رسائی کے لنکس

دباؤ کی بات درست لیکن میڈیا اپنی اصلاح بھی کرے، جاوید جبار


جاوید جبار، فائل فوٹو
جاوید جبار، فائل فوٹو

وائس آف امریکہ نے گزشتہ سال پاکستان میں آزادی صحافت کے موضوع پر انٹرویوز کا ایک سلسلہ شروع کیا۔ سینئر صحافیوں نے بتایا کہ ملک میں سینسرشپ جیسی صورت حال ہے جب کہ کئی تجزیہ کاروں نے اس بات سے اتفاق نہیں کیا تھا۔ موجودہ حکومت کا ایک سال مکمل ہونے والا ہے۔ اس موقع پر سیاست اور معیشت کے ساتھ صحافت کا جائزہ لینے کی بھی ضرورت ہے۔

وائس آف امریکہ نے ایک بار پھر صحافیوں، تجزیہ کاروں اور حکومت کے نمائندوں سے میڈیا کی صورت حال پر انٹرویوز کی سیریز شروع کی ہے۔ آج جاوید جبار سے گفتگو پیش خدمت ہے۔ کل فواد چودھری کا انٹرویو پیش کیا جائے گا۔

میڈیا کے بے مقصد پھیلاؤ پر نظرثانی کی ضرورت ہے، جاوید جبار
please wait

No media source currently available

0:00 0:04:12 0:00

وائس آف امریکہ: میڈیا سے آپ کا تعلق بہت پرانا ہے۔ آپ وزیر اطلاعات بھی رہے ہیں۔ پاکستان میں میڈیا سینسرشپ کی بات میں کس قدر صداقت ہے؟

جاوید جبار: یہ حقیقت ہے کہ پاکستان کا میڈیا ایک بحران سے گزر رہا ہے۔ اس کی کئی وجوہات ہیں۔ بین الاقومی سطح پر میڈیا میں جو تبدیلیاں آئی ہیں، ان کا روایتی میڈیا پر اثر ہوا ہے۔ خاص طور پر پرنٹ میڈیا کے لیے مہنگائی، کاغذ کی قیمتوں میں بے پناہ اضافہ اور اشتہارات کی آمدنی میں گزشتہ دس سال میں بڑی کٹوتی ہوئی ہے۔ اس سے ان کی آمدنی کم ہوئی ہے۔ اس کے علاوہ میڈیا کے باخبر لوگ بتاتے ہیں کہ ان پر نامناسب قسم کا دباؤ ڈالا جاتا ہے۔ فلانی نیوز اسٹوری کو کیسے چلائیں، فلانی شخصیت کو دکھائیں، نہ دکھائیں یا کم دکھائیں۔ مجھے یقین ہے کہ وہ جھوٹ نہیں بول رہے بلکہ اپنے تجربے کی بنیاد پر کہہ رہے ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ اس میں کچھ مبالغہ آرائی ہو۔

لیکن دوسری حقیقت یہ ہے کہ اس دباؤ یا بحران کے باوجود اب بھی پاکستان کا میڈیا بہت آزاد ہے۔ ہر روز نیوز چینلوں پر حزب اختلاف کے بیانات نشر کیے جاتے ہیں اور وہ بہت بری طرح حکومت کو تنقید کا نشانہ بناتے ہیں۔ آپ اخبارات اٹھا کر دیکھ لیں۔ مثلاً انگریزی اخبار ڈان میں واضح انداز میں وہاں تنقید کی جاتی ہے، جہاں ضرورت ہوتی ہے۔ ڈان نے سینسرشپ پر اداریے بھی لکھے ہیں۔ سول اور ملٹری کشیدگی پر تنقید اور تجزیہ بھی ہوتا رہتا ہے۔

