پاکستان میں شدید گرمی کی لہر کے دوران ملک بھر میں بجلی کا بحران سنگین ہوتا جا رہا ہے اور مختلف شہروں میں لوڈ شیڈنگ کی وجہ سے عوام مشکلات کا شکار ہیں۔
اس وقت ملک بھر میں مجموعی شارٹ فال 5000 میگا واٹ تک پہنچ چکا ہے جب کہ نیپرا نے بڑھتی ہوئی لوڈ شیڈنگ پر کراچی میں بجلی کی ترسیل کرنے والے نجی ادارے کے-الیکٹرک سمیت بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں سے جواب طلب کیا ہے۔
شارٹ فال بڑھنے کے باعث ملک کے متعدد علاقوں میں غیر اعلانیہ لوڈ شیڈنگ کی جا رہی ہے۔
وزارت توانائی نے تسلیم کیا ہے کہ تربیلا ڈیم سے پانی کے کم اخراج سمیت منگلا اور تربیلا سے بھی تین ہزار میگاواٹ بجلی کی کمی کا سامنا ہے۔
وفاقی وزیر حماد اظہر کا کہنا ہے کہ چند پلانٹس کی ٹیکنیکل بندش کے باعث گزشتہ 48 گھنٹوں میں بجلی کی لوڈشیڈنگ ہوئی ہے جسے دور کرنے کے لیے آج رات تک متبادل ذرائع سے 1100 میگا واٹ بجلی مہیا کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ جب کہ تربیلا ڈیم سے تین ہزار میگاواٹ بجلی چار سے چھ روز میں نظام میں واپس شامل ہو جائے گی۔
حماد اظہر کا کہنا ہے کہ گزشتہ 48 گھنٹوں سے صرف ایک ہزار میگاواٹ کا شارٹ فال آیا ہے۔
بجلی کتنی اور طلب کتنی؟
پاکستان میں بننے والی بجلی 64 فی صد ایندھن، 27 فی صد پانی، پانچ فی صد جوہری توانائی اور چار فی صد شمسی و دیگر متبادل ذرائع سے حاصل ہوتی ہے۔
اس وقت ملک میں گرمی کی شدت کے باعث بجلی کی طلب میں اضافہ ہوا ہے اور ایک اندازے کے مطابق ملک میں اس وقت بجلی کی مجموعی پیداوار 19 ہزار میگاواٹ ہے جب کہ اس کے مقابلے میں طلب 24 ہزار میگاواٹ ہے۔
اس صورتِ حال کے باعث مختلف شہروں میں چھ سے آٹھ گھنٹے تک بجلی کی لوڈشیڈنگ کی جا رہی ہے۔
بجلی کی طلب زیادہ ہونے کی وجہ سے تقسیم کار کمپنیوں کے 80 فی صد ٹرانسفارمر اوور لوڈڈ ہیں۔
بجلی کی متعدد تقسیم کار کمپنیوں کا کہنا ہے کہ درجۂ حرارت میں اضافے اور طلب بڑھنے کے باعث کئی فیڈرز ٹرپ ہو رہے ہیں جن کی بحالی کا کام جاری ہے۔
'بجلی کی پیداوار آنے والے دنوں میں بڑھ جائے گی'
ترجمان وزارت توانائی کا کہنا ہے کہ کم پانی کے اخراج کی وجہ سے تربیلا ڈیم اور منگلا ڈیم سے اس وقت 3300 میگاواٹ کم بجلی پیدا ہو رہی ہے۔
ان کے بقول ملک کی کُل بجلی کی طلب 24100 میگاواٹ ہے جب کہ سسٹم میں موجود پیداوار 22600 میگاواٹ ہے۔
انہوں نے کہا کہ تقسیم کار کمپنیوں کو نظام بہتر بنانے کی ہدایات جاری کر دی گئی ہیں، بجلی کی پیداوار آنے والے دنوں میں بڑھ جائے گی۔
علاوہ ازیں وزارتِ توانائی نے صارفین سے عارضی طور پر لوڈ مینیجمنٹ پر معذرت کی ہے۔
نیپرا کا نوٹس
شدید گرمی میں لوڈ شیڈنگ پر نیشنل پاور ریگولٹری اتھارٹی (نیپرا) نے نوٹس لیتے ہوئے تمام تقسیم کار کمپنیوں کے سربراہان کو 11 جون کو طلب کر لیا ہے۔
نیپرا نے تمام ڈسکوز اور کے الیکڑک سے لوڈ شیڈنگ کی رپورٹ طلب کرتے ہوئے استفسار کیا ہے کہ لوڈشیڈنگ کیوں ہو رہی ہے، حقائق سے آگاہ کیا جائے۔
نیپرا کا کہنا ہے کہ صارفین کو بلاتعطل بجلی کی فراہمی ڈسکوز کی ذمہ داری ہے، صارفین کو بجلی کی بلاتعطل فراہمی یقینی بنائی جائے جب کہ لوڈشیڈنگ سے متعلق تمام حقائق جمعے تک نیپرا کو آگاہ کیا جائے۔
