رسائی کے لنکس

تیل کی پیداوار کم کرنے کی حمایت:’پاکستان سعودی عر ب کو پیغام دینا چاہتا ہے امریکہ کو نہیں‘


مبصرین کا کہنا ہے کہ پاکستان سعودی عرب کو باور کرانا چاہتا ہے کہ وہ ریاض کے ساتھ اپنے دیرینہ تعلقات کو مزید مضبوط کرنے کا خواہاں ہے۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ پاکستان سعودی عرب کو باور کرانا چاہتا ہے کہ وہ ریاض کے ساتھ اپنے دیرینہ تعلقات کو مزید مضبوط کرنے کا خواہاں ہے۔

تیل پید ا کرنے والے ممالک کی تنظیم اوپیک پلس کی طرف سے خام تیل کی یومیہ پیدوار کم کرنے کے فیصلے کے بعد امریکہ اور سعودی عرب کے تعلقات میں تناؤ پیدا ہوا ہے جب کہ اسلام آباد نے اس فیصلے پر ریاض کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کیا ہے۔

یاد رہے کہ اوپیک نے اکتوبر کے اوائل میں عالمی منڈی میں تیل کی قیمتوں کو مستحکم رکھنے کے لیے تیل کی یومیہ پیدوار میں 20 لاکھ بیرل تک کمی کا فیصلہ کیا تھا جس پر امریکہ کی طرف سے تنظیم کے اہم رکن مملک سعودی عرب پر تنقید کی گئی تھی اور دو طرفہ تعلقات پر نظر ثانی کا انتباہ کیا تھا۔

پاکستان کے دفتر خارجہ کی طرف سے منگل کو سعودی عرب کے حمایت میں جاری ہونے والے بیان میں براہ راست امریکہ کا نام لیے بغیر کہا گیا ہے کہ اسلام آباد عالمی منڈی میں تیل کی قیمتوں میں اتار چڑہاؤ سےمتعلق سعودی عرب کے خدشات کی تائید کرتا ہے۔البتہ پاکستان نے واضح کیا ہے کہ اسلام آباد ایسے معاملات کو باہمی احترام ساتھ تعمیر ی انداز میں حل کرنے کا حامی ہے۔

سعودی عرب کے حمایت میں پاکستان کا بیان ایک ایسے وقت سامنے آیا ہے جب چند دن قبل امریکہ کے صدر جو بائیڈن نے پاکستان کے جوہری پروگرام کے بارے میں شکوک وشبہات کا اظہار کیا تھا۔

تاہم مبصرین کا کہنا ہے کہ پاکستان کی جانب سے سعودی عرب کی حمایت کے اظہار کا تعلق صد ر بائیڈن کے بیان سے نہیں ہے، بلکہ سعودی عرب سےاپنے دیرینہ تعلقا ت وجہ سے پاکستان اس کی تائید کررہا ہے ۔

مبصرین کا کہنا ہے کہ پاکستان سعودی عرب کو باور کرانا چاہتا ہے کہ وہ ریاض کے ساتھ اپنے دیرینہ تعلقات کو مزید مضبوط کرنے کا خواہاں ہے۔ کیوں کہ ماضی میں سعودی عرب نے بھی مشکل حالات میں پاکستان کا ساتھ دیا ہے۔

رواں سال فروری میں روس کی یوکرین پر جارحیت کے بعد عالمی منڈی میں تیل کی قیمتیں عدم استحکام کا شکار ہیں۔ اوپیک تنظیم کا مؤقف ہے کہ تیل کی یومیہ پیدوار کم کرنے کا فیصلہ عالمی منڈی میں تیل کی قیمتوں کو مستحکم رکھنے کے لیے گیا ہے۔ لیکن امریکہ کے نزدیک اس فیصلے سے روس کو فائدہ ہوگااور اس فیصلے کے سیاسی اسباب ہیں۔

