بیرون ملک جانے والے بھکاری؛ 'عمرے پر جانے والوں کی تلاشی لی تو سامان سے کشکول ملے'

"ٹریول ایجنٹ سے میرا تعارف ایک اور بھکاری نے کرایا جو خود پہلے سعودی عرب میں بھیک مانگتا رہا تھا۔ ٹریول ایجنٹ ہمارے علاقے سے ایسے افراد کو تلاش کرتے ہیں جو کم از کم 10 سال سے بھیک مانگ رہے ہوں."

یہ کہنا ہے عمرہ ویزا پر سعودی عرب جانے کی کوشش کرنے والے ایک بھکاری کا جو وفاقی تفتیشی ادارے (ایف آئی اے) کی حراست میں ہے۔

پاکستان میں ان دنوں بیرون ملک بالخصوص عرب ممالک میں جا کر بھیک مانگنے والے افراد کے خلاف کریک ڈاؤن جاری ہے جس میں اب تک متعدد افراد کو حراست میں لیا جا چکا ہے۔

یہ اقدامات ایسے وقت میں کیے جا رہے ہیں جب حال ہی میں سیکریٹری اوورسیز نے سینیٹ میں ایک اجلاس کے دوران بتایا تھا کہ عرب ممالک میں پکڑے جانے والے بھکاریوں میں اکثریت پاکستانی شہریوں کی ہوتی ہے۔

نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ایف آئی اے کی تحویل میں موجود بھکاری نے مزید بتایا کہ سعودی عرب میں جتنی بھی بھیک اکٹھی ہوتی ہے۔ وہ پاکستان واپس آنے پر ٹریول ایجنٹ اور اُن کے درمیان آدھی آدھی تقسیم ہوتی ہے۔

جنوبی پنجاب کے پسماندہ سمجھے جانے والے ضلع مظفر گڑھ کے رہائشی بھکاری نے مزید بتایا کہ سعودی عرب جانے کے لیے بعض اوقات ٹکٹ اور ویزا کے پیسے وہ خود دیتے ہیں جو کہ ڈیرھ لاکھ روپے سے دو لاکھ روپے کے درمیان ہوتے ہیں۔

اُن کا مزید کہنا تھا کہ اگر کسی بھکاری کے پاس اتنے پیسے نہ ہوں تو اُس کا خرچ ٹریول ایجنٹ برداشت کرتا ہے۔ جو بھیک کی صورت میں ہونے والی آمدن میں سے کٹ جاتے ہیں۔

اپنی گفتگو جاری رکھتے ہوئے بھکاری کا کہنا تھا کہ "میں نے اپنے بھکاری دوست کو دیکھا جس کے پاس ٹچ موبائل تھا اور وہ موٹرسائیکل پر بھیک مانگنے آتا تھا۔"

اُس کے بقول یہ بھکاری کچھ ماہ غائب رہا، معلوم کرنے پر پتا چلا کہ وہ بھیک مانگنے سعودی عرب گیا تھا جس کے بعد اُس کے دِل میں بھی سعودی عرب جانے کی خواہش پیدا ہوائی اور تین برسوں میں سعودی عرب جانے کے پیسے اکٹھے کیے۔

بھکاری کے مطابق جب بھی کوئی سعودی عرب سے بھیک مانگ کر واپس آتا ہے تو اخراجات نکال کر اُس کے پاس تین سے چار لاکھ روپے اکٹھے ہو جاتے ہیں۔

ایف آئی اے حکام کا کہنا ہے کہ اُنہوں نے عمرہ کے نام پر انسانی اسمگلنگ کے ایک گروہ کو پکڑا ہے جو عرب ممالک میں لوگوں سے بھیک منگواتا تھا۔

ایف آئی اے نے یہ کارروائی صوبہ پنجاب کے شہر ملتان میں کی ہے، جہاں گزشتہ تین روز میں 24 افراد کو حراست میں لیا گیا ہے۔ ان میں 12 مرد، 11 خواتین اور ایک بچہ شامل ہے۔

ایف آئی اے سرکل ملتان کے ڈپٹی ڈائریکٹر خواجہ حماد الرحمٰن کے مطابق ایف آئی اے حکام کی جانب سے واضح ہدایات ملی ہیں کہ پاکستان سے جانے والے افراد کے کوائف کی اچھی طرح سے جانچ پڑتال کی جائے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ جب کوئی شخص عمرے کی ادائیگی کے لیے بیرونِ ملک جانے کے لیے ہوائی اڈوں پر قائم امیگریشن کاؤنٹر پر آتا ہے تو اُس کے حلیے سے کچھ اندازہ ہو جاتا ہے۔

خوا جہ حماد کے مطابق عمرے کی ادائیگی کے لیے سعودی عرب جانے والے افراد کی ہوٹل کی بکنگ تھی نہ ہی کسی بھی مرد اور خاتون کے پاس ایک درہم، ایک ریال، ایک ڈالر یا پاکستانی روپے تھے۔