اس سال فروری میں کراچی میں ایک لٹریچر فیسٹیول گورنر ہاؤس کی حدود میں ہوا۔ اس کے سیشنز میں کھلے عام تنقید کی گئی، آئی ایس آئی کے بارے میں، انٹیلی جینس ایجنسیوں کے بارے میں، بلوچستان کے موضوع پر، افواج پاکستان کے سیاسی کردار پر، کوئی دباؤ نہیں ہوا۔ کسی کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔ کسی نے نہیں کہا کہ اسے بند کریں۔ مجھے پاکستان میں دلچسپ متوازی حقیقتیں دکھائی دیتی ہیں۔

وائس آف امریکہ: میڈیا میں بعض اپوزیشن رہنماؤں کے جلسے نہیں دکھائے جاتے۔ ہم اسے سیلف سینسرشپ سمجھیں؟

جاوید جبار: میڈیا تو ہے ہی سیلف سینسرشپ پر مبنی۔ وائس آف امریکہ آزاد سمجھا جاتا ہے جب کہ یہ سمندر پار کے خطوں کے لیے امریکی چینل ہے۔ آپ بھی تو فیصلہ کرتے ہیں کہ کس کی سہانی آواز سنائی دے گی، کتنے منٹ تک سنائی دے گی، کون سی بات نشر کی جائے گی، کون سی بات نشر نہیں کی جائے گی۔ سینسرشپ میڈیا کے متن کو پھیلانے میں موجود ہے۔

وائس آف امریکہ: لیکن وہ تو ایڈیٹنگ ہوتی ہے۔ ہم دباؤ کی بات کر رہے ہیں۔

جاوید جبار: جی ہاں، خوف یا دباؤ پر نیوز میڈیا خبروں کو دبا دیتا ہے تو وہ مراحل بھی شاید ہم اس وقت دیکھ رہے ہیں۔ ایسا نہیں ہونا چاہیے۔ جلسوں کی جو بات آتی ہے کہ دانستہ طور پر انہیں دکھانے کو منع کیا گیا، یہ نہیں ہونا چاہیے۔ لیکن حزب اختلاف کے مشہور رہنما، میں نام نہیں لوں گا، جب عدالت کے سامنے پیش ہوتے ہیں تو ان پر پھول پھینکے جاتے ہیں۔ جو بات کرتے ہیں وہ نشر ہوتی ہے کہ موجودہ حکومت کے بارے میں کیا کہہ رہے ہیں۔ فوج کا نام لیے بغیر وہ ہمیشہ کہتے ہیں کہ کچھ طاقتوں نے موجودہ حکومت کو اقتدار پر بٹھایا۔ سب جانتے ہیں کہ کس کی طرف اشارہ ہے۔ تو میری سمجھ میں نہیں آتا کہ اور کتنی آزادی چاہیے۔ ہو سکتا ہے کہ بعض معاملات میں دباؤ ڈالا گیا ہو۔ نہیں ڈالنا چاہیے تھا۔ لیکن یہ کہنا کہ مکمل طور پر پاکستان میں خاموشی چھائی ہوئی ہے، یہ درست نہیں۔

وائس آف امریکہ: آپ نے میڈیا کے مالیاتی بحران کی بات کی۔ اس بحران کے باوجود نئے نیوز چینلوں کو لائسنس کیوں دیے جا رہے ہیں؟

