امریکہ کی ریاست ساؤتھ ڈکوٹا کی بلیک ہلز میں 74 برس سے پورے پہاڑ کو تراش کر ایک ایسا مجسمہ بنایا جارہا ہے جو اگر مکمل ہوگیا تو اس کی اونچائی 563 فٹ ہوگی۔
اگرچہ اپنی تکمیل میں تاخیر اور اس مقام پر ہونے والی سیاحت کی آمدن کی وجہ سے یہ یادگار کچھ تنازعات میں گھر گئی ہے البتہ اس پر جب بھی کام مکمل ہوا تو یہ دنیا کا سب سے بڑا مجسمہ ہوگا۔ یہ جس شخص کا مجسمہ ہے اسے امریکہ کے مقامی انڈین باشندے اپنی تاریخ کا سب سے بڑا ہیرو تصور کرتے ہیں اور اسے کریزی ہارس کے نام سے یاد کرتے ہیں۔
کریزی ہارس کا تعلق لکوٹا قبائل کی اگلالا شاخ سے تھا۔ وہ 1865 میں انڈین قبائل کی مزاحمت کی علامت بن کر اُبھرے تھے۔
یہ وہ دور تھا جب سفید فام اور یورپی امریکی شمالی میدانوں میں آبادکاری کررہے تھے اور انہوں نے کئی علاقوں سے مقامی انڈین باشندوں کو بے دخل کرنا شروع کر دیا تھا۔ کریزی ہارس نے اس دور میں امریکی فوج سے کئی خوں ریز جنگیں لڑیں اور اپنے آبائی علاقوں پر اپنا حق برقرار رکھنے کے لیے بھرپور مزاحمت کی تھی۔
لکوٹا قبائل کون تھے؟
لکوٹا شکاری قبائل ہیں اور یہ شمال وسطی امریکہ میں چٹیل میدان اور پہاڑی سلسلوں میں آباد تھے ۔یہ جنگلی جانورں سے خوراک، لباس، اوزار وغیرہ حاصل کرتے تھے۔ بالخصوص مقامی طور پر پائی جانے والی جنگلی بھینسوں پر ان کا سب سے زیادہ انحصار تھا۔
انیسویں صدی کے وسط میں شمالی امریکہ کے ان علاقوں میں بڑی تبدیلیاں رونما ہونا شروع ہوئیں جہاں مقامی ریڈ انڈین باشندے بستے تھے۔ دراصل 1803 میں لوئزیانا پرچیز کے علاقے کی خریداری کے بعد یہ علاقے امریکہ میں شامل ہوچکے تھے۔
امریکہ نے یہ لاکھوں مربع میل زمین فرانسیسیوں سے ڈیڑھ کروڑ ڈالر کے عوض خریدی تھی۔ اورلینز بندرگاہ تک رسائی کے لیے امریکہ اس علاقے کو اپنے لیے اہم سمجھتا تھا کیوں کہ اپنی زیادہ تر برآمدات اور اشیائے ضروریہ کی رسد کے لیے اس کا انحصار اس بندرگاہ پر تھا۔ اس سودے کے بعد اس وقت کے امریکہ کا رقبہ دگنا ہو گیا تھا۔
SEE ALSO: جب امریکہ نے ڈیڑھ کروڑ ڈالر دے کر اپنا رقبہ دگنا کیالوئزیانا کے اس وسیع عریض خطے میں لکوٹا باشندوں کے علاقے بھی شامل تھے۔ اس خطے میں دریائے میسوری سے متصل وہ علاقے بھی شامل تھے جہاں لکوٹا بھینسوں کا شکار کرکے اپنی خوراک اور دیگر ضروریات حاصل کرتے تھے۔ اس سے قبل سولہویں صدی میں یورپی نو آبادکاروں کی آمد کے بعد لکوٹا باشندے ہسپانوی باشندوں سے کھالوں کی تجارت بھی کررہے تھے۔ 1776 تک لکوٹا یہاں بسنے والے دیگر قدیم قبائل اور زراعت پیشہ قبیلوں کو زیر کرکے بلیک ہل کے علاقوں تک اپنی ایک قبائلی سلطنت قائم کرچکے تھے جس میں اس قبیلے کی مختلف شاخیں شامل تھیں۔
