نوبل انعام یافتہ بودھ مذہبی رہنما دالائی لاما نے کہا ہے کہ وہ تبت کی آزادی نہیں بلکہ اس کی بامعنی خود مختاری اور چین کے ساتھ رہ کر علاقے کی بودھ مت ثقافت کا تحفظ چاہتے ہیں۔
بھارت کے زیرِ انتظام لداخ خطے کے ایک ماہ کے دورے کے آغاز پر انہوں نے جموں میں صحافیوں سے گفتگو میں کہا کہ چین کے چند سخت گیر انہیں ایک علیحدگی پسند اور رجعت پسند انہ خیالات کا حامل شخص کہتے ہیں جب کہ ہمیشہ ان کو ہدفِ تنقید بناتے ہیں البتہ اب چین کے زیادہ باشندوں میں یہ احساس پیدا ہو رہا ہے کہ دالائی لاما تبت کی آزادی نہیں چاہتے ہیں بلکہ بیجنگ سے تبت کے لیے بامعنی خود مختاری اور اس کی بودھ مت ثقافت کو تحفظ فراہم کرنے کی خواہش رکھتے ہیں۔
جمعے کو جموں سے لداخ کے ثقافتی شہر لیہہ میں آمد پر دالائی لاما کا ان کے بودھ عقیدت مندوں اور مقامی مسلمانوں نے پُرتپاک استقبال کیا۔
یہ گزشتہ دو برس میں بھارت کی شمالی ریاست ہماچل پردیش کے علاقے دھرم شالہ سے باہر دالائی لاما کا کسی علاقے کا پہلا دورہ ہے۔
لداخ کے ضلع لیہہ کی ، جس کی سرحد تبت سے ملتی ہے، آبادی کی اکثریت بودھ مت کے پیرو کاروں پر مشتمل ہے اور ملحقہ ضلع کرگل کی نوبرا وادی کو بودھ مت کے عقائد اور روایات کا مسکن سمجھا جاتا ہے۔
بیجنگ کا دالائی لاما اور تبت پر مؤقف
بیجنگ نے دالائی لاماکے اس بیان پر فوری طور پر کوئی ردِ عمل ظاہر نہیں کیا تاہم اس نے حال ہی میں یہ کہا تھا وہ چین کے خود مختار علاقے تبت کے روحانی پیشوا کے ساتھ ان کے مستقبل کے بارے میں بات کرنےکے لیے تیار ہے البتہ تبت سے متعلق کسی بھی معاملے پر ان کے ساتھ کسی قسم کی گفتگو نہیں ہوسکتی ہے۔
چین نے دلائی لامہ سے بارہا یہ بھی کہا ہے کہ وہ اپنی سرگرمیاں ترک کر دیں اور چین کی وفاقی حکومت اور ملک کے عوام کا اعتماد جیتنے کے لیے ٹھوس اقدامات کریں۔
چین کا یہ مؤقف بھی ہے کہ بھارت میں قائم تبت کی جلا وطن حکومت صریحاً ایک علیحدگی پسند سیاسی گروپ ہے۔
دلائی لامہ کی عمر 87 برس ہے جب کہ کا پیدائشی نام لاہمو دندروف ہے اور انہیں تینزن گیاستو کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔
انہیں عالمی سطح پر تبت کی آزادی کے ساتھ ساتھ کئی دوسری مزاحمتی تحاریک کا حامی سمجھا جاتا ہے۔ انہیں1989 میں امن کا نوبل انعام دیا گیا تھا۔
دالائی لاما بھارت کب پہنچے تھے؟
دلائی لامہ دھرم شالہ میں ایک جلا وطن حکومت کے سربراہ بھی ہیں۔ 1959 میں بیجنگ کی کمیونسٹ حکومت کے خلاف شروع ہونے والی بغاوت کے بعد دالائی لاما فرار ہو کر بھارت آگئے تھے، جہاں انہوں نے تبت کی جلا وطن حکومت کی بنیاد رکھی تھی۔
اس سے نو برس قبل چین کے فوجیوں نے تبت کا کنٹرول سنبھال کر اسے ملک کا حصہ قرار دیا تھا۔
انہیں بھارت کی شہریت بھی حاصل ہے۔بیجنگ دالائی لاما کو ایک’خطرناک چین مخالف علیحدگی پسند‘ قرار دیتا ہے۔ وہ بھارت اور امریکہ سمیت اُن تمام ملکوں کو برملا طور پر ہدفِ تنقید بناتا رہا ہے جو دالائی لاما کو سیاسی پلیٹ فارم فراہم کر رہے ہیں۔
بعض سیاسی مبصرین اور تبت کے سیاسی امور پر نگاہ رکھنے والے کئی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ تبت کی آزادی کے حوالے سے دالائی لاما کے مؤقف میں لچک کے پیچھے یہ حقیقت پسندی ہے کہ چین کبھی بھی تبت کو آزادی دینے پر آمادہ نہیں ہوگا۔
دالائی لاما نے اپنے کئی حالیہ بیانات میں مبہم الفاظ میں اس خواہش کا ضرور اظہار کیا ہے کہ وہ اب عمر کے اس مرحلے پر پہنچ گئے ہیں جہاں وہ اپنے آبائی وطن اور خوابوں کی سر زمین پر، جسےان کے نزیک ایک عظیم روحانی مقام حاصل ہے، کچھ عرصہ گزارنا چاہتے ہیں۔
مبصرین کے خیال میں ان کی اس خواہش کے اظہار کے جواب میں ہی بیجنگ حکومت نے کہا تھا کہ وہ ان کے مستقبل کے بارے میں ان کے ساتھ بات چیت کرنے کے لیے تیار ہے۔
کیا تبت پر بیان بھارتی حکومت سے صلاح مشورے کے بعد دیا گیا ہوگا؟
