پاکستان اور بھارت کے انڈس واٹر کمشنرز نے سندھ طاس معاہدے کے تحت ایک دوسرے کی جانب بہنے والے دریاؤں میں جاری آبی منصوبوں سے متعلق تحفظات دُور کرنے اور ان کے تکنیکی معائنے کی اجازت پر اتفاق کیا ہے۔
یہ فیصلہ دونوں ممالک کے واٹر کمشنرز کے درمیان نئی دہلی میں ہونے والے دو روزہ مذاکرات کے دوران کیا گیا۔ دونوں ملکوں کے تعلقات میں کشیدگی کے باعث واٹر کمشنرز کے درمیان ہونے والی سالانہ ملاقات ڈھائی سال بعد ہو سکی۔
مذاکرات کے احتتام پر مشترکہ اعلامیہ جاری نہیں کیا گیا۔ تاہم دونوں ملکوں نے بات جیت کو مثبت اور خوش گوار قرار دیا ہے۔
پاکستان کے انڈس واٹر کمشنر مہر علی شاہ نے واہگہ بارڈر پر صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ بھارت پاکستان کو سیلاب کی صورتِ حال سے باقاعدگی سے آگاہ کرے گا اور دونوں ملکوں نے ایک دوسرے کی تکنیکی ٹیموں کو منصوبوں کا معائنہ کروانے پر اتفاق کیا ہے۔
بھارت کے دفترِ خارجہ نے کہا ہے کہ پاکستان نے نئی دہلی سے پن بجلی کے منصوبوں کی تفصیلات فراہم کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔
مذاکرات کے لیے پاکستانی وفد انڈس واٹر کمشنر مہر علی شاہ کی سربراہی میں پیر کو نئی دہلی پہنچا تھا جہاں بھارتی وفد کے سربراہ پردیپ کمار سکسینا نے اپنی ٹیم کے ساتھ ان سے بات چیت کی۔
بھارت کے دورے سے واپسی پر پاکستان کے انڈس واٹر کمشنر مہر علی شاہ نے واہگہ بارڈر پر صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان نے بھارت کے منصوبوں پر تکنیکی اعتراضات اٹھائے تھے اور ان پر بات جیت کے بعد اتفاق ہوا ہے کہ تکنیکی ٹیمیں دونوں ملکوں کے منصوبوں کا دورہ کر کے جائزہ لیں گی۔
مہر علی شاہ کا کہنا تھا کہ بھارت کی جانب سے شروع کیے گئے لوئر کلنائی اور پکل دل منصوبے فوری طور پر مکمل نہیں ہو رہے۔ لہذٰا یہ تاثر درست نہیں کہ یہ منصوبے تکمیل کے قریب ہیں۔
انہوں نے کہا کہ بھارت ماضی میں بھی مون سون میں سیلاب کی صورتِ حال سے آگاہ کرتا رہا ہے اور یکم جولائی سے قبل دریاؤں کے پانی کی صورتِ حال سے آگاہی کے لیے ایک اجلاس منعقد کیا جائے گا۔
پاکستان کے واٹر کمشنر نے کہا کہ یہ بات خوش آئند ہے کہ بھارت نے کرونا وائرس کی وبا کے دوران پاکستان کو دورے کی دعوت دی اور آئندہ اجلاس کے لیے پاکستان آنے پر بھی اتفاق کیا ہے۔
دوسری جانب بھارت کے دفترِ خارجہ کے بیان کے مطابق بھارتی وفد نے پاکستان کو یقین دہانی کروائی ہے کہ نئی دہلی معاہدے کے مطابق معلومات مہیا کرے گا جس وقت اس کی ضرورت ہو گی۔
بھارتی دفترِ خارجہ کے مطابق دونوں ملکوں کے وفود کے درمیان خوشگوار ماحول میں بات چیت ہوئی۔
مذاکرات میں بھارت کی طرف پن بجلی کے دو منصوبوں پَکل دُل اور لوئر کلنائی زیرِ بحث رہے۔ جس پر نئی دہلی نے مؤقف اپنایا کہ دونوں منصوبے سندھ طاس معاہدے کی شقوں کی خلاف ورزی نہیں ہیں اور اس ضمن میں پاکستانی وفد کو تکنیکی معلومات فراہم کی گئی ہیں۔
اس سے قبل پاکستان کے انڈس واٹر کمشنر نے نئی دہلی میں صحافیوں سے بات چیت میں کہا تھا کہ پاکستان بھارت کے چار متنازع ہائیڈرو الیکٹرک منصوبوں پر اپنے اعتراضات پر قائم ہے۔
بھارت کے ساتھ پاکستان کے پانی کے تنازعات کے ماہر شیراز میمن کہتے ہیں کہ پاکستان کے حصے میں آنے والے دریا بڑے ہونے کے باعث سندھ طاس معاہدے میں بھارت کو ان دریاؤں پر پانی محفوظ کرنے اور بجلی بنانے کی کچھ گنجائش دی گئی تھی۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں انہوں نے کہا کہ معاہدے میں ان منصوبوں کے اصول اور معیار بھی بتائے گئے ہیں۔
شیراز میمن نے بتایا کہ پاکستان کے اعتراض پر بھارت نے پَکل دُل اور راتلے پن بجلی منصوبوں کے ڈیزائن میں تبدیلیوں کی پیش کش کی تھی لیکن اس پر اتفاق رائے نہیں ہو سکا۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان دریاؤں کے پانی کے معاملے پر سیاسی بیانات ضرور دیے جاتے ہیں لیکن اس کے باوجود سندھ طاس معاہدے پر عمل درآمد بہتر انداز میں ہو رہا ہے۔
ان کے مطابق معاملات اور طے شدہ نکات پر عمل درآمد میں تاخیر ضرور ہو جاتی ہے جو کہ سیاسی بیان بازی کا سبب بنتا ہے لیکن کسی فریق کی جانب سے معاہدے کے بنیادی اصولوں کی نفی نہیں کی گئی۔
شیراز میمن کہتے ہیں کہ پاکستان کی جانب سے تاخیر کے سبب ہی بھارت کو کشن گنگا ڈیم بنانے کا موقع ملا۔ انہوں نے کہا کہ گزشتہ تین سال سے انڈس واٹر کمشنر کی مستقل تعیناتی نہ ہونے کے سبب پاکستان کو بھارت کے ساتھ ان معاملات پر بات چیت میں مشکلات کا سامنا ہے۔
سن 1960 میں عالمی بینک کی ثالثی میں ہونے والے سندھ طاس معاہدے کے مطابق بھارت دریائے راوی، ستلج اور بیاس کے پانی پر حق رکھے گا جب کہ چناب اور جہلم کے دریاؤں کا پانی پاکستان استعمال کرے گا۔
حالیہ برسوں میں بھارت نے دریائے جہلم اور چناب پر پانی کے استعمال اور ان دریاؤں پر ڈیم بنانے کی منصوبہ بندی کی ہے۔
پاکستان نے ان منصوبوں پر اعتراض اٹھاتے ہوئے کہا ہے کہ یہ سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی ہے۔ بھارت کا مؤقف ہے کہ یہ منصوبے اور پانی کا استعمال معاہدے کے مطابق ہے۔