فلم ساز جامی نے کہا ہے کہ وہ 13 سال تک اس لیے خاموش رہے کہ پہلے 'می ٹو' موومنٹ نہیں تھی اور بات کرنا آسان نہیں تھا۔ "میں چاہتا ہوں کہ یہ وائن اسٹائین کی طرح لینڈمارک کیس بنے۔ میرے پاس جو مضبوط چیزیں ہیں وہ میں ابھی استعمال نہیں کر رہا ورنہ بات شاید عدالت تک بھی نہ جاتی۔"
انہوں نے یہ بات وائس آف امریکہ کے ساتھ فیس بک لائیو میں کہی۔ انہوں نے کہا کہ حمید ہارون کہتے ہیں کہ وہ مجھ سے تنہائی میں کبھی نہیں ملے جب کہ میں ان کے گھر کا پورا نقشہ بتا سکتا ہوں۔
جامی کے نام سے معروف جمشید محمود نے اکتوبر میں ایک ٹوئٹ کیا تھا جس میں انہوں نے انکشاف کیا تھا کہ ایک میڈیا ٹائیکون نے 13 سال پہلے ان کا ریپ کیا تھا۔ اگرچہ انہوں نے نام نہیں لیا تھا لیکن سوشل میڈیا پر قیاس آرائیاں کی جا رہی تھیں کہ وہ شخص ڈان میڈیا گروپ کے سربراہ حمید ہارون ہیں۔
اتوار کو جامی نے ٹوئٹ میں کھل کر حمید ہارون کا نام لیا اور ان پر جنسی زیادتی کا الزام عائد کیا۔ ڈان گروپ نے اپنی ویب سائٹ پر حمید ہارون کا بیان خبر کی صورت میں جاری کیا جس میں حمید ہارون نے الزام کو مسترد کرتے ہوئے جامی کے خلاف قانونی چارہ جوئی کا عندیہ دیا ہے۔
جامی نے اکتوبر میں کی گئی ٹوئٹ کو 'می ٹو موومنٹ' کا حصہ قرار دیا تھا۔ اس پر سوشل میڈیا پر بہت سے افراد نے ان کی حوصلہ افزائی کی۔ اور اتنے سال بعد اس واقعے کو سامنے لانے پر ان کا ساتھ دینے جیسے ٹرینڈز چلائے گئے۔
لیکن ان پر کسی کا نام نہ لینے پر تنقید بھی ہوئی۔ وہ اپنی ٹوئٹس میں یہی کہتے رہے کہ یہ ان کا حق ہے کہ وہ اس بارے میں کب اور کتنی بات کریں۔ لیکن نئی ٹویٹ میں ان کا کہنا تھا کہ وہ اب ذہنی طور پر جنسی زیادتی کرنے والے کا نام لینے کے لیے تیار ہیں۔ اس سے اگلی سطر میں انہوں نے حمید ہارون کا نام لے لیا۔
ڈان کی جانب سے چھاپی گئی خبر کے مطابق حمید ہارون کا کہنا ہے کہ ان پر لگائے گئے الزامات بد نیتی پر مبنی ہیں۔ اور اس کے پیچھے کچھ قوتیں ہیں جو جامی سے یہ ٹوئٹس کرا رہی ہیں۔
انہوں نے اپنے بیان میں گزشتہ دنوں ڈان کے دفاتر پر ہونے والے حملوں اور احتجاج کو جامی کی ٹوئٹس سے جوڑا۔ ان کا کہنا تھا تھا کہ ایسے الزامات ڈان کو متنازع کرنے اور آزادی صحافت پر قدغن لگانے کی کوشش ہے۔
حمید ہارون نے کہا کہ وہ پہلے بھی ان ٹوئٹس کا جواب دینے کا حق محفوظ رکھتے تھے۔ لیکن چونکہ پہلے ان کا نام نہیں لیا گیا تھا اس لیے وہ خاموش رہے۔ البتہ جامی کے بیان میں کہیں یہ ذکر نہیں کہ ان کے پاس کوئی شواہد موجود ہیں۔ لہذٰا وہ سمجھتے ہیں کہ جامی کی ٹوئٹس کے پیچھے کسی خاص حلقے کا ہاتھ ہے۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ حمید ہارون کبھی جامی سے تنہائی میں نہیں ملے اور ان سے ملاقاتیں بہت محدود اور پیشہ ورانہ نوعیت کی تھیں۔
جامی نے وائس آف امریکہ اُردو سے بات کرتے ہوئے اپنے الزامات کا دفاع کیا۔
انہوں نے کہا کہ ان کی ٹوئٹ کے بعد صورتِ حال کچھ خراب ہورہی تھی۔ ان کے دوستوں نے مشورہ دیا کہ وہ ملک چھوڑ کے چلے جائیں اس لیے وہ اپنے بھائی کے پاس امریکہ آ گئے ہیں۔
جامی کا کہنا تھا کہ وہ پاکستان واپس ضرور جائیں گے۔ ابھی وہاں سے نکلنے کی وجہ یہ ہے کہ لوگ بہت طاقتور ہیں۔ انہوں نے اس تاثر کی نفی کی کہ وہ کیسز اور عدالتوں سے بھاگ کر امریکہ آ گئے۔
ثبوتوں سے متعلق پوچھے گئے سوال پر جامی کا کہنا تھا کہ "میرے پاس جو مضبوط چیزیں ہیں وہ میں ابھی استعمال نہیں کر رہا ورنہ بات شاید عدالت تک بھی نہ جاتی۔ ثبوت مختاراں مائی کیس میں بھی تھے لیکن اس میں بھی مجرم چھوٹ گئے۔ پاکستان کے قوانین اس طرح کے ہیں کہ ایسے معاملات میں زیادہ امید نہیں رکھی جا سکتی۔"
جامی نے کہا کہ میرے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ 'اسٹیبلشمنٹ' سے مل گیا ہوں۔ یہ بے بنیاد بات ہے۔ اس کا ڈان یا آزادی صحافت سے کوئی تعلق نہیں۔ حمید ہارون آل پاکستان نیوز پیپر سوسائٹی (اے پی این ایس) کے چیئرمین ہیں۔ انہوں نے 'ہولی سنر' میں میرا تذکرہ ایسے کیا ہے جیسے بے تکلف دوست کا کیا جاتا ہے۔
خیال رہے کہ پاکستان کے معروف خطاط صادقین کے فن پاروں کی نمائش 'ہولی سنر' Holly Sinner کے نام سے کی جاتی تھی۔ اس ضمن میں اگست 2003 میں کراچی کے موہٹہ پیلس میں ایک تقریب ہوئی تھی۔ جس سے خطاب میں حمید ہاروں نے اس نمائش کے منتظمین کا تذکرہ کیا تھا۔
جامی نے کہا کہ پاکستان میں 'می ٹو موومنٹ' کو آگے بڑھانے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے شکوہ کیا کہ ٹوئٹر پر جتنے بڑے صحافی ہیں وہ خاموش ہیں۔ کیوں کہ ان کی تنخواہیں یہ میڈیا مالکان ادا کرتے ہیں۔ صحافی بڑے جنگجو بنتے ہیں لیکن ان سے زیادہ ڈرپوک لوگ نہیں دیکھے۔