بھارتی صحافی اور سیاسی تجزیہ کار ونود شرما کا کہنا ہے کہدالائی لاما چوںکہ لداخ جیسے حساس علاقے کے دورے پر جا رہے تھے، جس کی تبت کے ساتھ ملنے والی سرحد پر تناؤ کی کیفیت برقرار ہے، اس لیے لگتا ہے کہ انہیں بھارتی حکومت نے تبت کے بارے میں ایک محتاط اور لچک دار بیان دینے کا مشورہ دیا تھا۔
انہوں نے کہا کہ یہ سب پر عیاں ہے کہ چین تبت، تائیوان اور مکاؤ کے معاملے میں بڑا حساس ہے۔ وہ تبت کو وہ خود مختاری بھی دینے پر کبھی آمادہ نہیں ہوگا، جس کی دالائی لاما نے بات کی ہے۔
ان کے خیال میں کہ دالائی لاما نے تبت کے بارے میں جموں میں جو بیان دیا ہے وہ بھارتی حکومت کے مشورے سے دیا گیا ہے۔انہوں نے اپنی ہستی اور وجود کو برقرار رکھنے کی کوشش کی ہے لیکن اس کے ساتھ ہی کوئی ایسی بات نہیں کہی ہے جس کو تبت پر چین کے اقتدار اعلیٰ کے لیے چیلنج سمجھا جائے۔
’فوجی طاقت کا استعمال اب فرسودہ آپشن بن کر رہ گیا ہے‘
دالائی لاما نے مشرقی لداخ میں چین اور بھارت کے مابین مسلسل سرحدی کشیدگی کے بارے میں پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں صحافیوں کو بتایا کہ افواج کے درمیان تعطل کو افہام و تفہیم کے ذریعے ختم ہو جانا چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ فوجی طاقت کا استعمال اب فرسودہ آپشن بن کر رہ گیا ہے لہٰذا فریقین کے درمیان تناؤ کے پُرامن حل کے لیے بات چیت ہونی چاہیے۔
دالائی لاما ے تمام تنازعات کو مذاکرات کے ذریعے حل کرنے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ تمام انسان ایک جیسے ہیں۔ انہیں میرا وطن، میرا نظریہ جیسی تنگ سوچ اور تنگ نظری سے اوپر اٹھ کر سوچنا چاہیے کیوں کہ اس طرح کا نظریہ لوگوں میں دشمنی پیدا کرتا ہے اور انہیں ایک دوسرے سے لڑاتا ہے۔
مذہبی رہنما کی حیثیت سے لداخ کا دورہ
اس دوران دالائی لاما نے لداخ کے دورے پر چین کی ناراضگی کے امکان کے پیشِ نظر بھارت نے کہا ہے کہ اُن کا یہ دورہ مکمل طور پر مذہبی ہے اور اس پر کسی کو اعتراض نہیں ہونا چاہیے۔
نئی دہلی میں ایک اعلیٰ سرکاری عہدیدار نے بتایا کہ یہ پہلی مرتبہ نہیں ہے کہ دالائی لاما لداخ کا دورہ کررہے ہیں ، وہ ایک مذہبی رہنما ہیں اور وہ یہ دورہ اسی حیثیت سے کر رہے ہیں۔
قبل ازیں جب دالائی لاما سے ان کے اس دورے پر چین کے متوقع اعتراض کے بارے میں استفسار کیا گیا تھا تو انہوں نے کہا تھا کہ یہ ایک معمول ہے۔ چین کے عوام کو کوئی اعتراض نہیں ہے۔ تبت کے بودھ مت باشندوں میں زیادہ تر چینی شہری دلچسپی لے رہے ہیں۔ ان کے چند اسکالرز کو تبتی بودھ مت کے علمی اصولوں کے عین مطابق ہونے کا ادراک ہوگیا ہے۔ صورتِ حال بدل رہی ہے۔
رواں ماہ کے آغاز پر بیجنگ نے بھارت کے وزیرِ اعظم نریندر مودی کی دالائی لاما کو ان کے 87 ویں یوم ِ پیدائش پر مبارک باد دینے پر شدید تنقید کی تھی۔
چین کی حکومت نے کہا تھا کہ نئی دہلی کو چین کے اندورنی معاملات میں مداخلت بند کر دینی چاہیے۔
تاہم بھارتی حکومت نے بیجنگ کے اس ردِ عمل کو بے جا قراردیتے ہوئے کہا تھا کہ دالائی لاما نے ساتھ ملک کے ایک معزز مہمان کی حیثیت سے سلوک کرنا بھارت کی ایک متواتر پالیسی کا حصہ ہے۔
تاہم دو برس قبل جب لداخ کی گلوان وادی میں چین اور بھارت کی افواج کے درمیان کشیدگی عروج پر تھی وزیرِِ اعظم مودی اور بھارتی صدر رام ناتھ کووند نے دالائی لاما کو ان کے 85 ویں جنم دن پر مبارک باد نہیں د ی تھی، جس کی وجہ سے بھارتی وزیرِ اعظم کو اپوزیشن اور مخالفین کی زبردست تنقید کا نشانہ بننا پڑا تھا ۔
ناقدین نے یہاں تک کہا تھا کہ بھارت کے وزیرِ اعظم نے چین کے صدر شی جن پنگ کے ڈر سے ددالائی لاما کو سالگرہ کی مبارک باد نہیں دی۔ اس لیے ان سے چین کا سامنا کرنے کی توقع نہیں کی جاسکتی ہے۔
بھارت کی حکومت نے اس طرح کی تنقید کو مضحکہ خیز اور سیاسی دیوالیہ پن قراردیا تھا۔