اوپیک تنظیم نے اس تاثر کی تردید کی ہے۔ اس کے مطابق یہ فیصلہ غیرسیاسی ہے اور اس کا تعلق عالمی سطح پر تیل کی پیداوار کے انتظامی پہلو سے ہے۔

پاکستان کے بیان کس کے لیے ہے؟

بعض مبصرین کا کہنا ہے اوپیک کے فیصلے سے عالمی مارکیٹ میں خام تیل کی قیمت مزیدبڑھ سکتی ہے اور اس سے پاکستان جیسے ممالک بھی متاثر ہوں گے لیکن اس کےباوجود سعودی عرب سے اپنے دیرینہ تعلق کی وجہ سے پاکستان نے اس کی حمایت کرنا ضروری سمجھا۔

بین الاقوامی امور کے تجزیہ کار نجم رفیق کہتے ہیں کہ پاکستان ہمیشہ سعودی عرب کے ساتھ کھڑا رہا اور موجودہ حالات میں بھی اس تعلق کو مزید مضبوط کرنا چاہتا ہے۔اس لیے امریکہ کی طرف سے سعودی عرب کے خلاف آنے والے بیان کے بعد پاکستان نے یہ مناسب جانا کہ سعودی عرب کے ساتھ اس موقعے پر یکجہتی کا اظہار کیا جائے۔

ماسکو میں پاکستان کے سفیر کے طور پر خدمات انجام دینے والے شاہد امین کہتے ہیں کہ صدر بائیڈن کی طرف سے پاکستان کے جوہری پروگرام کے بارے میں بیان نہ بھی آتا تب بھی پاکستان کو سعودی عرب کی حمایت کرنا ہی تھی۔

شاہد امین کہتے ہیں کہ سعودی عرب کی حمایت میں پاکستان کا بیان امریکہ کی بجائے ریاض کے لیے پیغام ہے کہ اسلام آباد سعووی عرب کے ساتھ تعلقات کو کتنی اہمیت دیتا ہےا ور ان کے بقول، اس بیان کی وجہ سے امریکہ اور پاکستان کے تعلقات بھی متاثر نہیں ہوں گے۔

واضح رہے کہ صدر بائیڈن کے بیان کے بعد امریکہ کا دفتر خارجہ پاکستان کے جوہری اثاثوں کی سیکیورٹی کے لیے کیے گئے اقدامات پر اعتماد کا اظہار کرچکا ہے۔

امریکہ اور سعودی عرب کے تعلقات پر اثر

اگرچہ اوپیک کے فیصلے کی وجہ سے سعودی عرب اور امریکہ درمیان تناؤ پیدا ہوا ہے لیکن پاکستان کے سابق سفارت کار یہ سمجھتے ہیں کہ یہ صورتِ حال عارضی ہے۔ ریاض اور واشنگٹن کے تعلقات پر اس سے کوئی نمایاں فرق نہیں پڑے گا۔

شاہد امین کہتے ہیں کہ تیل کی پیداوار اور مسلم دنیا میں حاصل مرکزیت کی وجہ سے امریکہ کو سعودی عرب کی اہمیت کا ادراک ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ اگرچہ امریکہ سعودی عرب سے تعلقات پر نظر ثانی کا عندیہ دیا ہے لیکن امریکہ کو زمینی حقائق کو تسلیم کرتے ہوئے سعودی عر ب کے ساتھ تعلقا ت استوار رکھنے ہوں گے۔ اس لیے ان کے بقول عارضی اتارچڑہاؤ کے باوجود امریکہ اور سعودی عرب کے تعلقات پر کوئی فرق نہیں پڑے گا۔

عالمی امور کے ماہر نجم رفیق بھی اس بات کی تائید کرتے ہیں۔ ان کے نزدیک امریکہ کے سعودی عرب کے ساتھ نہایت قریبی دفاعی تعلقات ہیں اور اس بات کا کوئی امکان نہیں ہے کہ اوپیک کے فیصلے کے وجہ سے دونوں ممالک کے تعلقات کمزور ہوں گے۔

XS
SM
MD
LG