جاوید جبار: میں اس پالیسی کے خلاف ہوں۔ سپریم کورٹ نے چھ سال پہلے میڈیا کمشن بنایا تھا۔ جسٹس ناصر اسلم زاہد اس کے چیئرمین تھے۔ مجھے اس کمشن کی رپورٹ لکھنے کا شرف حاصل ہوا۔ ہم نے اس بات پر زور دیا کہ اب لائسنس بانٹنے کی بجائے کچھ کمی کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمارے ہاں ایک عجیب کیفیت ہے۔ پرولی فریشن ود آؤٹ پرپز یعنی کسی مقصد کے بغیر پھیلاؤ ہو رہا ہے۔ نیوز چینلوں کو حقیقی طور پر معیار اور شناخت کے بحران کا سامنا ہے یعنی یہ جاننا مشکل ہے کہ کس چینل کا کیا مقصد اور موقف ہے۔ دو یا تین چینلوں کے سوا کہ جن کے انداز یا متن میں فرق ہوتا ہے، باقی سب ایک دوسرے کا مقابلہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس لیے پیمرا کا مزید لائسنس دینا نامناسب اقدام تھا۔ جو لائسنس دیے گئے ہیں، ان پر بھی نظرثانی کی ضرورت ہے۔ ہر پانچ دس سال بعد دیکھنا چاہیے کہ جن چینلوں کو لائسنس دیے گئے ہیں، انہوں نے اس کا کیسے استعمال کیا؟ انہوں نے عوام کے مفاد کا پوری طرح خیال رکھا یا نہیں؟ میں سمجھتا ہوں کہ پیمرا میں اصلاحات کی شدید ضرورت ہے۔

وائس آف امریکہ: حکومت کے بہت سے ترجمان ہیں۔ جن میں سے کئی سخت یا نامناسب زبان استعمال کرتے ہیں۔ فوج کے ترجمان ٹوئٹر پر سرکاری اور ذاتی دونوں حیثیتوں میں موجود ہیں اور اپنی آرا کا اظہار کرتے رہتے ہیں۔ کیا یہ درست عمل ہے؟

جاوید جبار: ٹوئٹر پر امریکہ کے صدر ٹرمپ کے لاکھوں فالوورز ہیں اور ہمارے وزیراعظم کے بھی ماشا اللہ فالوورز کی بہت بڑی تعداد ہے۔ لیکن میں نہیں سمجھتا کہ ریاست کے عہدے داروں کو ٹوئٹر یا فیس بک استعمال کرنا چاہیے۔ یہ غیر سنجیدہ میڈیا ہے۔ جلدبازی میں وسیع پیمانے پر بیانات کو پھیلانا عوام کی خدمت نہیں ہے۔ اس کے لیے میچور انداز میں، بالغ انداز میں، سنجیدگی کے ساتھ ، موضوع پر تفصیل کے ساتھ غور و فکر کی ضرورت ہوتی ہے۔ میں ذاتی طور پر تبصرہ نہیں کرنا چاہتا کہ ڈی جی آئی ایس پی آر نے کیا کہا، کیا نہیں کہا۔ لیکن ریاست کا، کسی بھی ادارے کا جو بھی نمائندہ ہے، اسے بہت ٹھہراؤ کے ساتھ، بہت احتیاط کے ساتھ اپنے الفاظ کو چننا چاہیے۔

ہو سکتا ہے کہ بعض اوقات میڈیا کا رویہ غیر مناسب ہو۔ پاکستان کا میڈیا جس بحران سے گزر رہا ہے اور واقعی ان پر کچھ دباؤ بھی ڈالا جا رہا ہے، یہ ہماری توجہ اس بات سے ہٹا رہا ہے کہ میڈیا کو اپنی اصلاح کی شدید ضرورت ہے۔ وہ کیا اصلاحات ہیں؟ ایک یہ کہ اس کے معاملات کو شفاف ہونا چاہیے۔ میڈیا کے مالکان کون ہیں؟ ان کے مالیاتی مفادات کہاں کہاں اور کون کون سے شعبوں میں ہیں؟ دوسرا یہ کہ ہمارا نیوز میڈیا کس انداز میں خبر کو پیش کرتا ہے؟ رائے اور خبر یعنی حقیقت اور اپنے تبصرے کو ملاوٹ کے ساتھ پیش کیا جاتا ہے۔ نیوز میڈیا کا فرض ہے کہ صرف خبر سنائے۔ آپ کو تبصرہ کرنا ہے تو کسی پروگرام میں کریں، خبروں کے دوران میں نہ کریں۔ اینکر چلا چلا کر بولتے ہیں، ہسٹریکل۔ اور شاٹ ایسے کہ زوم ان زوم آؤٹ، زوم ان زوم آؤٹ،۔ ایسا لگتا ہے کہ جو لوگ پینل پر بیٹھے ہوئے ہیں، ان سب کا نروس بریک ڈاؤن ہو رہا ہے۔ ان کا ایسے چینلوں کے ساتھ موازنہ کریں جو سنجیدگی کے ساتھ خبریں پیش کرتے ہیں۔ مثلاً بی بی سی بلکہ سی این این بھی کہ کیسے میچورٹی کے ساتھ خبروں کو پیش کرتے ہیں۔ اگر خبر کا تجزیہ کرنا ہے تو اس کے لیے علیحدہ وقت مقرر کریں۔

