جنگ کی یادگاریں جنگ کو یاد رکھنے کا ذریعہ ہوتی ہیں یا جنگ میں دی گئی قربانیوں کو؟ دونوں کو یاد رکھنا کیوں ضروری ہے؟ کیا جنگ مسئلے کا حل ہوتی ہے؟ کیا جنگ مسئلہ حل کرسکتی ہے؟
امیت رائے بھارت کے شہر جمشید پور سے بیٹی کے داخلے کے لئے امریکہ آئے ہیں۔ واشنگٹن میں ان کا قیام تفریحی ہے۔
تفریحی ٹرپ میں جنگی یادگار پر آنے کی کیوں سوجھی؟
بولے۔۔۔’’ٹورٹس کے ساتھ آیا ہوں‘۔
ان کے بقول، ’پاکستان اور بھارت میں کوئی جنگ نہیں چاہتا۔ آپ کسی سے بھی پوچھ لیجئے۔ اسی لئے ’بجرنگی بھائی جان‘ اتنی مقبول ہوئی۔۔۔بیوٹی فل مووی‘۔
ان کا خیال ہے کہ جنگ کی یادگاریں تاریخ سے سبق سیکھنے کا ذریعہ ہوتی ہیں۔ لیکن، ان کے بقول، سیاستدان ان سے اپنا ہی اُلو سیدھا کرتے ہیں۔
مگر جس سپاہی نے جنگ کے میدان میں اپنی جان داؤ پر لگائی ہو، کیا اسےبھی ایسا ہی محسوس ہوتا ہے؟
ویت نام جنگ میں امریکی فوج کا حصہ رہنے والے جیمز گیفرڈ کہتے ہیں کہ اگر کسی نے اس دور میں ویت نام کی نیشنل لیبریشن فرنٹ کے مظالم دیکھے ہوتے تو وہ کبھی ویتنام جنگ کو غیر ضروری نہ کہتا۔ گیفرڈ کو فخر ہے کہ انہوں نے اپنے ملک کی خدمت کی؛ اور یہ کہ اگر وقت پڑا، تو دوبارہ بھی ایسا کریں گے۔
لیکن، جنگ کے ضروری اور غیر ضروری ہونے کا جواز کچھ بھی ہو۔۔ویت نام جنگ کا حصہ رہنے والے ایک اور سابق امریکی فوجی، رابرٹ پولنز کہتے ہیں کہ ’اگر میرا سینئیر مجھے حکم دے یا میں ایسی صورتحال میں پھنس جاؤں جہاں مجھے خود اپنی جان بچانی ہو تو میں کیا کروں گا؟ کسی کو خود پر گولی چلانے دوں گا؟۔۔ جوابی گولی نہیں چلاؤں گا؟‘
ان کے بقول، ’آپ کو جن حالات میں دھکیلا جاتا ہے، ان میں کچھ نہ کچھ تو کرنا ہی پڑتا ہے‘۔
گویا، جنگ کے مشن پر سپاہی کے لئے قربانی اور حب الوطنی کے الفاظ کے کوئی معنی نہیں ہوتے؟
رابرٹ پولنز کو میرا سوال کچھ پسند نہیں آیا۔۔فوراً بولے۔
’دیکھئے، میرا مسئلہ یہ ہے کہ جنگ کے میدان میں کچھ لوگ قربانی دیتے ہیں اور کچھ نہیں۔ لیکن، پھل انہیں ملتا ہے، جنہوں نے کوئی قربانی نہیں دی ہوتی۔۔ آپ نے سابق فوجیوں کے اسپتال کے حالات تو سنُے ہونگے۔ کتنی شرمناک بات ہے‘۔
رابرٹ پولنز ورجینیا میں سابق فوجیوں کے اسپتال میں مبینہ غفلت اور
بے قاعدگیوں کا ذکر کر رہے تھے۔۔۔ جن کا حال امریکی اخبارات وقتاً فوقتاً شائع کرتے رہتے ہیں۔
ویت نام جنگ کی یادگار پر انگریزی کے حرف ’ایل‘ کی طرح دو کالی دیواروں سر جوڑے کھڑی ہیں۔ ان پر اٹھاون ہزار امریکی فوجیوں کے نام ہیں،جو یا تو جنگ میں مارے گئے یا لاپتہ ہوئے۔ دیواریں اپنے ارتکاز کے مقام پر زمین میں دھنسی ہوئی ہیں۔ زمین میں دھنسے ہونے کا مطلب وہ زخم جو بھر چکا ہے۔ لیکن اس کی چوٹ گہری ہے۔
