انگریزی روزنامہ 'ڈان' سے منسلک صحافی سرل المیڈا نے بذریعہ ٹویٹ اعلان کیا ہے کہ وہ 'ڈان' سے الگ ہوگئے ہیں اور اب اخبار میں ان کا ہفتہ وار کالم بھی شائع نہیں ہوگا۔
اتوار کو اپنی ایک ٹویٹ میں سرل نے کہا کہ ان کا مستقبل قریب میں لکھنے کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔ انہوں نے یہ عندیہ بھی دیا ہے کہ وہ صحافت ہی سے کنارہ کش ہو سکتے ہیں۔
سرل المیڈا کو اس وقت بین الاقوامی شہرت ملی تھی جب انہوں نے 6 اکتوبر 2016 کو روزنامہ 'ڈان' میں چھپنے والی اپنی ایک رپورٹ میں اس وقت کی مسلم لیگ (ن) کی حکومت اور فوجی قیادت کے درمیان کالعدم تنظیموں کے معاملے پر اختلاف کا ذکر کیا تھا۔
اس خبر پر پاکستان کی سویلین حکومت اور فوجی اسٹیبلشمنٹ کے تعلقات سخت کشیدہ ہوگئے تھے کیوں کہ فوج کا خیال تھا کہ مذکورہ خبر خود حکومت کے ذمہ داران نے شائع کرائی تھی۔
اس خبر کی اشاعت پر اس وقت کے وزیرِ اطلاعات پرویز رشید کو اپنے عہدے سے مستعفی ہونا پڑا تھا جب کہ حکومت نے سرل المیڈا کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں شامل کردیا تھا۔
2018 کے عام انتخابات سے قبل سرل المیڈا نے ملتان ایئر پورٹ پر سابق وزیرِ اعظم نواز شریف کا ایک انٹرویو بھی کیا تھا جس میں نواز شریف نے کہا تھا کہ 2008 میں بھارت کے شہر ممبئی میں ہونے والے حملوں میں پاکستان میں متحرک کالعدم تنظیموں کا ہاتھ تھا۔
اتوار کو سوشل میڈیا پر ڈان سے الگ ہونے کا اعلان کرنے سے ایک دن قبل لاہور میں منعقدہ عاصمہ جہانگیر کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے سرل المیڈا نے کہا تھا کہ وہ خود ایک خوفناک صورتِ حال سے گزر چکے ہیں۔
سرل نے اس موقعے پر یہ بھی کہا کہ مئی 2018 میں کیے جانے والے نواز شریف کے انٹرویو کی بنیاد پر اُن کے خلاف غداری کا مقدمہ چلایا گیا اور اُن کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں ڈال دیا گیا تھا۔
عاصمہ جہانگیر کانفرنس سے اس خطاب کے اگلے ہی روز سرل المیڈا کی جانب سے روزنامہ 'ڈان' سے الگ ہونے کا اعلان سوشل میڈیا پر بحث کی وجہ بن گیا ہے۔
بعض سینئر صحافیوں اور تجزیہ کاروں نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ سرل کا 'ڈان' اخبار سے مستعفی ہونے کا فیصلہ انہی تحفظات کی بنیاد پر ہوسکتا ہے جن کا ذکر انہوں نے اپنے خطاب میں کیا تھا۔
معروف صحافی اور میزبان حامد میر نے اپنی ٹویٹ میں کہا ہے کہ سرل 'ڈان' بے شک چھوڑ دیں لیکن انہیں لکھنا نہیں چھوڑنا چاہیے۔ اس پر اپنے جوابی ٹویٹ میں سرل نے کہا ہے کہ وہ حامد میر کے مداح ہیں لیکن وہ نہیں چاہتے کہ ان کے ساتھ بھی ویسا ہی ہو، جیسا حامد میر کے ساتھ ہوا تھا ۔ یاد رہے کہ حامد میر اپریل دو ہزار چودہ میں ایک قاتلانہ حملےکا نشانہ بن چکے ہیں، جس میں وہ بال بال بچے تھے۔
رکن قومی اسمبلی اور پشتون تحفظ موومنٹ کے رہنما محسن داوڑ نے سرل المیڈا کی ٹویٹ کے جواب میں لکھا ہے کہ سرل جیسی آوازوں کو خاموش کروایا جا رہا ہے، جو افسوس کی بات ہے۔ ہمارا میڈیا ریاستی بیانیے کی باز گشت بن کر اپنی مقصدیت کھو چکا ہے۔ ہمیں اختلافِ رائے کے اظہار کی آزادی ہونی چاہیے۔
تجزیہ کار اور صحافی نجم سیٹھی نے اپنے ایک ٹوئٹ میں سرل کو پیشکش کی ہے کہ وہ چاہیں تو ان کے زیرِ ادارت شائع ہونے والے ہفتہ وار میگزین 'دی فرائیڈے ٹائمز' میں کالم لکھ سکتے ہیں۔
سینئر صحافی محمد ضیاالدین نے ، جوماضی میں 'ڈان' اخبار سے وابستہ رہ چکے ہیں، اپنی ٹویٹ میں سوال کیا ہے کہ کیا سرل کتاب لکھنے والے ہیں؟۔ ان کے بقول اگر ایسا نہیں، تو یہ فیصلہ ان جیسے بہت سے لوگوں کے لیے چونکا دینے والا ہے۔
بھارتی صحافی جیوتی ملہوترا نے ٹویٹ میں کہا کہ برصغیر آج غریب تر ہوگیا۔
پاکستان میں برطانوی خبر رساں ادارے 'رائٹرز' کے نمائندے اور ماضی میں 'ڈان' اخبار سے منسلک رہنے والے صحافی آصف شہزاد نے ٹویٹ کیا ہے کہ 'سیرل آؤٹ، فہد اِن'۔
بعض صحافی سرل المیڈا کے اچانک 'ڈان' اخبار اور ہفتہ وار کالم چھوڑنے کی ممکنہ وجوہات میں سے ایک وجہ صحافی فہد حسین کی 'ڈان' اسلام آباد کے ریذیڈنٹ ایڈیٹر کے طور پر تعیناتی کو بھی قرار دے رہے ہیں۔
'ڈان' اخبار سے منسلک ایک سینئر صحافی نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر وائس آف امریکہ کو بتایا ہے کہ سرل المیڈا 'ڈان' اسلام آباد کے ریذیڈنٹ ایڈیٹر بننے کے امیدوار تھے مگر چوں کہ کراچی میں موجود اخبار کی انتظامیہ سرل کے کالموں سے ناخوش تھی اس لیے انہیں ریذیڈنٹ ایڈیٹر تعینات نہیں کیا گیا اور فہد حسین کی بطور ایڈیٹر تعیناتی کے بعد سرل مستعفی ہوگئے۔
صحافی کے بقول موجودہ حالات میں 'ڈان' کی انتظامیہ سرل کو ریذیڈنٹ ایڈیٹر اسلام آباد تعینات کرکے کچھ حلقوں سے دشمنی مول نہیں لینا چاہتی تھی۔
وائس آف امریکہ نے سرل المیڈا سے ان کا موقف لینے کے لیے رابطہ کرنے کی بارہا کوشش کی لیکن ان سے رابطہ نہیں ہوسکا۔