بھارت میں صحافت کر سکتی ہوں اور نہ ہی معمول کی زندگی گزار پا رہی ہوں: رعنا ایوب

رعنا ایوب، فائل فوٹو

بھارت میں وزیرِ اعظم نریندر مودی کی ناقد سمجھی جانے والی خاتون صحافی اور مصنفہ رعنا ایوب کا کہنا ہے کہ بھارت میں اُنہیں صحافت کی اجازت دی جا رہی ہے اور نہ ہی وہ معمول کی زندگی گزار پا رہی ہیں۔

خیال رہے کہ ممبئی ایئرپورٹ پر امیگریشن حکام نے منگل کو سرکردہ بھارتی خاتون صحافی اور مصنفہ رعنا ایوب کو لندن جانے والی پرواز کی روانگی سے قبل جہاز میں سوار ہونے سے روک دیا تھا۔

رعنا نے بتایا کہ وہ لندن میں انٹرنیشنل سینٹر فار جرنلسٹس (آئی سی ایف جے) کے زیرِِ اہتمام ایک کانفرنس میں شرکت کے لیے جا رہی تھیں۔ اُن کے بقول کانفرنس کا موضوع سوشل میڈیا پر ٹرولنگ جیسے موضوعات پر اظہارِ خیال کرنا تھا۔

رعنا ایوب نے وائس آف امریکہ کے نمائندے یوسف جمیل کو خصوصی انٹرویو دیا جس کی تفصیلات پیش کی جا رہی ہیں۔

سوال: آپ لندن کیا کرنے جا رہی تھیں؟

"میں لندن انٹرنیشنل سینٹر فار جرنلسٹس (آئی سی ایف جے) کے زیرِ اہتمام ایک تقریب میں شرکت کی غرض سے جارہی تھی۔ مجھ سے کہا گیا تھا کہ میں اپنے اُن تجربات کو شیئر کروں جو مجھے بھارت میں ایک خاتون صحافی کی حیثیت سے حاصل ہوئے ہیں ۔

اس تقریب میں سرکردہ صحافیوں، مدیروں اور سفارت کاروں کی شرکت متوقع ہے۔ مجھے 'دی گارڈین' کی مدیر کیتھرین وِنر نے اخبار کے دفتر میں آنے کی دعوت بھی دی تھی جہاں مجھے ان سے اور ان کے ساتھیوں کے ساتھ ملاقات کرنا تھی۔ میں لندن کے بعدمیں اٹلی جانے والی تھی جہاں مجھے6 اور 7 اپریل کو منعقد ہونے والے بین الاقوامی صحافتی میلے میں شرکت کرنا تھی اور بھارت میں جمہوریت کے موضوع پر اظہارِ خیال کرنا تھا۔'

رعنا ایوب، فائل فوٹو

سوال: غالباً آپ کو لندن میں منعقد ہونے والی تقریب میں آپ کو سوشل میڈیا پر ٹرولنگ ، آپ کے خلاف غلیظ مہم چلانے اور آپ کو جان سے مارنے کی دھمکیاں دینے کے اُس سلسلے پر بھی اظہارِ خیال کرنا تھا جس کا آپ کو ایک طویل عرصے سے سامنا ہے؟

'میں بارہا یہ کہہ چکی ہوں کہ یہ صورتِ حال میرے لیے انتہائی تکلیف دہ ہے۔ یہ صریحاً ذہنی ایذا رسانی ہے جس نے نہ صرف مجھے بلکہ میرے اہلِ خانہ کو بھی بری طرح متاثر کر دیا ہے۔ اس سے میرا کام اور زندگی کے باقی معمولات بھی اثر انداز ہوئے ہیں۔ مجھے ان معاملات پر بھی مختلف فورمز پر بات کرنا تھی۔ـ

سوال: آپ نے یہ الزام لگایا ہے کہ آپ کو آپ کے کام کی وجہ سے ہراساں کیا جا رہا ہے؟

یہ آج کی بات نہیں ہے ۔ یہ سلسلہ کئی برس سے جاری ہے۔ میرے خلاف اس گندی مہم میں گزشتہ ایک برس کے دوران شدت آئی ہے ۔ ٹرولنگ کے علاوہ میں جب بھی اپنی مرضی کی صحافت کرنے لگتی ہوں تو نوٹس آجاتاہے، میں جونہی معمولاتِ زندگی کی طرف لوٹنے کی کوشش کرتی ہوں تو نوٹس آ جاتا ہے۔

29 مارچ کو ممبئی ایئرپورٹ پر کیا ہوا؟

میں ڈیپارچر لاؤنج میں کوئی پونے بارہ بجے پہنچی تھی۔ میری ایئر انڈیا کی فلائٹ تین بجے روانہ ہونے والی تھی۔ میں نے چیک ان کیا اور بورڈنگ کارڈ حاصل کرنے کے بعد امیگریشن کاؤنٹر پر پہنچی تو وہاں موجود شخص نے میرا پاسپورٹ لینے کے بعد مجھے کیمرے میں دیکھنے کے لیے کہا اور پھراپنے ڈیسک پر موجود کمپیوٹر میں بار بار دیکھنے لگا۔

اُس نے مجھے کچھ بتائے بغیر وہاں کوئی پندرہ منٹ انتظار کرایا ۔ میرے استفسار پر کہ مجھے اُس نے وہاں کیوں روک رکھا ہے وہ مجھے اپنے ایک سینئر ساتھی کے پاس لے گیا۔ اس افسر نے مجھ سے کہا کہ ڈیٹا بیس میں میرے بارے میں کچھ منفی ریمارکس ہیں۔ بعدازاں بتایا گیا کہ مجھے اس لیے روکا گیا ہے کیوں کہ مجھے انفورسٹمنٹ ڈائریکٹریٹ نے سمن جاری کر رکھا ہے۔