اگرچہ لوئزیانا پرچیز کے بعد یہ علاقے امریکہ میں شامل ہوچکے تھے لیکن لکوٹا قبائل کے نزدیک اپنی زمینوں پر دو بیرونی قوتوں کے درمیان ہونے والے اس معاہدے کی کوئی حیثیت نہیں تھی۔
امریکیوں سے روابط
لوئزیانا پرچیز کے بعد امریکہ کے صدر تھامس جیفرسن نے 1804 میں دو مہم جوؤں اور سیاسی رہنماؤں میری ویدر لوئس اور ولیم کلارک کو اس علاقے میں آباد باشندوں اور قدرتی وسائل سے متعلق معلومات جمع کرنے اور دیگر حقائق کھوجنے کی مہم پر روانہ کیا۔
یہ دونوں امریکی نمائندے جب لکوٹا قبائل کے علاقے کے پاس پہنچے تو قبائلیوں نے انہیں آگے جانے سے روک دیا اور بھاری رقم کا مطالبہ کیا۔لوئس اور کلارک نے یہ رقم ادا کی اور ان علاقوں میں پائے جانے والے دریاؤں، چرا گاہوں، معدنیات اور دیگر قدرتی وسائل کے بارے میں تفصیلی معلومات جمع کیں۔
امریکی نمائندوں کی لکوٹا قبائل سے اس پہلی مڈ بھیڑ کے بعد امریکہ کی حکومت نے ان مقامی باشندوں سے بنا کر رکھنے کا فیصلہ کیا اور فریقین کے درمیان طویل عرصے تک تجارتی تعلقات رہے۔ امریکی لکوٹا قبائل سے بھینس کا چمڑا وغیرہ خریدتے تھے اور اس کے بدلے میں انہیں ضرورت کا سامان اور ہتھیار اور دوائیں بھی فراہم کرتے تھے۔ لیکن جب امریکہ کے کسانوں نے آباد کاری کے لیے ان علاقوں کا رُخ کرنا شروع کیا تو ان تعلقات کی نوعیت بھی بدلنا شروع ہوگئی۔
تصادم کا آغاز
مشرقی امریکہ کے شہروں میں بسنے والے امریکیوں نے جب مغرب میں پھیلے وسیع رقبوں میں نئے مواقع تلاش کرنے کے لیے بڑی تعداد میں اس خطے کا رخ کیا تو اس کے ساتھ ہی حکومت نے یہاں آمد و رفت کے ذرائع بھی بڑھانا شروع کیے۔
امریکہ نے اس علاقے میں ریل گاڑی کی پٹڑیاں بچھا دیں اور لکوٹا کے علاقوں میں بیرونی باشندوں کی نقل و حرکت اور آبادیاں بڑھنے لگیں اور جب 1849 میں کیلیفورنیا سے سونا دریافت ہوا تو حالات نے ایک اور کروٹ لی۔
SEE ALSO: جب امریکہ کے صدر نے پہلی بار ہوائی جہاز کا سفر کیاکیلیفورنیا میں سونے کی کانوں تک جانے والے راستے لکوٹا قبائل کے علاقوں سے گزر کر جاتے تھے اور سونے کی دریافت کی وجہ سے امریکہ کے دیگر علاقوں سے تعلق رکھنے والوں ںے بھی یہاں کا رُخ کرنا شروع کردیا تھا۔ اس کے علاوہ قبائلی دیہات کے ساتھ زراعت پیشہ افراد کی بستیاں بھی بننا شروع ہوگئی تھیں۔
یورپی یا سفید فام پس منظر کے امریکیوں اور مقامی انڈین قبائل کا رہن سہن کئی اعتبار سے مختلف تھا۔ لکوٹا روایتی طور پر شکاری قبائلی تھے اور ان کا زیادہ تر انحصار بھینسوں کے شکار پر تھا لیکن ریل نظام کے آنے سے بھینسوں کی آبادی کم ہو رہی تھی اور لکوٹا کو اپنے آبائی پیشے سے متعلق خطرات لاحق ہوگئے تھے۔ سفید فام اور یورپی نسل سے تعلق رکھنے والے امریکی زراعت پیشہ تھے اور ان میں قبائلی روایات کا وجود ہی نہیں تھا۔ اس کے علاوہ قابلِ کاشت اراضی کو وسعت دینے کی وجہ سےبھی ان دونوں گروہوں کے مفادات میں ٹکراؤ پید اہو رہا تھا۔