ہمارے میڈیا میں اصلاحات کی شدید ضرورت ہے لیکن اس کی بجائے ساری توجہ اس بات پر چلی گئی ہے کہ میڈیا پر دباؤ ہے، سینسرشپ ہو رہی ہے، اشتہارات کو بطور حربہ استعمال کیا جا رہا ہے۔ وہ سب بھی درست سہی لیکن میڈیا کو بھی چاہیے کہ اپنی اصلاح کرے، اپنے آپ کو بہتر بنائے۔

آخری بات یہ عرض کروں گا کہ میں جہاں جاتا ہوں، شہر ہو، دیہات ہوں، نوجوان ہوں، بزرگ ہوں، ٹی وی نیوز میڈیا کے رویے پر سب شاکی دکھائی دیتے ہیں۔ لوگوں میں ناخوشی کی کیفیت ہے۔ وہ ایک عادی شخص کی طرح اپنا شام کا وقت ضائع کرتے ہیں اور شام سات سے رات دس بجے تک ٹاک شوز دیکھتے ہیں۔ یہ ایک ایڈکشن بن گئی ہے۔ نئی نسل اس سے دور ہوتی جا رہی ہے کیونکہ وہ سوشل میڈیا کی طرف نکل گئی ہے۔ نیوز چینلوں کے ناظرین کی تعداد گھٹ رہی ہے۔ یہ میڈیا کے مالکان کی ذمے داری ہے کہ وہ اصلاحات کریں۔

وائس آف امریکہ: سر، اپنا قیمتی وقت دینے کا بہت شکریہ۔

جاوید جبار: مبشر صاحب، مجھے لنک بھیج دیجیے گا تاکہ میں بھی دیکھ سکوں۔

وائس آف امریکہ: سر، میں لنک تو بھیج دوں گا لیکن وائس آف امریکہ کی ویب سائٹ پاکستان میں بلاک ہے۔

جاوید جبار: کیا؟ آپ نے کیا کہا؟

وائس آف امریکہ: ہماری ویب سائٹ کئی ماہ سے پاکستان میں بلاک ہے۔

جاوید جبار: آئی ایم سو سوری۔ مجھے اس کا علم نہیں تھا۔ میں اس کی مذمت کرتا ہوں۔ میں نہیں سمجھتا کہ اسے بند کرنا چاہیے۔ آج کے دور میں بند کرنا۔۔۔ میں اس سے اتفاق نہیں کرتا۔ میں ایسی پابندیوں کا سخت مخالف ہوں۔ حکومت کو اس پالیسی پر نظرثانی کرنی چاہیے۔

نوٹ: واضح رہے کہ وفاقی حکومت میڈیا پر دباؤ ڈالنے سے انکار کرتی ہے۔ افواج پاکستان کے ترجمان میجر جنرل آصف غفور نے 4 جون 2018 کو ایک پریس کانفرنس میں کہا تھا کہ پاک فوج نے کبھی کسی میڈیا گروپ کو ڈکٹیشن نہیں دی اور نہ کسی صحافی کو فوج کی مرضی کے مطابق خبر لکھنے کے لیے کہا ہے۔

XS
SM
MD
LG