’رٹگرز سکول آف آرٹ اینڈ سائینس‘ کے طالبعلم یولی ہواریز جنگ کی یادگاروں پر آنے کو طاقتور اور ہلا دینے والا تجربہ قرار دیتے ہیں۔ ان کے بقول، ’شیشے جیسی دیوار پر اتنے نام دیکھ کر، ان میں اپنا آپ نظر آتا ہے‘۔
جیمز گیفرڈ کے خیال میں ’جنگ کی یادگاروں پر آنا ڈھارس بندھانے کے عمل کا حصہ ہے‘۔
’آج مجھے اس دیوار پر دو نام ایسے نظر آئے، جنہیں میں جانتا تھا۔ ایک میرے یونٹ میں تھا اور جنگ میں مارا گیا اور دوسرا میرے یونٹ میں تو نہیں تھا، لیکن میں اسے جانتا تھا۔۔‘
بالائی نیویارک کے سکول ٹیچر، اینڈریو شلز ہمیں دیوار پر نقش ایک ہسپانوی نام پر سفید کاغذ رکھے پینسل رگڑتے نظر آئے۔۔۔ان کا چہرہ سرخ اور آنکھیں نم تھیں۔ کاغذ پر ابھرے نام کی طرف اشارہ کرکے کہنے لگے، یہ ان کی بھابھی کے والد ہیں، جو ویتنام میں مارے گئے۔ اب وہ پینسل کی اس Rubbing کو لے جا کر اپنی بھابی کو دیں گے۔
دنیا کے ہر ملک میں جان دینے والے سپاہی کے اہل خانہ ایسی نشانیوں کو گھر کی دیواروں پر سجاتے ہیں۔ لیکن، ویتنام وار ویٹرنز فنڈ کے مطابق میموریل کی دیوار پر 38 نام ایسے لکھے ہیں جو جنگ میں جان دینے سے تو بچ گئےتھے۔ لیکن کسی کلرک کی غلطی سے نہ بچ سکے۔۔ اور ان کے نام بھی ہلاک فوجیوں کی فہرست میں شامل ہوکر اس دیوار کا حصہ بن گئے۔۔۔۔۔۔ غلطی درست ہوئی یا نہیں ۔۔تاریخ اس بارے میں خاموش ہے۔
امیت رائے غصے میں ہیں۔۔
’نام پڑھ لیجئے!۔۔کوئی جانتا تک نہیں ہوگا، کتنے شہید ہوئے، جن کے پریوار کے پاس آج نہ کھانے کو کچھ ہے اور نہ پینے کو سب ان کے کندھوں پر چڑھ کر روٹی سینک رہے ہیں۔ سیدھی سی بات وہی ہے‘۔
کیا جنگیں واقعی ضروری ہوتی ہیں؟ کیا جنگوں سے امن قائم ہو جاتا ہے؟ ۔۔۔ امریکی حکومت کے سب سے طاقتور شہر میں کسی سے یہ سوال کرنا کئی کے نزدیک زیادہ مناسب نہیں۔۔۔مگر سیاست کے طالب علم سیاسی درستگی یا پولیٹیکلی کریکٹ ہو کر جواب دینے میں کوئی حرج نہیں سمجھتے۔
ایوان گڈمین کے نزدیک، جنگ کوئی اچھی چیز نہیں ہوتی۔ جب بھی لوگ بلا جواز مارے جاتے ہیں۔ بے گھر ہوتے ہیں۔ برا ہوتا ہے۔
’ہماری نسل اس وقت ایک وار شاک سے گزر رہی ہے۔ ہم افغانستان اور عراق گئے جہاں کئی لوگوں کے خیال میں جانا ضروری نہیں تھا۔۔ اچھی طرح سوچے سمجھے بغیر کسی بھی جنگ میں جانا ٹھیک نہیں۔ اس سے نقصان ہوتا ہے‘۔
گویا، جنگ ہوتی ہی متنازعہ ہے؟
بوسٹن یونیوسٹی کے طالبعلم بین کوئیلر کے خیال میں، ’ہر شخص، ہر جنگ سے اتفاق نہیں کرتا۔ لیکن، اس سے کیا فرق پڑتا ہے۔ ’یہ اتنے ہزاروں لوگ، جو ان جنگوں میں مارے گئے، جو یہاں اس دیوار پر موجود ہیں۔ جب آپ ان کی آنکھوں میں دیکھتے ہیں تو یہ آپ کی آنکھوں میں دیکھتے ہیں‘۔
تابندہ نعیم کا وڈیو فیچر دیکھنے کے لئے، کلک کیجئے:
Your browser doesn’t support HTML5