حال ہی میں فرانسیسی ڈاکٹر اور طبی محقق مارتے گوتیئر کا انتقال ہوا ہے۔ وہ ان خواتین سائنس دانوں کی طویل فہرست میں شامل ہیں جن کی سائنسی دریافت یا تو ان کے مرد رفقائے کار کے کھاتے میں ڈال دی گئیں یا انہیں عالمی اعزازت دینے کے بجائے کسی مرد محقق کو دے دیے گئے۔
مارتے گوتیئر گزشتہ ہفتے 30 اپریل کو دنیا سے رخصت ہوئیں۔ انہوں نے 1958 میں دریافت کیا تھا کہ ڈاؤن سنڈروم والے افراد کے خلیات میں ایک اضافی کروموسوم ہوتا ہے۔لیکن وہ اپنی کم استعداد والی خرد بین کی وجہ سے اس اضافی کروموسوم کی ٹھیک ٹھیک نشاندہی نہیں کرسکی تھیں۔
ڈاؤن سنڈروم ایک جینیاتی بیماری ہے جو جسمانی اورذہنی نشو نما کو متاثر کرتی ہےاور اسے متاثرہ افراد چہرے کے مخصوص خدو خال سے بھی پہچانے جاتے ہیں۔
ایک سائنس جرنل کو دیے گئے انٹرویو میں ڈاکٹر گوتئیر ںے بتایا تھاکہ 'سادہ لوحی' کا مظاہرہ کرتے ہوئے انہوں ںے اپنے زیرِ تحقیق نمونے ایک اور ماہرِ جینیات جیروم لوژن کے حوالے کردیے تھے۔اس کے چھ ماہ بعد اس اضافی کروموسوم کے بارے میں لوژن کا مقالہ ایک سائنس جرنل میں دیکھ کر انہیں حیرانی ہوئی۔
مارتے گوتیئر کے لیے اس سے بھی بڑھ کر حیران کُن بات یہ تھی کہ اس مقالے پر لوژن کا نام پہلے درج تھا اور مارتے کا نام نہ صرف ایک معاون کے طور پر شامل کیا گیا تھا بلکہ ان کے نام کے ہجے بھی غلط تھے۔
یہ تاثر 1994 تک برقرار رہا اور بعد ازاں فرانس کے انسیرم میڈیکل ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کی ایتھکس کمیٹی نے یہ وضاحت کی کہ اس تحقیق میں ممکنہ طور پر لوژن نے 'بڑا' کردار ادا نہیں کیا تھا اور کمیٹی نے مارتے کی تحقیق کو سراہا تھا۔
لیکن سائنسی تحقیق میں یہ پہلا موقع نہیں تھا کہ کسی خاتون کی دریافت کا سہرا کسی مرد کے سر باندھ دیا گیا ہو۔ یہاں ماضی کی چند ایسی ہی چند مثالیں بیان کی جارہی ہیں۔
روزالین فرینکلن
ڈی این اے کی دریافت کو گزشتہ صدی میں سائنس کی اہم ترین کامیابیوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ اس سلسلے میں فرانسس کرک اور جیمز واٹسن کے نام لیے جاتے ہیں جنہیں ڈی این اے کی ساخت دریافت کرنے پر نوبیل انعام بھی دیا گیا تھا۔
لیکن بنیادی طور پریہ کام پہلے ایک برطانوی خاتون سائنس دان روزالین فرینکلن نے کر لیا تھا۔ وہ 1952 میں اپنے ایکسرے امیج 'فوٹو51' کے تجربے سے ڈی این اے کی ساخت دریافت کرچکی تھیں۔
فرانسس کرک اور جیمز واٹس بھی اس وقت اسی نظریے پر علیحدہ اپنی تحقیق جاری رکھے ہوئے تھے۔ ان کے تحقیقی نتائج روزالین کے ساتھ ہی ایک سائنسی تحقیقی جریدے میں شائع ہوئے۔
ان دونوں کا مشترکہ مقالہ اس جریدے میں ترتیب کے اعتبار سے روزا لین کے مقالے سے اوپر شائع ہوا تھا اس لیے یہ قیاس کرلیا گیا کہ روزالین کی تحقیق اس دریافت کی تائید میں شائع کی گئی ہے۔
یہ مقالہ شائع ہونے کے بعد 1962 میں کرک اور واٹسن کو نوبیل انعام دیا گیا جب کہ روزا لین اس سے چار سال قبل ہی صرف 37 برس کی عمر میں انتقال کرچکی تھیں۔