نیپرا کا مزید کہنا تھا کہ غیر اعلانیہ لوڈ شیڈنگ کی وجوہات اور ان کے متبادل حل کے حوالے سے آگاہ کیا جائے۔
لوڈشیڈنگ کے باعث ملک کے کئی علاقوں میں احتجاج بھی ہوا ہے۔ جب کہ پشاور میں ایک رکن صوبائی اسمبلی نے زبردستی بند فیڈر کو آن کرایا تھا۔
پاکستان میں کتنی بجلی بنتی ہے؟
ملک میں بجلی بننے سے متعلق مختلف دعوے کیے جاتے رہے ہیں۔ قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف شہباز شریف نے آٹھ جون کو لوڈشیڈنگ کے حوالے سے سوشل میڈیا پر ایک بیان میں کہا تھا کہ ملک میں اس وقت 16 ہزار میگاواٹ بجلی پیدا ہو رہی ہے جب کہ طلب 25 ہزار میگاواٹ کی ہے۔
انہوں نے کہا تھا کہ سال 2018 میں 27 ہزار میگاواٹ بجلی نہ صرف پیدا کی گئی بلکہ سپلائی بھی کی گئی۔ سوال یہ ہے کہ جب پیداوار اور سپلائی کرنے کی صلاحیت موجود ہے تو لوڈشیڈنگ کیوں ہو رہی ہے؟
حماد اظہر نے شہباز شریف کو جواب دیتے ہوئے کہا تھا کہ آپ کی محنت صرف مہنگے بجلی کے سودے کرنے میں تھی۔ نہ کھپت کا سوچا اور نہ ہی ٹرانسمیشن کے فرسودہ نظام پر سرمایہ کاری کی۔ تحریک انصاف کی حکومت اب بجلی گھروں سے کیے گئے معاہدے درست بھی کر رہی ہے اور ٹرانسمیشن میں سب سے زیادہ انویسٹ کر رہی ہے۔
وزارت توانائی کے مطابق گزشتہ روز کُل طلب 23 ہزار 174 میگاواٹ تھی جس کے لیے کُل 22 ہزار 243 میگاواٹ بجلی موجود تھی۔ اس طرح صرف 924 میگاواٹ بجلی کی کمی کا سامنا تھا۔
پاکستان کے دیہی علاقے لوڈشیڈنگ سے سب سے زیادہ متاثر ہیں جہاں چھ سے آٹھ گھنٹوں تک لوڈشیڈنگ کی جا رہی ہے جب کہ شہری علاقوں میں بھی دو سے تین گھنٹوں تک بجلی کی فراہمی متاثر ہو رہی ہے۔
بجلی کے باوجود لوڈشیڈنگ کا مسئلہ کیوں؟
پاکستان میں بجلی کی پیداواری صلاحیت زیادہ ہونے کے باوجود لوڈشیڈنگ کا سلسلہ جاری ہے اور حکومت کے مطابق اس کی بڑی وجہ ٹرانسمیشن لائنز پر سرمایہ کاری نہ کرنا ہے۔
حکومت کا کہنا ہے کہ اس وقت بجلی موجود ہے لیکن ترسیل کے لیے موجود نظام اتنی صلاحیت نہیں رکھتا کہ وہ اس بجلی کو عوام تک پہنچا سکے۔ پاکستان کی زیادہ تر مین ٹرانسمیشن لائنیں پرانی ہو چکی ہیں اور وہ ایک حد سے زیادہ لوڈ نہیں اٹھا سکتیں۔
تین مرتبہ واپڈا کے چیئرمین رہنے والے شمس الملک حکومت کی اس بات سے متفق نہیں ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ جب ٹرانسمیشن کا نظام بنایا جاتا ہے تو اس میں مزید اضافے کی گنجائش رکھی جاتی ہے۔
انہوں نے کہا پاکستان میں جو نظام نصب کیا گیا تھا وہ اس وقت دنیا کے محض چند ایک ممالک میں تھا۔ ان کے خیال میں آج بھی اس نظام میں مسئلہ نہیں ہے اور اگر مسئلہ ہو تو وہ بھی معمولی حد تک ہو سکتا ہے۔ البتہ زیادہ لوڈ شیڈنگ مینیجمنٹ کے مسائل کو ظاہر کرتی ہے۔
دوسری جانب پاور سیکٹر پر کام کرنے والے ارشد عباسی کہتے ہیں کہ بجلی کا نظام تین چیزوں پر منحصر ہے جس میں پہلے نمبر پر پیداوار، پھر ٹرانسمیشن اور تیسرے نمبر پر ڈسٹری بیوشن ہے۔
انہوں نے کہا کہ ماضی میں جنریشن پر کام ہوا لیکن ٹرانسمیشن اور ڈسٹری بیوشن پر نہ ہونے کے برابر کام ہوا۔ ہمارے ٹرانسفارمر 80 فی صد سے زائد اوور لوڈ ہیں۔ جب تک اس پر کام نہیں ہو گا تب تک بجلی کا نظام درست نہیں ہو سکتا۔