یہ سرد جنگ کا دور تھا جب دنیا کی سب سے بڑی دو طاقتوں یعنی کمیونسٹ نظریات پر قائم ریاست سوویت یونین اور امریکہ کے درمیان اثر و رسوخ کی کشمکش جاری تھی۔ دونوں ہی طاقتیں اپنے اتحادی ممالک کی صف بندی کرچکے تھے جس کے لیے معاشی اور دفاعی تعاون سمیت ہر حربہ استعمال کیا جارہا تھا۔
اسی دور میں ایک ایسے بحران نے جنم لیا جس کے بعد دنیا پر ان دونوں ایٹمی قوتوں کے ٹکرانے کا خطرہ منڈلاتا رہا۔ اس بحران کو تاریخ میں ’کیوبن میزائل کرائسز‘ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔
اس بحران کا آغاز اس وقت ہوا جب سوویت یونین کے سربراہ نیکیتا خروشچف نے 21 مئی 1962 کو کیوبا میں نیوکلیئر میزائل نصب کرنے کا فیصلہ کیا۔
کیوبا میں 1959 میں آنے والے انقلاب کے بعد فیڈل کاسترو کی سربراہی میں ایک سوشلسٹ حکومت قائم ہوگئی تھی۔ نظریاتی وابستگی کی وجہ سے کاسترو نے سرد جنگ میں سوویت یونین کے کیمپ میں جانے کا فیصؒلہ کیا تھا۔
امریکہ سے جغرافیائی قربت کی وجہ سے سوویت یونین کے لیے کیوبا ایک اہم اتحادی تھا۔ جب کہ کاسٹرو کے حکومت سنبھالنے کے بعد عسکری اور معاشی اعتبار سے اس نے سوویت یونین پر انحصار بڑھانا شروع کردیا تھا۔
سوویت یونین پہلے ہی مغربی یورپ میں اپنے خلاف پائے جانے والے ایٹمی ہتھیاروں کے خطرے کو ٹالنے کے لیے کسی موقعے کی تلاش میں تھا۔ اس کا یہ خوف تھا کہ امریکہ نیٹو میں اپنے اتحادی ملک ترکی میں جوہری ہتھیار لا سکتا ہے۔
یورپ میں سوویت یونین کے ساتھ ترکی کی سب سے طویل سرحد ملتی تھی۔ اس لیے سوویت یونین کے سربراہ خروشچف نے کسی ممکنہ خطرے سے نمٹنے کی پیش بندی کے لیے کیوبا میں ایٹمی میزائل نصب کرنے کا فیصلہ کیا ۔
اس فیصلے پر امریکہ نے سخت ردِعمل دینے کا فیصلہ کیا۔ چار ستمبر 1962 کو صدر جان ایف کینیڈی نے انتباہ کیا کہ اگر کیوبا میں میزائل نصب کیے گئے تو اس اقدام کے ’ سنگین نتائج‘ سوویت یونین کو بھگتنا ہوں گے۔
اس اعلان کے بعد امریکہ نے سوویت یونین کے عزائم پر نظر رکھنا شروع کردی تھی۔ 14 اکتوبر 1962 کو امریکہ کے ایک جاسوس طیارے یو ٹو کے ذریعے ملنے والی تفصیلات سے تصدیق ہوگئی کہ سوویت یونین کیوبا میں میزائل نصب کرچکا ہے۔
یہ میزائل امریکہ کی ریاست فلوریڈا سے صرف 145 کلو میٹر کے فاصلے پر نصب کیے گئے تھے جس کا مطلب یہ تھا امریکہ کے کئی شمال مشرقی شہر جوہری ہتھیار لے جانے والےسوویت یونین کے ان میزائلز کے نشانے پر تھے۔
وہ 13 دن
کیوبا میں سوویت یونین کی جانب سے میزائل نصب کرنے کی تصدیق ہونے کے بعد ہی اس تنازع کے آغاز ہوا جس میں روس اور امریکہ کے درمیان ایٹمی جنگ کا خطرہ پیدا ہو گیا۔