معاشی و ثقافتی سطح پر پائے جانے والے اس اختلاف کی وجہ سے گاہے بگاہے ان دونوں برادریوں میں تصادم کے واقعات سامنے آنے لگے جس میں کئی بار تشدد کا عنصر بھی شامل ہوجاتا تھا۔ایسے واقعات میں اضافے کے بعد امریکہ نے آباد کاروں کے تحفظ کے لیے فوجی دستے بھیجنا شروع کردیے اور مقامی انڈین باشندوں کو ان کے علاقوں سے بے دخل کرنے کی کوششوں کا آغاز کردیا۔
مقامی انڈین باشندے اپنے آبائی علاقے چھوڑنے کے لیے تیار نہیں تھے۔ ان کا مؤقف تھا کہ جس زمین میں ان کے آباؤ اجداد دفن ہیں وہ انہیں کسی قیمت پر چھوڑ کر نہیں جائیں گے۔ اپنی زمین سے اسی جذباتی وابستگی کی بنیاد پر لکوٹا باشندوں نے امریکہ کی بھیجی گئی فوج کا مقابلہ شروع کردیا جسے بعد میں ’سو مزاحمت‘ کا نام دیا گیا۔
مزاحمتی کردار
لکوٹا قبائل کی اس مزاحمت ہی کا ایک کردار ’کریزی ہارس‘ بھی تھا۔ وہ ایک طاقت ور قبائلی رہنما اور ماہر جنگ جو تھا۔ اس مزاحمت میں کریزی ہارس خوف کی علامت سمجھا جاتا تھا۔
انسائیکلو آف بریٹینکا کے مطابق اس نے 1865 میں ریاست مونٹانا کی سونے کی کانوں تک سڑک تعمیر کرنے کے امریکی منصوبے کو مکمل نہیں ہونے دیا تھا۔ 1867 سے 1868 تک اس نے امریکہ کی فوج کے خلاف کئی بڑے حملوں میں حصہ لیا۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ بھینسوں کی چراگاہوں کے لیے سفید فام باشندوں اور حریف قبائل سے بھی برسرِ پیکار رہا۔
اپنے انہیں معرکوں کی وجہ سے وہ مقامی انڈین قبائل میں ایک دیومالائی کردار بن گیا۔ آج بھی لکوٹا باشندے کریزی ہارس کو اپنا ہیرو اور مقدس شخصیت کے طور پر یاد کرتے ہیں۔
اس کی تاریخ پیدائش تو کسی کو معلوم نہیں لیکن مختلف اندازوں کے مطابق وہ 1840 سے 1844 کے درمیان پیدا ہوا تھا۔ اس کے بارے میں ہمیں اتنا ضرور معلوم ہے کہ 1877 میں جب اس کا انتقال ہوا تو اس کی عمر پوری چالیس برس بھی نہیں ہوئی تھی۔
SEE ALSO: جب برطانوی فوج واشنگٹن ڈی سی میں داخل ہوئیکریزی ہارس کی کوئی تصویر دستیاب نہیں ہے لیکن کہاجاتا ہے کہ وہ کوئی دراز قد شخص نہیں تھا اور اس کی رنگت بھی دیگر لکوٹا باشندوں کے مقابلے میں زیادہ صاف تھی۔
