ماہرین اور امدادی ایجنسیوں نے کہاہے کہ یوکرین پر روس کے حملے کے نتیجے میں دنیا بھر میں خوراک کی فراہمی بری طرح متاثر ہو رہی،کیونکہ " یورپ کی روٹیوں کی باسکٹ "کہلانے والاملک یوکرین ہی گندم، مکئی اور دیگر اناج کی یورپی ضروریات کو پورا کرنے کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔
یوکرین دنیا کی بھر مکئی پیداوار کا سولہ فیصد پیدا کرتا ہے، عالمی منڈیوں میں فروخت ہونے والی گندم کا 29فیصدحصہ یوکرین اور روس فراہم کرتا ہے۔ وہ جو کچھ برآمد کرتے ہیں اس کا زیادہ تر حصہ افریقہ، مشرق وسطیٰ اور جنوبی ایشیا کو جاتا ہے ، اور عملی طور پر بحیرہ اسود کی کوئی اور بندرگاہ ایسی نہیں جہاں سے اس بڑے پیمانے پر کارگو روانہ کیا جاتا ہو۔ اس لیے دنیا بھر میں کھانے پینے کی ایشا کی قیمتیں بڑھ رہی ہیں۔ ابھی تک اس بات کا اندازہ نہیں لگایا گیا ہے کہ یوکرین میں جاری جنگ کی وجہ سے اس سال کی فصل کو کتنا نقصان پہنچا ہے یا جنگ کی وجہ سے آنے والے موسم میں فصلوں کی بوائی ہوسکے گی یا نہیں۔
پہلے سے موجود خوراک کا بحران
اقوام متحدہ کے ورلڈ فوڈ پروگرام کے مطابق یوکرین پر روس کے حملے سے پہلے ہی عالمی سطح پر خوراک کی قیمتیں دس سال کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئیں تھیں۔25فروری کے بعد سے جس دن روس نے حملہ شروع کیا گندم کی قیمتوں میں 40 فیصد اور مکئی کی قیمتوں میں 16ہ فیصد اضافہ ہوا،کیونکہ جنگ کی کیفیت پہلے ہی ایندھن کی عالمی سپلائی میں خلل ڈالنے کا باعث بن رہی تھی۔ اوراگر روس کی توانائی کی برآمدات پر بھی پابندی عائد کی گئی تو یہ مسئلہ ڈرامائی طور پر مزید بگڑ جائے گا۔خوراک کی نقل وحمل کے بلند اخرجات بھی اس کی قیمتوں میں اضافے کا سبب بن رہے ہیں۔
SEE ALSO: واضح نہیں کہ یورپی یونین میں یوکرین کی رکنیت کا فیصلہ کب تک ہو گا، مبصرینخیراتی ادارے "بریڈفار دی ورلڈ "کےعبوری ڈائریکٹر جارڈن ٹیگ نے وی او اے کو بتایا کہ " ہم پہلے ہی عالمی سطح پر بھوک کے ایک ایسے بحران کا سامنا کررہے ہیں جو ہم نے کم از کم اس صدی میں نہیں دیکھا تھا۔"
اقوام متحدہ کے ورلڈ فوڈ پروگرام ،ڈبلیو ایف پی کے سینئر ترجمان اسٹیوتراویلا نے کہا کہ " یہ دنیا بھر میں بھوک پیدا کرنے والے تنازع کی ایک مثال ہے اور اسے برقرار نہیں رکھا جاسکتا۔ ہمارے پاس یمن، جنوبی سوڈان اور افغانستان کی مثال موجود ہے۔ ورلڈ فوڈ پروگرام کے وسائل کی ایک قابل ذکر مقدار دنیا بھر میں خود انسانوں کے پیدا کردہ تنازعات کی وجہ سے پیدا ہونے والی بھوک سے نمٹنے پر صرف ہورہی ہے۔"
تشویش کے موضوعات:
ٹیگ نے کہا کہ گرچہ متعدد ممالک کو خوراک کی شدید قلت کا سامنا ہے لیکن ان کا گروپ خاص طور پر مشرق وسطیٰ اور مشرقی افریقہ کے ان متعدد ممالک کے بارے میں فکر مند ہے جن کا تمام تر انحصار ہی یوکرین اور روس سےآنے والی درآمدات پر ہے۔