اس تنازع میں امریکہ کے صدر کینیڈی اور سوویت سربراہ خرشچیف آمنے سامنے تھے۔ کینیڈی سپاٹ چہرے کے ساتھ دھیمے مگر پر پختہ لہجے میں دنیا کو اس بحران کے سنگین نتائج سے آگاہ کررہے تھے جب کہ خروشچف مسلسل شعلہ بیانی سے کام لے رہے تھے۔
جاسوس طیارے کی جمع کی گئی تفیصلات اور تصاویر کے ساتھ 16 اکتوبر کو صدر کینیڈی کو ایک بریفنگ دی گئی۔ ان کے سامنے دو ممکنہ اقدامات رکھے گئے جس میں ایک بحری راستوں کی ناکہ بندی تھی اور دوسرا براہ راست حملہ۔
امریکہ نے یہ بحران شروع ہونے کے بعد خفیہ نگرانی بڑھا دی۔ صدر کینیڈی کو دی گئی بریفنگ کے اگلے ہی روز ایک اور یو ٹو طیارے سے مزید معلومات موصول ہوئیں۔ اس میں مزید میزائلوں کی تنصیب کی نشان دہی کی گئی تھی۔ اس بار 16 سے 32 میزائل نصب کرنے کی اطلاع دی گئی تھی۔
یہ اطلاع موصول ہوتے ہی امریکی فوج کے یونٹس نے جنوب مشرقی اڈوں کی نقل و حرکت شروع کردی۔ کشیدگی بڑھ رہی تھی اور جنگ کے بادل گہرے ہورہے تھے۔
کیوبا کا گھیراؤ
ایسی کشیدہ ماحول میں زبانی اور عملی پیغام دونوں کی یکساں اہمیت ہوتی ہے۔ کبھی ہتھیار سفارت کاری کو مؤثر بناتے ہیں تو کبھی سفارت کاری ہی کو بطور ہتھیار استعمال کرتے ہیں۔
صدر کینیڈی نے ان دونوں محاذوں پر پیش قدمی کا فیصلہ کرلیا تھا۔ انہوں نے 22 اکتوبر کو سوویت یونین کو ایک خط لکھا۔ خط کے متن میں سفارتی پیرائے میں خروشچف کو اس بحران کے نتائج سے آگاہ کیا گیا تھا۔
صدر کینیڈی نے خروشچف کو مخاطب کرتے ہوئے لکھا:’’ میں نہیں سمجھتا کہ آپ یا کوئی بھی عقلِ سلیم رکھنے والا شخص جوہری ہتھیاروں کے اس عہد میں، جانتے بوجھتے دنیا کو کسی ایسے جنگ میں دھکیلے گا، جس کے بارے میں روزِ روشن کی طرح واضح ہے کہ کوئی ملک یہ جنگ جیت نہیں سکے گا۔ اس جنگ کے تباہ کُن نتائج پوری دنیا کے ساتھ ساتھ اس فریق کو بھی بھگتنے پڑیں گے جو اس کا آغاز کرے گا۔‘‘
اسی شام صدر کینیڈی نے ٹی وی پر خطاب میں کیوبا کا بحری محاصرہ کرنے اور وہاں طیار ے اتارنے کے انتظامات کرنے کے احکامات جاری کردیے۔ اس پیش قدمی نے واضح کردیا کہ ماحول کی حدت میں مزید اضافہ ہوگا۔
اسی دوران اہم علاقائی تنظیم ’آرگنائزیشن آف امریکن اسٹیٹس‘ نے بھی امریکی اقدامات کی تائید کا اعلان کردیا۔جب کہ اگلے ہی روز بحری ناکہ بندی کے لیے امریکی بحریہ کے بیڑے نے کیوبا کی جانب بڑھنا شروع کردیا۔
جواب میں روس نے بھی اپنی چار ایٹمی آبدوزوں کو میدان میں اتار دیا جب کہ جنگی سازو سامان کی رسد کیوبا لے کر جانے والے اپنے بیڑے کی نقل و حرکت روک دی۔
صدر کینیڈی کے خط کے جواب میں خروشچف نے کیوبا کے بحری محاصرے کے فیصلے پر غصے کا اظہار کرتے ہوئے لکھا: ’’آپ افہام و تفہیم کی اپیل نہیں کررہے بلکہ ہمیں دھمکانا چاہتے ہیں۔‘‘