لڑکپن میں کریزی ہارس اپنے لکوٹا مذہب کی تعلیمات بڑے شوق سے سنا کرتا تھا۔ اس کا باپ قبیلے کا مذہبی پیشوا اور طبیب تھا۔کریزی ہارس نے اچھی عادات سیکھنے کے ساتھ شکار کی بھی مہارت حاصل کی تھی۔ وہ گھنٹوں جنگلی جانوروں کا مشاہدہ کرتا تھا۔ وہ جب بھی کسی پرندے یا ہرن کا شکار کرتا تو شکرانے اور تاسف کے اظہار کے لیے دعائیہ گیت گاتا تھا جواس کے والد نے بچپن ہی میں اسے سکھا دیے تھے۔ پھر وہ اپنے شکار گوشت کا کچھ حصہ ان خاندانوں کو پہنچاتا جن کے لیے کوئی شکار کرنے والا نہیں ہوتا تھا اور وہ یہ اس لیے بھی کرتا تھا کہ یہی لکوٹا کے قبائلی عمائدین کی ریت تھی۔
سردار کی لاش
کریزی ہارس اپنی اسی زندگی میں مگن تھا اور بچپن سے لڑکپن کی منزلیں طے کررہا تھا کہ ایک غم ناک واقعے سے اسے پہلی بار اندازہ ہوا کہ ان میدانوں اور پہاڑوں میں انڈینز کے علاوہ بھی کوئی بستا ہے۔ اس نے ایک دن دیکھا کہ اس کے قبیلے کے لوگ ایک سخت جان سردار کی لاش لے کر لوٹے ہیں۔ اس سردار کی دلیری کی وجہ سے اسے مقامی زبان میں ’فاتح ریچھ‘ کہا جاتا تھا۔
اسے معلوم ہوا کہ ایک سفید فام شخص کی گائے پر ہونے والے تنازع کے بعد فوجیوں نے اسے گولی ماردی تھی۔ اگلے چند برسوں میں کریزی ہارس نے دو بار انڈیئنز کے گاؤں جلتے دیکھے جہاں فوجیوں نے عورتوں اور بچوں سمیت ہر ایک کو قتل کر ڈالا تھا۔
ان واقعات نے اس کی زندگی کا رُخ بدل دیا۔ اب کریزی ہارس خاموش خاموش رہنے لگا تھا۔ وہ کئی کئی دن اپنے گاؤں سے دور کسی پہاڑی پر چلا جاتا تھا۔ اسی معمول کو دیکھتےہوئے اس کے گاؤں والوں نے دیوانے گھوڑے یا کریزی ہارس کا نام دیا تھا۔ کیوں کہ جنگلی گھوڑے بھی دور دراز دوڑتے پھرتے رہتے ہیں۔
کریزی ہارس کو اب اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنا تھا۔ ایک دن اس کا باپ اسے بلند پہاڑوں میں لے گیا۔ وہاں دونوں نے ملک کر دعائیہ گیت گائے۔ پھر وہ اکیلا تین دن اور راتوں کے لیے پہاڑ پر رک گیا۔ اس دوران وہ بھوکا پیاسا رہا۔ اس نے اپنے عقیدے کے مطابق ’عظیم روح‘ سے زندگی کا راستہ دکھانے کے لیے خواب میں رہنمائی کی التجا کی اور پھر اس نے ایک خواب دیکھا۔
کریزی ہارس نے خواب میں دیکھا کہ ایک شخص سیاہ بادلوں میں گھوڑا دوڑا رہا ہے اور مسلسل تاریکی سے لڑ رہا ہے۔ اس کے آس پاس گولیاں برس رہی ہیں لیکن ایک گولی بھی اسے چھو نہیں رہی ہے۔اس شخص نے ایک کان میں پتھر پہن رکھا ہے اور اس کے سر پر کسی پرندے کا پر لگا ہوا ہے۔ اس کے پورے جسم پر روشنی کی شعاعوں جیسی سفید دھاریاں بنی ہوئی ہیں۔ ایک روشنی سی اس کے پیچھے پیچھے ہے جو کبھی کبھی اندھیرے میں چھپ جاتی ہے۔
کریزی ہارس نے اس خواب کو اپنے لیے اشارہ سمجھا۔ اسے معلوم تھا کہ اس کے لوگوں کے لیے سیاہ دور شروع ہونے والا ہے۔ اس نے خواب میں دیکھے گئے شخص جیسا حلیہ بنایا۔ وہ اپنے لوگوں کی زمین کے دفاع کے لیے نکل کھڑا ہوا۔ اس کی جنگ اپنی آبائی زمین پر اپنے لوگوں کے حق کے لیے تھی۔