بعدازاں 1961 میں لکھا گیا ایک خط 2013 میں سامنے آیا جس میں کرک نے ڈی این اے کی ساخت کے بارے میں روزالین کی تحقیق کی اہمیت کو تسلیم کیا تھا۔
جیکولین بیل برنیل
برطانوی ماہرِ فلکیات جیکولین بیل برنیل نے 1967 میں انتہائی زیادہ مقناطیسیت رکھنے والے اور حرکت میں رہنے والے نیوٹران ستارے 'ریڈیو پلسر' دریافت کیے تھے۔ وہ اس وقت محض ایک پوسٹ گریجویٹ تھیں۔
بعدازاں ان کے نگران محقق اور مرد خلا نورد نے اس دریافت پر 1974 کا نوبیل انعام حاصل کیا۔
لیز مائٹنر
آسٹرین سوئیڈش ماہر طبعیات لیز مائٹنر نیوکلیئر فشن کی دریافت کرنے والے کلیدی سائنس دانوں میں شامل تھیں۔ نیوکلیئر فشن ایٹم کے اندر ہونے والا ایک ردعمل ہے جس کے نتیجے میں اس کا مرکزہ یا نیوکلیئس دو حصوں میں تقسیم ہوجاتا ہے۔جوہری توانائی اسی عمل کے ذریعے پیدا کی جاتی ہے اور ایٹم بموں میں بھی یہ ٹیکنالوجی استعمال ہوتی ہے۔
نیوکلیئر فشن کی دریافت میں لیز کے کردار کو سراہتے ہوئے معروف سائنس دان آئن سٹائن نے انہیں ’جرمن میری کیوری‘ قرار دیا تھا۔ لیکن اس دریافت پر لیز کے دیرینہ رفیقِ کار اور جرمن سائنس دان اوٹو ہان کو کیمیا کے شعبے میں 1944 کا نوبیل انعام دیا گیا۔
شین شنگ وو
دوسری عالمی جنگ کے دوران جوہری ہتھیاروں کی تیاری کے لیے شروع ہونے والے معروف مینہیٹن پراجیکٹ میں شریک چینی نژاد امریکی سائنس دان ڈاکٹر شین شنگ وو نے ایک اہم تجربہ کیا تھا جو ان کے نام سے موسوم ہے۔
اس تجربے میں ایٹمی ذرات کے بارے میں اہم معلومات سامنے آئی تھیں لیکن بعدازاں ان کے مرد ساتھی اس تحقیق پر 1975 میں طبعیات کا نوبیل انعام حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے۔
کئی نام اور بھی ہیں
یہاں بیان کیے گئے چند نام وہ ہیں جن کی خدمات کا بعد میں اعتراف کرلیا گیا یا ان کی تحقیق کے بارے میں حقائق سامنے آگئےلیکن اس فہرست میں کئی اور نام بھی شامل ہوسکتےہیں۔
ان میں ایسی خواتین خانہ، ماؤں اور بیٹیوں کے نام بھی شامل ہوسکتے ہیں جن کے بارے میں تصور کیا جاتا ہے کہ انہوں ںے مرد سائنس دانوں کی دریافت یا تحقیق میں ان کی معاونت کی لیکن تاریخ ان کے بارے میں خاموش ہے۔ ان میں آئن سٹائن کی پہلی بیوی میلیوا مارچ کا نام بھی شامل ہے جوخود بھی ایک طبیعات دان اور ریاضی کی ماہر تھیں۔
امریکی مؤرخ ماگریٹ روسیٹر نے 1993 میں سائنسی ترقی میں خواتین کے کردار کو دبانے کے لیے کی گئی منظم کوششوں کو امریکہ کی ایکٹیوسٹ مٹلڈا جوزلین گیگ سے موسوم کرکے 'مٹلڈا افیکٹ' کا نام دیا تھا۔
فرانسیسی تاریخ دان نتالیہ پگیئرد میکال کا کہنا ہے کہ سائنسی ترقی میں خواتین کے کردار کو نصاب میں پوری طرح اجاگر نہیں کیا گیا ۔ان کے مطابق نصاب میں اس سے متعلق جو مواد شامل ہے اس سے یہ گمراہ کن تاثر قائم ہوتا ہے کہ سائنسی تحقیق میں چند گنی چنی خواتین نے ہی کردار ادا کیا ہے۔
[اس خبر میں شامل معلومات خبر رساں ادارے 'اے ایف پی' سے لی گئی ہیں۔]