اس کے ساتھ ہی سوویت یونین نے وارسا معاہدے کے تحت وسطی اور مشرقی یورپ کی اشتراکی ریاستوں کے ساتھ قائم اپنے دفاعی اتحاد کی افواج کو بھی الرٹ کردیا۔
کیوبا کے سربراہ فیڈل کاسٹرو کے ایک بیان نے حالات کی کشیدگی میں مزید اضافہ کیا۔ انہوں نے ایک تقریب میں تقریر کرتے ہوئے خروشچف پر زور دیا کہ وہ امریکہ پر ایٹمی حملہ کردے۔
تند و تیز بیانات اور عسکری اقدامات کے ساتھ سفارتی چالوں کا سلسلہ بھی جاری تھی۔ خروشچف نے صدر کینیڈی کے نام خط میں لکھا کہ اگر امریکہ کیوبا پر حملہ نہ کرنے کی یقین دہانی کرائے تو سوویت یونین اپنے میزائل اور فوجی اہل کار پیچھے ہٹانے کے لیے تیار ہے۔
جاسوس طیارہ مار گرایا
اس رابطے کے اگلے ہی روز کیوبا پر پرواز کرنے والے امریکہ کے جاسوس طیارے یو ٹو کو نشانہ بنایا گیا۔ تباہ ہونے والے اس امریکی طیارے کا پائلٹ ہلاک ہوگیا جو کہ اس بحران میں ہونے والا واحد جانی نقصان تھا۔
اس کے بعد خروشچف نے صدر کینیڈی کو ایک اور خط لکھا جس میں پیشکش کی کہ اگر امریکہ ترکی میں نصب کیے گئے اپنے میزائل ہٹا لیتا ہے تو جواب میں سوویت یونین بھی کیوبا سے اپنے میزائل ہٹا دے گا۔اس پیش کش کے جواب میں صدر کینیڈی نے میزائل ہٹانے کی صورت میں کیوبا کی بحری ناکہ بندی ختم کرنے کی یقین دہانی کرادی۔
یہ سفارتی رابطے بالآخر نتیجہ خیز ثابت ہوئے اور 28 اکتوبر کو خروشچف نے قدم پیچھے ہٹا لیے۔ سوویت یونین نے کیوبا میں اپنے نصب کیے گئے میزائل ہٹا دیے اور بحران ٹل گیا۔ایک خفیہ معاہدے کے تحت امریکہ نے ترکی میں نصب اپنے جوپیٹر میزائل بھی ہٹا دیے اور 20 نومبر 1962 کو صدر کینیڈی نے کیوبا کا بحری محاصرہ ختم کردیا۔
بحران کے بعد
اس بحران کے اگلے برس امریکہ اور سوویت یونین کے سربراہان ِمملکت کے درمیان ٹیلکس کے ذریعے ایک ’ہاٹ لائن‘ قائم کردی گئی۔ اس سے قبل دونوں سربراہان اپنے سفیروں ہی کی مدد سے پیغام رسانی کرتے تھے۔
میزائل بحران سے پہلے مئی 1962 میں کیوبا نے کئی امریکی کمپنیوں کے اثاثے سرکاری تحویل میں لے لیے تھے۔ اس کے بعد صدر کینیڈی نے کیوبا پر کڑی معاشی اور تجارتی پابندیاں عائد کردی تھیں۔ میزائل بحران سے دونوں ممالک کے درمیان پائی جانے والی کشیدگی دو چند ہوگئی تھی۔
سوویت یونین کے 1991 میں خاتمے کے بعد سرد جنگ کا عہد تو تمام ہوا لیکن کیوبا کے ساتھ امریکہ کے سفارتی تعلقات منقطع رہے۔ یہ تعلقات اس بحران کے نصف صدی بعد 2014 میں بحال ہوئے جب امریکہ کے صدر براک اوباما اور راؤل کاسترو نے سفارتی تعلقات بحال کرنے کا اعلان کیا۔