اِن مرد و خوتین کے سامان کی تلاشی لی تو اس میں سے بھیک کے لیے استعمال ہونے والے پیالے (کشکول) برآمد ہو گئے جس پر ایف آئی اے کو ابتدائی تحقیقات کے بعد سمجھ آ گئی کہ یہ افراد کس مقصد کے لیے سعودی عرب جا رہے ہیں۔

خواجہ حماد نے بتایا کہ اِن بھکاریوں کو عمومی طور پر ٹریول ایجنٹس یہ لالچ دیتے ہیں کہ پاکستان میں بھیک مانگنے سے کچھ نہیں ملے گا۔ لیکن اگر سعودی عرب میں بھیک مانگی جائے گی تو بہت دولت ملے گی کیوں کہ وہاں لوگ صدقات، فطرات لے کر سڑکوں پر پھر رہے ہوتے ہیں۔

کتنے افراد کو پکڑا جا چکا ہے؟

ڈپٹی ڈائریکٹر ایف آئی اے امیگریشن ملتان طارق محمود کے مطابق گزشتہ تین روز میں ملتان انٹرنیشنل ایئرپورٹ سے 24 مرد اور خواتین کو گرفتار کیا گیا ہے جن میں ایک بچہ بھی شامل ہے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ بھکاریوں کے روپ میں سعودی عرب جانے والے افراد کا پاکستان میں سہولت کار اِنہیں ایئرپورٹ پر چھوڑ کر جاتا ہے جب کہ سعودی عرب میں ایجنٹ اِنہیں کام پر لگاتا ہے اور یہ افراد مساجد میں ہی سوتے ہیں۔

گروہ کیسے کام کرتا ہے؟

خواجہ حماد الرحمٰن نے مزید بتایا کہ گرفتار ہونے والے بھکاریوں کی نشاندہی پر ایف آئی اے ملتان نے ٹریول ایجنٹس کے خلاف بھی کارروائی شروع کی اور ایک سہولت کار کو گرفتار کیا گیا۔

اُن کا کہنا تھا کہ اِسی طرح کسووال کے علاقے سے دو مزید سہولت کاروں کو گرفتار کیا گیا ہے۔ ایف آئی کے مطابق سہولت کاروں نے اپنے ابتدائی بیانات میں بتایا کہ سعودی عرب میں دورانِ بھیک جتنی بھی رقم اکٹھی ہوتی ہے وہ بھکاری اور ٹریول ایجنٹ یا سہولت کار میں آدھی آدھی تقسیم ہوتی ہے۔

نیٹ ورک کہاں کام کرتا ہے؟

ایف آئی اے کے مطابق بھکاریوں کو سعودی عرب بھجوانے والا گروہ زیادہ تر صوبہ پنجاب کے جنوبی اضلاع میں متحرک ہے جہاں بھکاری بن کر سعودی عرب جانے کی بڑی وجہ سیلاب کا آنا ہے۔

اُن کا کہنا تھاکہ اِن بھکاریوں کی بڑی تعداد چھوٹے کسانوں پر مشتمل ہے۔ گزشتہ سال اور رواں سال سیلاب کی وجہ سے بھکاریوں کی تعداد میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ یہ افراد زیادہ تر مخیر حضرات یا سرکاری راشن پر گزارہ کرتے ہیں۔

SEE ALSO: ’پیسے نہیں ہیں؟ ڈیجیٹل والٹ میں بھیک ٹرانسفر کردو!‘


ایف آئی اے کے ریکارڈ کے مطابق پاکستان سے بھکاری بن کر جانے والے افراد کی زیادہ تعداد سعودی عرب کا رخ کرتی ہے، کچھ افراد مشرقِ وسطیٰ کے دیگر ممالک بھی جاتے ہیں۔

ان افراد کے خلاف کیا قانونی کارروائی ہو گی؟

خواجہ حماد الرحمٰن نے بتایا کہ پکڑے جانے والے افراد کے خلاف مقدمات درج کیے جا رہے ہیں۔

اُن کا کہنا تھا کہ ایسے مرد اور خواتین جو بھکاری بن کر سعودی عرب جا رہے تھے اُن کے پاسپورٹ منسوخ کر دیے جاتے ہیں اور پانچ سال کے لیے یہ افراد پاسپورٹ استعمال نہیں کر سکتے۔ یہ افراد کہیں بھی ملک سے باہر نہیں جا سکتے۔

اُن کے بقول جہاں تک بات ہے ٹریول ایجنٹس یا سہولت کاروں کی تو اُن ملزمان کے خلاف قانون کے مطابق سات سال سے لے کر 14 سال تک کی سزا دی جا سکتی ہے۔ اِس کے علاوہ اُنہیں دس لاکھ روپے سے لے کر بیس لاکھ روپے تک کا جرمانہ ہو سکتا ہے۔ ۔

خواجہ حماد نے بتایا کہ ایسے فراد کے خلاف ہیومن ٹریفکنگ اِن پرسن ایکٹ 2018 کے تحت سزا دی جاتی ہے۔