Your browser doesn’t support HTML5
وہ 20 معرکوں میں امریکی فوجیوں سے لڑا۔ ان میں سے کسی ایک موقعے پربھی اسے کوئی گولی چھو کر نہیں گزری۔ وہ پوری یکسوئی سے جنگ لڑتا تھا۔ اس کی کمان میں لڑنے والے جوان اس کے پیچھے ’بہادر بنو‘ اور ’زمین سدا رہے گی‘ کے نعرے بلند کرتے تھے۔
لیکن جس زمین پر یہ لوگ بستے تھے وہ ہمیشہ کب رہنے والی تھی۔ حکومت نے اپنی مہم تیز کردی تھی۔ فوج نے کئی انڈینز کے دیہات تاراج کردیے تھے اور جو ہتھیار ڈالنے پر آمادہ نہیں ہوا اسے گرفتار کرلیا جاتا تھا۔
فوج کا پیغام
لکوٹا قبائل جن جنگلی بھینسوں کا شکار کرکے خوراک اور ان کی کھالوں کی تجارت کرتے تھے ان کی چراگاہیں آبادکاروں اور فوجیوں کی شکار گاہیں بن گئی تھی اس لیے یہ اب ناپید ہوچکی تھیں۔ اپنی زمین کے لیے فوج سے لڑنے والے لکوٹا قبائل کو بھوک سے لڑنا تھا اس لیے وہ کریزی ہارس کے پاس اپنی فریاد لے کر آئے۔
حکومت کریزی ہارس کو پیش کش کرچکی تھی کہ اگر وہ خود کو حکومت کے حوالے کردے تو اس کے لوگوں کو ان کی مرضی کے علاقوں میں شکار کی اجازت دے دی جائے گی۔ بھوک کے سامنے اس کے قبیلے والوں کے قدم اکھڑ چکے تھے۔ اس لیے چھ مئی 1877 کو نبراسکا میں کریزی ہارس نے خود کو حکومت کے حوالے کردیا۔ حکومت نے کریزی ہارس اور اس کے قبیلے کے لوگوں سے یہ وعدہ کیا تھا کہ وہ جہاں چاہیں رہ سکتے ہیں لیکن بعد میں یہ وعدہ پورا نہیں کیا گیا۔
پانچ ستمبر 1877 کواس وعدہ خلافی پر کریزی ہارس حکومتی عہدے داروں سے احتجاج کرنے گیا۔ وہ شدید غصے میں تھا۔ حکومتی محافظ جب اسے گرفتار کرنے کے لیے بڑھے تو اس نے فرار ہونے کی کوشش کی۔ اسی دوران ایک فوجی نے اس پر چاقو سے حملہ کیا جس سے وہ شدید زخمی ہوگیا اور اگلے ہی روز اس کی موت واقع ہوگئی۔
کریزی ہارس کی موت کے دہائیوں کے بعد مقامی قبائلیوں نے 1939 میں اس کا ایک بہت بڑا مجسمہ بنانے کے لیے کوششوں کا آغاز کیا۔ یہ کام 1947 میں پولش نژاد امریکہ مجسمہ ساز کورسزاک زیولکوسکی کے ذمے لگایا گیا۔ مجسمے میں کریزی ہارس کو گھوڑے پر سوار اپنے قبائل کی زمین کی طرف اشارہ کرتے ہوئے دکھایا جانا تھا۔ لیکن ایک پورے پہاڑ کو تراش کر سینکڑوں فٹ لمبا اور اونچا مجسمہ تراشنے کا منصوبہ آج تک مکمل نہیں ہوسکا ہے۔
ستر برسوں سے زائد عرصے میں صرف پہاڑ تراش کر کریزی ہارس کا چہرہ ہی بنایا جاسکا ہے البتہ یہ یادگار اب ساؤتھ ڈکوٹا کے سیاحتی مقامات میں شمار ہوتی ہے اور وہاں آنے والوں کو مقامی قبائل کے اس ہیرو کی یاد دلاتی ہے جس کے لیے اس کے ساتھی میدان میں یہ نعرے لگایا کرتے تھے ’کریزی ہارس تمہار ے لوگوں کا تم پر بڑا مان ہے، آگے بڑھو، بہادر بنو ، اپنے لوگوں کا دفاع کرو۔‘