بیس سال پہلے ایک شخص ڈی آئی جی لاہور کے دفتر میں داخل ہوا اور دعویٰ کیا کہ اس نے بہت سے بچوں کو زیادتی کے بعد قتل کر دیا ہے۔ پولیس حکام سمجھے کہ وہ شخص پاگل ہے اور اسے ڈانٹ ڈپٹ کر کے دفتر سے نکال دیا۔
اس شخص نے گھر جا کر ایک طویل خط لکھا اور روزنامہ جنگ لاہور کو بھیج دیا۔ خط میں بچوں کے ساتھ زیادتی اور قتل کے اعتراف کے علاوہ 74 بچوں کی تصاویر بھی تھیں۔
ایڈیٹر نے وہ خط کرائم رپورٹر رئیس انصاری اور جمیل چشتی کے حوالے کر کے کہا کہ اس آدمی کا پتا لگائیں اور معلوم کریں کہ اس میں کتنی سچائی ہے۔ دونوں رپورٹرز نے پولیس کو آگاہ کرنے کے بجائے خود تحقیقات کرنے کا فیصلہ کیا۔ وہ خط میں درج پتے پر پہنچے جو راوی روڈ کا ایک مکان تھا۔ دروازے پر تالا لگا دیکھ کر دیوار پھلانگ کے مکان میں گھس گئے۔
مکان میں وہ سب کچھ تھا جس سے انھیں خط کی تحریر پر یقین آ سکتا تھا۔ بچوں کے فوٹو تھے۔ کپڑے جوتے تھے۔ تیزاب کا ڈرم تھا۔ دیوار پر خون کے چھینٹے تھے۔ اور وہ زنجیریں تھیں جن سے وہ بچوں کا گلا گھونٹتا تھا۔
رپورٹرز ابھی مکان کے اندر تھے کہ کسی نے پولیس کو اطلاع کر دی اور انسپکٹر عاشق مارتھ نے چھاپا مار دیا۔ وہ کرائم رپورٹرز کو جانتا تھا اس لیے اس نے کوئی کارروائی نہیں کی۔ رپورٹرز نے بھی اسے تفصیل نہیں بتائی۔ نومبر 1999 کے آخری ہفتے میں سو بچوں کے قاتل جاوید اقبال مغل کی لرزہ خیز داستان اخبار میں چھپی تو پورے ملک میں تہلکہ مچ گیا۔
خبر چھپنے کے بعد پولیس کو ہوش آیا کہ اس کے ہاتھ سے کتنا بڑا مجرم نکل گیا۔ اس نے جاوید اقبال کی تلاش شروع کر دی۔ گم شدہ بچوں کے والدین راوی روڈ تھانے آتے اور اپنے بچوں کی تصویر پہنچاتے۔ اخبارات روزانہ شہ سرخیاں لگاتے۔ حکومت اور پولیس دباؤ کا شکار تھی۔
چند روز بعد سوہاوا سے دو لڑکے پکڑے گئے جو جاوید اقبال کے ساتھی اور جرائم میں اس کے مددگار تھے۔ سی آئی اے نے ان سے پوچھ گچھ کی۔ ان میں سے ایک اسحاق عرف بلا تفتیش کے دوران پراسرار طور پر تیسری منزل سے گر کر ہلاک ہو گیا۔ سی آئی اے حکام کا کہنا تھا کہ اس نے فرار ہونے کے لیے تیسری منزل کی کھڑکی سے چھلانگ لگائی تھی۔
ایک ماہ بعد 30 دسمبر کو کرائم رپورٹر رئیس انصاری دفتر میں موجود تھے کہ انھیں جنگ کے ریسپشنسٹ نے فون کر کے بتایا کہ ان کا کوئی ملاقاتی آیا ہے جو اپنا نام جاوید اقبال بتاتا ہے۔ رئیس انصاری سیڑھیاں پھلانگتے ہوئے نیچے گئے اور جاوید اقبال کو خاموشی سے دفتر کے اندر لے گئے۔ انھوں نے جاوید اقبال کو ایک کمرے میں بٹھا کر تفصیلی انٹرویو کیا۔ اس دوران میں انھوں نے اپنے بھائی پولیس انسپکٹر بابر انصاری کو اطلاع کر دی۔ ادھر انٹرویو مکمل ہوا، ادھر پولیس دروازے پر تھی۔
پولیس نے ملزم کو اچانک پکڑ کر بے بس کیا۔ اس کی تلاشی لی تو اس کی جیب اور نیفے سے زہر ملا جو اس نے خودکشی کے لیے رکھا ہوا تھا۔
جاوید اقبال نے جنگ کو انٹرویو میں تمام جرائم کا اعتراف کیا۔ اس نے بتایا کہ وہ داتا دربار اور ایسے ہی مقامات پر گھر سے بھاگے ہوئے بچوں سے دوستی کرتا تھا، انھیں بہلا پھسلا کر راوی روڈ کے مکان لاتا تھا، ان کے ساتھ زیادتی کے بعد گلا گھونٹ کر انھیں مار ڈالتا تھا۔ پھر تیزاب کے ڈرم میں ان کے اعضا ڈال کر گلا دیتا تھا۔ بعد میں ان باقیات کو دریا میں بہا دیتا تھا۔
گرفتاری کے بعد جاوید اقبال کو اس کے ساتھی ساجد سمیت عدالت میں پیش کیا گیا اور فروری 2000 میں سماعت شروع ہوئی۔ جاوید اقبال بار بار بیان بدلتا رہا۔ کبھی اس نے کہا کہ تمام بچے زندہ ہیں۔ کبھی کہتا کہ اس نے اپنے ساتھ ناانصافیوں کا بدلہ لیا ہے۔ فرد جرم عائد ہوئی تو اس نے الزامات کا اعتراف کر لیا۔ 16 مارچ 2000 کو عدالت نے اسے سو بار سزائے موت کا حکم سنا دیا۔
جذباتی جج نے فیصلے میں لکھا کہ دونوں مجرموں کو بچوں کے ورثا کے سامنے اسی زنجیر سے پھانسی دی جائے جس سے وہ بچوں کا گلا گھونٹتا تھا۔ اس کے بعد ان کی لاشوں کے ٹکڑے کر کے تیزاب کے ڈرم میں ڈالے جائیں۔
جاوید اقبال نے سزا کے خلاف اپیل کی لیکن فیصلے کی نوبت نہیں آئی۔ گرفتاری کے دو سال بعد 9 اکتوبر 2001 کو جاوید اقبال اور اس کا ساتھی ساجد لاہور کی کوٹ لکھپت جیل میں مردہ پائے گئے۔ دونوں الگ کمروں میں قید تھے اس لیے ان کا ایک وقت میں خودکشی کرنا معمہ تھا۔ جیل حکام نے اصرار کیا کہ دونوں نے بستر کی چادروں کا پھندا بنا کر خودکشی کی ہے۔
20 سال گزر گئے لیکن پاکستان تبدیل نہیں ہوا۔ اب بھی کبھی فیصل آباد، کبھی قصور اور کبھی چونیاں سے بچوں کے ساتھ زیادتی اور قتل کی خبر آتی ہے تو بہت سی لوگوں کی نگاہوں میں جاوید اقبال کی تصویر گھوم جاتی ہے۔