھی موجود ہے۔

اسد عمر نے کہا کہ سی پیک کے جن منصوبوں پر زیادہ بات چیت کی جاتی ہے وہ توانائی کے منصوبے ہیں، ٹیرف کیا ہے؟ لاگت کتنی آئی؟ کمرشل فنانسنگ اسٹرکچر کیا ہے؟ وہ سب معلومات نیپرا کے پاس ویب سائٹ پر موجود ہیں جہاں سے حاصل کی جا سکتی ہیں۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ہم عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) پروگرام کا حصہ ہیں، یہ پروگرام جب شروع ہوا تھا سی پیک کی معلومات کے بارے میں بہت بات ہوتی تھی، انہوں نے ہم سے یہ معلومات مانگی تو ہم نے انہیں فراہم کر دیں جس کے بعد آپ نے آئی ایم ایف کے مذاکرات میں سی پیک کے قرضوں کے حوالے سے کچھ نہیں سنا ہو گا۔

اسد عمر نے کہا کہ یہ صرف توانائی کے منصوبوں کی پریکٹس نہیں بلکہ دیگر بھی جو منصوبے ہوتے ہیں جس میں حکومت یہ سمجھتی ہے کہ نجی شعبہ کو ذمہ داری سونپی جائے اس کے لیے بھی ضمانت دی جاتی ہے، اس سے حکومت اپنا پیسہ استعمال کیے بغیر منصوبے میں سرمایہ کاری کروانے میں کامیاب ہوتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ اس میں کوئی انوکھی بات نہیں سی پیک کے لیے کوئی ایسی خاص گارنٹیز نہیں دی گئیں جو دیگر توانائی کے منصوبوں کو نہ دی گئی ہوں۔

امریکی تھنک ٹینک کی رپورٹ میں کیا تھا؟

30 ستمبر کو امریکہ کے ایک تھنک ٹینک اور ریسرچ لیب ’ایڈ ڈیٹا‘ نے چین کے مختلف ممالک میں ’بیلٹ اینڈ روڈ‘ منصوبوں کے تحت قرضے دینے اور سرمایہ کاری کے طریقۂ کار کے بارے میں رپورٹ میں بتایا ہے کہ گزشتہ دو دہائیوں کے دوران چین نے بین الاقوامی ترقیاتی سرمایہ کاری کے لیے ریکارڈ رقم فراہم کی ہے۔

ایڈ ڈیٹا کی رپورٹ کے مطابق پاکستان کا شمار بھی ان ممالک میں ہوتا ہے جو چین سے قرض حاصل کرنے والا ساتواں بڑا ملک ہے۔ چین کی طرف سے فنڈ اور قرضہ جات کے معاملات خفیہ رکھے جاتے ہیں۔

رپورٹ کے مطابق بیجنگ کی بیرون ملک ترقیاتی سرمایہ کاری کے پورٹ فولیو کے بارے میں تفصیلی معلومات ظاہر کرنے میں ہچکچاہٹ نے اخراجات اور فوائد کو معروضی طور پر جانچنے کو مشکل بنا دیا ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ پاکستان میں زیادہ تر منصوبوں کے لیے چین نے تجارتی قرضے دیے ہیں جن کی شرح سود کمرشل ریٹ کے برابر ہے۔

ایڈ ڈیٹا کی رپورٹ کے مرکزی مصنف عمار اے ملک نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ چین نے 2000 سے 2017 تک پاکستان کو 34 ارب 40 کروڑ ڈالر فراہم کیے تھے اور ان میں سے 27 ارب ڈالر قرض کی صورت میں دیے گئے ہیں اور باقی چار ارب ڈالر امداد ہے۔

ان چار ارب ڈالرز کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ یہ ایسی رقم ہے جس کی واپسی یا تو مطلوب نہیں یا اس کی شرائط نہایت آسان رکھی گئی ہیں۔

عمار ملک کے بقول پاکستان کو چین کی طرف سے فراہم کیے جانے والے فنڈز کا 80 فی صد قرضے پر مشتمل ہے۔ ان قرضہ جات پر تجارتی شرح سود اوسطاََ 3.76 فی صد ہے جو دیگر ممالک سے پاکستان کو ملنے والے قرضوں سے زیادہ شرح سود ہے۔

عمار ملک کا کہنا ہے کہ پاکستان میں سی پیک کے تحت مکمل ہونے والے توانائی کے منصوبوں میں حکومت پاکستان نے چینی کمپنیوں کو سرمایہ کاری پر منافع دینے کی ضمانت دی ہے۔ اگر بجلی کی طلب میں کمی آتی ہے تو حکومت پاکستان کے لیے یہ معاملہ بوجھ بن سکتا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان میں توانائی کے منصوبوں کے لیے چین نے لگ بھگ 20 ارب ڈالرز فراہم کیے تھے۔ جوں جوں ڈالر کی قیمت روپے کے مقابلے بڑھے گی تو پاکستان پر قرضوں کا بوجھ بھی بڑھتا جائے گا۔

پاکستان پر توانائی کے منصوبوں کی وجہ سے بوجھ بڑھے گا۔ فرخ سلیم

تجزیہ کار فرخ سلیم نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ سی پیک کے ترجیحی پراجیکٹس 17 ہیں جن کی لاگت 15 ارب ڈالر تھی۔ اب تک 9 پراجیکٹ مکمل ہوچکے ہیں جن پر 8 ارب ڈالر لگ چکے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ان میں سے 12 ارب ڈالر کے قرضہ جات ہیں اور تین ارب ڈالر کی ایکویٹی ہے۔ ان پاور پراجیکٹس سے 9 ہزار میگاواٹ بجلی حاصل ہوگی۔

شرح سود کے بارے میں انہوں نے کہا کہ ساڑھے 4 فیصد ریٹ کمرشل ریٹ ہے اور بہت زیادہ ہے، اس کے علاوہ ایک بہت بڑا خرچ انشورنس کا ہے کیونکہ پراجیکٹ کے لیے جو قرض لیا جاتا ہے اس کے ساتھ 7 فیصد انشورنس پریمیم ادا کرنا پڑتا ہے۔

یہ تمام اخراجات ادا کرنے کے بعد نیپرا نے جو ٹیرف مقرر کیا ہے وہ 8 روپے 30 پیسے فی یونٹ ہے۔ اس میں کہا گیا کہ 85 فیصد ایفی شینسی پر پلانٹ چلے گا لیکن عموماً یونٹ اس کیپسٹی پر نہیں چلتا جس کی وجہ سے یہ بجلی فی یونٹ لاگت میں مزید اضافہ ہو جاتا ہے۔