پاکستان میں افغانستان کے سفیر نے کہا ہے کہ شدت پسند گروہ ’داعش‘ افغانستان میں پسپا ہو رہا ہے۔
اُنھوں نے کہا کہ ’داعش‘ صرف اس خطے نہیں بلکہ دیگر ممالک کے لیے بھی خطرہ ہے اور افغان حکومت اس گروہ کے خاتمے کے لیے پرعزم ہے۔
وائس آف امریکہ سے انٹرویو میں افغان سفیر حضرت عمر زاخیلوال کا کہنا تھا کہ داعش کے معاملے پر افغانستان اور پاکستان ایک ہی صفحے پر ہیں کیوں کہ یہ خطرہ کسی ایک ملک تک محدود نہیں۔
Your browser doesn’t support HTML5
افغان سفیر نے کہا کہ ’’داعش پسپا ہو رہی ہے اور مجھے اعتماد ہے کہ داعش اس خطے میں جڑ نہیں پکڑ سکے گی لیکن اُن کے بقول بلاشبہ پاکستان اور افغانستان کو اس بارے میں تعاون کرنا چاہیئے۔
اُنھوں نے کہا کہ داعش کے لیے ہمارے ملک میں کوئی ہمدردی نہیں ہے، جہاں بھی یہ گروہ سر اُٹھائے گا اُسے کچل دیا جائے گا۔
’’ہم اس قسم کی سوچ کو افغانستان میں کسی صورت برداشت نہیں کریں گے۔۔۔ داعش کی کچھ باقیات خاص طور پر (افغانستان) کے شمالی حصوں میں ہیں، لیکن مجھے یقین ہے کہ اُنھیں مکمل طور تباہ کر دیا جائے گا۔‘‘
افغان سفیر کا کہنا تھا کہ اچھی بات یہ ہے کہ ’داعش‘ کا فلسفہ اور اسلام سے متعلق اس گروہ کا نکتہ نظر افغان ثفافت سے متصادم ہے اس لیے اس گروہ کو افغانوں نے قبول نہیں کیا ہے۔
افغان سفیر کا کہنا تھا کہ اُن کے خیال میں پاکستان میں داعش کے بارے میں بھی یہ ہی صورت حال ہے۔
اُنھوں نے کہا کہ افغان حکومت اگرچہ داعش کے خلاف کارروائی میں مصروف ہے لیکن اُن کے بقول حقیقت یہ ہے کہ ’داعش‘ کو بنیادی طور پر افغان لوگوں کی طرف سے مزاحمت کا سامنا ہے۔
سفیر حضرت عمر زاخیلوال نے کہا کہ ’’اس بارے میں ایک اہم مثال میرے آبائی صوبے ننگر ہار میں شنوار کے علاقے کے لوگ ہیں۔ شنوار لوگ بنیادی طور پر (داعش) کے خلاف کھڑے ہوئے انہیں پیچھے دھکیل دیا ۔۔۔ مجھے اُمید ہے کہ داعش ہمارے ملک میں جگہ نہیں بنا سکے گی۔‘‘
واضح رہے کہ شدت پسند گروہ ’داعش‘ افغانستان اور اس خطے میں ایک نیا خطرہ بن کر اُبھر ہے، خاص طور پر افغانستان کے صوبے ننگر ہار میں یہ گروہ اپنے قدم جما رہا ہے۔
حالیہ مہینوں میں ناصرف مقامی فورسز بلکہ افغانستان میں موجود بین الاقوامی افواج کی طرف سے بھی ’داعش‘ کے ٹھکانوں کو نشانہ بنایا گیا ہے۔
پاکستان میں بھی اس گروہ سے ہمدردی رکھنے والے متعدد شدت پسندوں کو گرفتار کیا جا چکا ہے لیکن حکام کا یہ اصرار رہا ہے کہ ملک میں ’داعش‘ کا کوئی منظم وجود نہیں اور یہاں پہلے سے موجود شدت پسند گروہ ’داعش‘ کا نام استعمال کر رہے ہیں۔