بھارتی امیگریشن حکام کا کہنا ہے کہ رعنا ایوب کو غیر ملکی سفر کرنے سے اس لیے روکا گیا کیونکہ حکومتی ادارے انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ (ای ڈی) نے انہیں یکم اپریل کو طلب کر رکھا ہے۔

'ای ڈی' نے رواں برس فروری میں رعنا ایوب پر فراڈ اور منی لانڈرنگ کے الزامات کے تحت اُن کے اکاؤنٹ میں موجود ایک کروڑ 77 لاکھ روپے منجمد کر دیے تھے۔

رعنا ایوب نے مزید بتایا کہ امیگریشن کاؤنٹر پر موجودگی کے دوران ہی ای میل پر انفورسٹمنٹ ڈائریکٹریٹ کی جانب سے اُنہیں یکم اپریل کا سمن بھیجا گیا جس کے بعد امیگریشن حکام نے کہا کہ آپ گھر جا سکتی ہیں۔

سوال: ظاہر ہے آپ اب لندن یا اٹلی فوری طور پر نہیں جاسکتیں (رعنا ایوب نے انہیں غیر ملکی سفر سے روکنے کے خلاف دہلی ہائی کورٹ میں اپیل دائرکی ہےجس پر فوری سماعت کی توقع کی جارہی ہے)۔کیا آپ انفورسمنٹ ڈائریکٹریٹ کے سامنے پیش ہوں گی؟

جی ہاں! ماضی میں بھی انہوں نے مجھے جب بھی بلایا میں گئی۔ پچھلی بار میں پیش ہوئی تھی تو متعلقہ افسران نے مجھے بتایا تھا کہ اتر پردیش کی پولیس نے ('ہندو آئی ٹی سیل' نامی ایک غیر سرکاری تنظیم کی اس شکایت پر کہ رعنا ایوب نے کرونا وائرس کے متاثرین کی مدد کے لیے جمع کی گئی رقوم میں خرد برد کی ہے) میرے خلاف ایک ایف آئی آر درج کی ہے۔

Your browser doesn’t support HTML5

جنوبی ایشیا میں صحافیوں کو درپیش خطرات

' چار فروری کو جب میں کرونا وائرس سے متاثر ہونے کے بعد قرنطینہ سے ابھی ابھی باہر آئی تھی تو 'ری پبلک' ٹی وی نے یہ خبر د ی کہ انفورسمنٹ ڈائریکٹریٹ نے میرے بینک اکاؤنٹ منجمد کر دیے ہیں۔'

سوال: انفورسمنٹ ڈائریکٹریٹ نے آپ کے بینک اکاؤنٹس میں جمع ایک کروڑ 77 لاکھ روپے منجمد کر دیے ہیں اور آپ کے خلاف درج فراڈ اور منی لانڈرنگ کے الزامات کے ایک معاملے کے سلسلے میں تحقیقات ہو رہی ہے۔ آپ اپنے دفاع میں کیا کہنا چاہتی ہیں؟

اس الزام میں کوئی صداقت نہیں کہ میں نے کرونا وائرس کے متاثرین کے لیے جمع کی گئی رقوم کا غلط استعمال کیا ہے۔ جیسا کہ میں پہلے بھی بتا چکی ہوں کہ انفورسمنٹ ڈائریکٹریٹ اور انکم ٹیکس ڈپارٹمنٹ کے سامنے میں نے جو دستاویزات رکھی ہیں وہ یہ واضح کرتی ہیں کہ ان رقوم کا کوئی بھی حصہ کسی اور مقصد کے لیے صرف نہیں کیا گیا۔ نہ میں نے اسے ذاتی اخراجات کو پورا کرنے کے لیے استعمال کیا ہےاور نہ ہی فلاحی مقاصد کے لیے خلوصِ نیت سے حاصل کیے گیے خیراتی فنڈز میں کسی طرح کی خرد برد کی گئی ہے۔


کیا آپ کے ساتھ یہ سب کچھ اس لیے ہو رہا ہے کہ آپ مودی حکومت کی ناقد ہیں؟

میں کسی کے خلاف یا حق میں نہیں ہوں۔ میں وہی کہتی اور لکھتی ہوں جو سچ ہے۔ میڈیا کو بے خوفی اور غیر جانبداری سے کام کرنے کی اجازت ہونی چاہیے۔ اگرصحافی سچ بولیں تو کسی حکومتی ادارے کو ان کے خلاف استعمال کرنا جمہوریت کی پیشانی پر ایک بدنما داغ ہے۔ یہ سراسر آزادیٔ اظہارِ رائے کے منافی ہے۔

لندن کے لیے روانگی سے صرف ایک گھنٹہ پہلے مجھے انفورسمنٹ ڈائرکٹوریٹ کی طرف سے سمن جاری کرنا مضحکہ خیز ہے حالانکہ میں نےلندن اور اٹلی میں ہونے والی تقریبات میں اپنی شرکت کے بارے میں تین ہفتے پہلے ٹوئٹ کی تھیں۔

یہ بات تو اور بھی زیادہ تعجب خیز بلکہ احمقانہ ہے کہ مجھے سمن تب جاری کیے جاتے ہیں جب میں دو اہم تقریبات میں شرکت کرنے کی غرض سے بیرونِ ملک سفر کے لیے ایئرپورٹ پر پہنچ چکی تھی۔