انھوں نے کہا کہ یمن میں لاکھوں لوگ قحط کا سامنا کررہے ہیں اور مزید 16 ملین لوگوں کو خوراک کے بحران اور قحط کے خطرے کا سامنا ہے۔ انھوں نے کہا کہ موجودہ بحران سے پہلے ہی مہنگائی، کرنسی کی قدر میں کمی اور غیر ملکی ذخائر میں کمی نے یمن کے لیے خوراک کی درآمد میں سخت مشکلات کھڑی کر دی ہیں۔
ٹیگ نے کہا کہ اسی طرح لبنان کو جو اپنی گندم کا 60 فیصد یوکرین سے درآمد کرتا ہے، مناسب مقدار میں خوراک کی خریداری میں دشواری کا سامنا ہے۔ وہاں کی آبادی کا ایک تہائی سے زیادہ حصہ پہلے ہی خوراک کے عدم تحفظ کا شکار ہے جن میں شام کے تنازع سے بے گھر ہونے والے ہزاروں پناہ گزین شامل نہیں ہیں جن کا انحصار ہی اقوام متحدہ اور عالمی امدادی اداروں کی انسانی امداد پر ہے۔
SEE ALSO: بائیڈن :امریکہ یوکرین میں بند 20 ملین اناج مارکیٹ لانے کے منصوبے پر کام کر رہا ہےایتھوپیا کو بھی ، جو اس وقت ایک وحشیانہ جنگ میں گھرا ہوا ہے،بھوک کے بحران کا سامنا ہے ، یہ ملک اپنی گندم کا تقریباً25 فیصد یوکرین سے درآمدات پر انحصار کرتا ہے جہاں تنازع مزید خراب ہونے کا خدشہ ہے۔
اقوام متحدہ امداد جاری رکھے:
ڈبلیو ایف پی کے تارا ویلا نے کہا کہ ورلڈفوڈ پروگرام کو بھی زیادہ تر گندم اور مٹر یوکرین ہی فراہم کرتا ہے ۔یوکرین تنازع کی وجہ سے ان اشیا کی قلت ہوئی تو ان کے ادارے کی13 کروڑ 50 لاکھ لوگوں کوخوراک کی فراہمی کی صلاحیت بھی متاثر ہو گی۔ تاہم ڈبلیو ایف پی اپنا پروگرام جاری رکھے گا،کیونکہ ہمارے پاس سپلائی کی مہارت ہے اور ہم نے برسوں سے اس بات کو یقنی بنانے کی حکمت عملی تیار رکھی ہوئی ہے کہ مشکل وقت میں فراہمی جاری رکھ سکیں۔
انھوں نے کہا کہ ہمارے پاس دوسرے ذرائع بھی ہیں۔ مجھے اس بات کی فکر نہیں کہ ڈبلیو ایف پی گندم یا مٹر یا دیگر چیزیں کہاں سے لے گا۔ ہمیں جس چیز کی فکر ہے وہ یہ ہے کہ ہمیں اور دوسروں کو ان کی زائد قیمت ادا کرنا پڑے گی کیونکہ قیمتیں بڑھنے والی ہیں۔اور اگر قیمتیں بڑھیں تو ان کی ایجنسی فی کس راشن میں کمی کرنے پر مجبور ہوسکتی ہے۔
یوکرین میں خوراک کی صورتحال متزلزل:
یوکرین میں لڑائی کے باوجود ایسا لگتا ہے کہ خوراک کی سپلائی بند نہیں ہوئی، لیکن میڈیا رپورٹس بتاتی ہیں کہ دکانوں کو کھلا رکھنا مشکل ہوتا جارہا ہے۔ ملک کے سب سے بڑی سپرمارکیٹ چین فوزی گروپ کے زیادہ تر اسٹور کھلے ہیں ، یہاں تک کہ خارکیف اور کیف جیسے شہروں میں بھی، جنھیں روسی فوجیوں کے براہ راست حملوں کا سامنا ہے۔
بعض اوقات عارضی طور پر اسٹور کو بند کرنے کی ضرورت بھی پڑتی ہے ۔ خطرہ زیادہ ہوتو اسٹور مینیجر فیصلہ کرتے ہیں اور فوری نوٹس پر اسٹور بند کردیتے ہیں۔
خبررساں ادارے انٹر فیکس یوکرین کے مطابق ریٹیل آوٹ لیٹس کے ایک گروپ اور ملک کی وزارت برائے ڈیجیٹل ٹرانسفورمیشن نے مل کر ایک آن لائن نقشہ بنایا ہے جو بتاتا ہے کہ آیا گروسروی اسٹور کھلا ہے یا نہیں اور یہ کہ اس کے اوقات کار کیا ہیں۔