پاکستان کے شہر راولپنڈی کی پولیس نے دعویٰ کیا ہے کہ تھانہ روات کے علاقے میں کارروائی کے دوران بچوں سے زیادتی کی ویڈیوز نشر کرنے والے بین الاقوامی ڈارک ویب کے سرغنہ کو گرفتار کر لیا گیا ہے.
ملزم برطانیہ اور اٹلی میں بچوں سے زیادتی کے الزام میں سزا کاٹ چکا ہے جس کے بعد اسے ڈی پورٹ کر دیا گیا تھا۔
راولپنڈی پولیس کے مطابق ملزم سہیل ایاز کو تھانہ روات کے علاقے سے گرفتار کیا گیا ہے جہاں ایک محنت کش نے درخواست دی تھی کہ اس کے قہوہ فروش بیٹے کو سہیل نامی شخص نے اغوا کیا اور چار روز تک زیادتی کا نشانہ بناتا رہا۔
شہری کی درخواست پر پولیس نے ملزم کو گرفتار کیا تو اس کے حوالے سے سنسنی خیز انکشافات سامنے آئے ہیں جس کے مطابق ملزم مکروہ کام کا عادی ہے۔
پولیس کے مطابق ملزم نے دورانِ تفتیش تسلیم کیا کہ وہ 2009 میں برطانیہ سے سزا کاٹنے کے بعد ڈی پورٹ ہو کر پاکستان آیا تھا اور روات کے علاقے میں رہائش پذیر تھا۔
سٹی پولیس افسر فیصل رانا کا کہنا ہے کہ ایک بچے کے ساتھ زیادتی کے الزام میں پولیس نے جب سہیل ایاز کے گھر پر چھاپہ مارا تو تلاشی کے دوران اس کا موبائل، لیپ ٹاپ اور کیمروں سے بچوں سے زیادتی کی ہزاروں کی تعداد میں ویڈیوز اور تصاویر برآمد ہوئیں۔
ملزم نے تیس بچوں کے ساتھ زیادتی کا اعتراف کیا ہے جبکہ درحقیقت یہ تعداد کہیں زیادہ ہو سکتی ہے۔ پولیس اس سلسلے میں بچوں کے والدین سے رابطہ کر رہی ہے لیکن اگر سماجی دباؤ کے تحت وہ مدعی نہیں بھی بنتے تو پولیس اس معاملے میں خود مدعی بن کر اس شخص کو سخت سزا دلوائے گی۔
بچوں کی برہنہ ویڈیوز اور تصاویر بر آمد ہونے کے بعد ایف آئی اے سے رجوع کیا جارہا ہے اور حاصل ہونے والے لیپ ٹاپ، موبائل فونز اور کیمروں کو فرانزک کے لیے بھجوا دیا گیا ہے۔
ملزم ہے کون؟
ملزم سہیل ایاز کے حوالے سے ابتدائی تحقیقات کے مطابق یہ شخص خیبر پختونخوا کے سول سیکرٹریٹ محکمہ منصوبہ بندی کو کنسلٹنسی فراہم کر رہا تھا اور حکومت سے ماہانہ تین لاکھ روپے تنخواہ لیتا ہے۔
ملزم برطانیہ میں بین الاقوامی شہرت کے حامل فلاحی ادارے میں بھی ملازمت کر چکا ہے اور اسی ادارے میں ملازمت کے دوران اس پر بچے کے ساتھ زیادتی کا الزام لگا جس پر اُسے سزا بھی ہوئی۔
پولیس حکام کے مطابق ملزم سہیل اٹلی میں بھی بچوں کے ساتھ زیادتی کے مقدمات میں عدالتی مقدمہ بھگت چکا ہے اور اسے اٹلی سے بھی ڈی پورٹ کر دیا گیا تھا۔
ایس پی صدر رائے مظہر اقبال نے میڈیا کو بتایا کہ ملزم بنیادی طور پر چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ ہے جو انتہائی ذہین اور ڈارک ویب کو استعمال کرنے کا ماہر ہے۔ اس کے جرائم کی وجہ سے اس کی بیوی نو سال قبل اس کو چھوڑ کر چلی گئی تھی جبکہ اس کے والدین اور بہن بھائی بھی اس سے لاتعلق ہوگئے تھے۔
ڈارک ویب کیا ہے؟
ڈارک ویب کے 'لفظ' انٹر نیٹ پر موجود ایسے نیٹ ورک سرور کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں جو عام انٹر نیٹ صارفین کی پہنچ سے دور یا ناقابل تلاش ہوتے ہیں۔
ڈارک ویب ورلڈ وائیڈ ویب کا ایسا حصہ ہے جس تک پہنچنے کے لیے آپ کو خصوصی سافٹ ویئر کی ضرورت ہوتی ہے لیکن جب آپ ایک مرتبہ اس کے اندر پہنچ جاتے ہیں تو وہ بالکل ایسے ہی نظر آتی ہے جیسے کوئی بھی عام ویب سائٹ نظر آتی ہو۔
تاہم کچھ ویب سائٹ اس حد تک پوشیدہ ہوتی ہیں کہ کوئی سرچ انجن بھی اُنہیں ڈھونڈ نہیں سکتا اور خصوصی ایڈریس ہونے کی ہی صورت میں ان تک رسائی حاصل کی جاسکتی ہے۔
انٹر نیٹ کی دنیا کے اس حصے یعنی ڈارک ویب میں خصوصی مارکیٹیں یعنی ’ڈارک نیٹ مارکیٹس‘ بھی قائم ہیں جہاں غیر قانونی کاروبار جیسے آتشیں اسلحہ، منشیات یا خصوصی فحش فلمیں فروخت کی جاتی ہیں۔ ان ویب سائٹس کے لیے عموماً کرپٹو کرنسی جیسے بٹ کوائن یا ایسی ہی کرنسیاں استعمال کی جاتی ہیں۔
یہ دنیا ایسے لوگوں اور گروہوں کا مسکن ہوتی ہے جو خود کو عام دنیا یا حکومتوں اور قانون نافذ کرنے والے اداروں سے بچا کر رکھنا چاہتے ہیں۔
ایک تحقیق کے مطابق گوگل سرچ انجن کے ڈیٹا بیس میں صرف 16 فیصد ویب صفحات کا اندراج موجود ہے جبکہ باقی ویب سائٹس اب بھی گوگل کی پہنچ سے دور ہیں۔ اس لیے اُنہیں کسی کے لیے بھی تلاش کافی مشکل ہوتا ہے۔
ایسی صورت حال میں ڈارک ویب قانون نافذ کرنے والے اداروں کے کام کو مشکل ضرور بنا دیتی ہیں مگر ایسی مثالیں بھی موجود ہیں جب سیکیورٹی ایجنسیاں ایسی ویب سائٹس تک پہنچنے اور ان کو چلانے یا استعمال کرنے والوں تک پہنچنے میں کامیاب رہی ہیں۔
پاکستان میں ماضی میں بھی ڈارک ویب کا نام لیا جاتا رہا ہے، قصور میں قتل ہونے والی زینب قتل کیس کے ملزم عمران کے حوالے سے بھی دعویٰ کیا گیا تھا کہ اس کا تعلق بین الاقوامی ڈارک ویب گروہ سے ہے لیکن بعد میں یہ دعویٰ بے بنیاد قرار دیا گیا اور پولیس نے اس دعوے کو بے بنیاد قرار دیا۔