صوبہ خیبر پختونخوا کے شمالی پہاڑی علاقے ضلع کوہستان میں چین کے تعاون سے بننے والے داسو ہائیڈرو پاور پروجیکٹ پر تعمیراتی کام دوبارہ شروع ہو گیا ہے۔ یہ کام گزشتہ ماہ چینی انجینئرز کے قافلے پر ہونے والے مبینہ خود کش حملے کے بعد روک دیا گیا تھا۔
البتہ سیکیورٹی انتظامات کو مزید سخت کرنے کے بعد پاکستانی اور چینی حکام نے اس منصوبے پر دوبارہ کام شروع کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔
اپر کوہستان کے ڈپٹی کمشنر محمد عارف خان یوسفزئی نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ داسو ہائیڈرو پاور منصوبے کے مختلف شعبوں پر تعمیراتی کام زور و شور سے جاری ہے۔ اُنہوں نے کہا کہ داسو ڈیم کے منصوبے کی سائٹ اور ملحقہ علاقوں میں مکمل امن ہے اور چینی حکام نے بھی سیکیورٹی انتظامات کو تسلی بخش قرار دیا ہے۔
محمد عارف خان کا کہنا تھا کہ یہ ایک بین الاقوامی نوعیت کا منصوبہ ہے اور کوشش ہے کہ یہ بروقت مکمل ہو جائے۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ منصوبے پر چینی انجینئرز اور دیگر ملازمین کام کر رہے ہیں اور وقت کے ساتھ ساتھ ان کی تعداد میں کمی بیشی ہوتی رہتی ہے مگر اس وقت کثیر تعداد میں چینی انجینئرز اور ماہرین اس منصوبے پر کام کر رہے ہیں۔
SEE ALSO: چین کو پاکستان میں اپنے شہریوں پر حملوں پر تشویش: کیا مشترکہ حکمتِ عملی کام آئے گی؟داسو ڈیم
داسو ڈیم کوہستان کے علاقے داسو میں دریائے سندھ پر بنایا جا رہا ہے جس پر تعمیراتی کام 23 جولائی 2017 کو شروع ہوا تھا اور اسے پانچ برس میں مکمل ہونا تھا۔
واپڈا کی جانب سے فراہم کردہ اعداد و شمار کے مطابق اس ڈیم کی تعمیر کا تخمینہ 565.661 ملین روپے ہیں جس میں 223.047 ملین غیر ملکی سرمایہ شامل ہے۔
اس ڈیم کی تعمیر میں ترکی اور جاپان کی کمپنیوں کا بھی تعاون حاصل کیا گیا ہے جب کہ تعمیر کے ٹھیکوں میں چین کی چار کمپنیاں شامل ہیں۔ ان کمپنیوں میں سرِفہرست چائنا گیزوبا گروپ کمپنی (سی جی جی سی) ہے جس سے منسلک چینی انجینئرز اور ملازمین کی گاڑی پر 14 جولائی 2021 کو دہشت گردی کا ہلاکت خیز حملہ ہوا تھا۔
واپڈا کے فراہم کردہ اعدادوشمار کے مطابق داسو سے سات کلو میٹر اور دیامر سے 74 کلو میٹر کے فاصلے پر تعمیر ہونے والے اس ڈیم سے 4320 میگا واٹ بجلی ماہانہ بنیادوں پر جب کہ سالانہ تقریباً 22 ہزار میگاواٹ بجلی پیدا ہونے کی گنجائش ہے۔
مقامی افراد سیکیورٹی انتظامات سے کتنے مطمئن؟
اپر کوہستان کے مقامی صحافی سجمل خان نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ 14 جولائی 2021 کے واقعے کے بعد اپر کوہستان کے طول وعرض میں سیکیورٹی انتہائی سخت کر دی گئی ہے۔
اُن کے بقول ایک بریگیڈ فوج کے دستے مختلف علاقوں میں تعینات ہیں جب کہ داسو شہر میں ڈیم کی طرف آنے جانے والی گاڑیوں کی سخت نگرانی کی جا رہی ہے۔
سجمل خان نے بتایا کہ سیکیورٹی فورسز اور سول انتظامی عہدیداروں نے علاقے بھر میں آگاہی مہم بھی شروع کر رکھی ہے جس میں لوگوں پر زور دیا جا رہا ہے کہ وہ مشتبہ افراد پر نظر رکھیں اور ان کے بارے میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کو آگاہ کریں۔
سجمل خان نے بتایا کہ 14 جولائی کے واقعے کے بعد ایک مقامی وکیل کو ڈرائیور سمیت حراست میں لیا گیا تھاجس کو بعد ازاں رہا کیا گیا مگر ڈرائیور ابھی تک سیکیورٹی فورسز کی حراست میں ہے۔
حکومتی عہدیداروں کا کہنا ہے کہ اس واقعے میں کراچی سے کچھ مشتبہ افراد کو حراست میں لیا گیا ہے۔
چودہ جولائی کو ہوا کیا تھا؟
چودہ جولائی کو داسو ہائیڈرو پاور منصوبے پر چینی انجینئرز اور مقامی ملازمین پر مشتمل تعمیراتی ٹیم کو رہائشی کیمپوں سے کام کی جگہ لے کر جانے والی ایک کوچ میں بالائی کوہستان میں دھماکا ہو تھا جس کے نتیجے میں نو چینی باشندوں سمیت 13 افراد ہلاک جب کہ 28 افراد زخمی ہوئے تھے۔
اس واقعے کے نتیجے میں نہ صرف اس ڈیم پر چند دنوں کے لیے تعمیری کام کا سلسلہ متاثر ہوا تھا بلکہ اس سے پاکستان بھر میں مختلف علاقوں میں تعمیری اور کاروباری شعبوں سے منسلک چینی باشندوں کی سیکیورٹی کے بارے میں تشویش کی لہر پیدا ہوئی تھی۔ تاہم بعد میں حکومتِ پاکستان نے قانون نافذ کرنے والے اداروں کو متحرک ہونے اور چینی باشندوں کی حفاظت کو یقینی بنانے کے لیے کردار ادا کرنے کی ہدایت کی تھی۔
بتایا جاتا ہے کہ اس وقت ملک بھر میں سی پیک منصوبوں سمیت لگ بھگ 45 چینی کمپنیاں مختلف تعمیراتی منصبوں پر کام کر رہی ہیں۔
چودہ جولائی کو پیش آنے والے واقعے کو پاکستان حکام نے ابتداً ایک حادثہ قرار دیا تھا مگر بعد ازاں مفصل تحقیقات کے بعد ا سے دہشت گردی کا واقعہ قرار دیا گیا تھا۔
اپر کوہستان کے داسو ڈیم کے بعد چند روز قبل بلوچستان کے ساحلی شہر گوادر میں بھی چینی انجینئروں اور ملازمین کی ایک بس پر نامعلوم دہشت گردوں نے چند روزقبل دستی بم سے حملہ کیا تھا جس میں متعدد افراد زخمی ہوئے تھے ان زخمیوں میں چار بچے زخموں کی تاب نہ لا کر اسپتال میں جل بسے تھے۔
گوادر کے علاقے بلوچستان کے ضلع چاغی میں بھی اگست 2018 کو چینی انجینئرز کی ایک بس پر مبینہ خود کش حملے میں دو چینی انجینئرز سمیت چھ افراد زخمی ہوئے تھے۔ اس حملے کی ذمہ داری بلوچ قوم پرست علیحدگی پسند تنظیم بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے) نے قبول کی تھی۔