|
پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر کے وزیرِ اعظم چوہدری انوارالحق نے عوامی ایکشن کمیٹی کے احتجاج کے بعد بجلی اور آٹے پر سبسڈی دینے کا اعلان کر دیا ہے۔
وزیرِ اعظم کا کہنا تھا کہ پاکستان کی وفاقی حکومت کی جانب سے بات چیت کے بعد بجلی کے نرخوں میں سبسڈی کا نوٹی فکیشن جاری کر دیا گیا ہے۔
نوٹی فکیشن کے مطابق ایک سے 100 یونٹ تک بجلی کا نرخ تین روپے فی یونٹ چارج ہوگا۔ اسی طرح 100 سے 300 یونٹ کے لیے نرخ پانچ روپے فی یونٹ اور 300 سے زائد کے لیے چھ روپے فی یونٹ بجلی کا نرخ جاری کیا گیا ہے۔
نوٹی فکیشن میں کمرشل ٹیرف کے لیے ایک سے 300 یونٹ کے لیے 10 روپے اور 300 سے زائد یونٹ کے لیے 15 روپے فی یونٹ کا نرخ رکھا گیا ہے۔
اسی طرح آٹے کی قیمتوں میں بھی کمی کا اعلان کر دیا گیا ہے۔ آٹے کی قیمتوں میں فی من 1100 روپے کی سبسڈی دی گئی ہے جس کے بعد پہلے آٹے کا نرخ جو 31 سو روپے فی من تھا، اب اسے 2000 روپے فی من کردیا گیا ہے۔
پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر کے وزیرِ اعظم نے کا کہنا تھا کہ یہ نوٹی فکیشن فوری طور پر نافذ العمل ہوگا۔
اس سے قبل اتوار اور پیر کی درمیانی شب پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر میں بجلی قیمتوں میں کمی اور آٹے پر سبسڈی دینے سمیت مخلتف مطالبان کے حق میں مظاہرے کرنے والی جوائنٹ ایکشن کمیٹی اور حکومت کے درمیان مذاکرات میں پیش رفت نہیں ہوسکی تھی۔
کمیٹی نے لانگ مارچ جاری رکھنے کا اعلان کیا تھا اور لانگ مارچ میں شریک قافلوں نے راولاکوٹ سے مظفرآباد کی طرف سفر کا آغاز کر دیا تھا۔
SEE ALSO: احتجاجی لانگ مارچ کے راولاکوٹ پہنچنے پر مذاکرات کا آغاز، موبائل انٹرنیٹ سروسز بدستور بندحکومتی اعلان پر تاحال عوامی ایکشن کمیٹی کا کوئی ردِ عمل سامنے نہیں آیا ہے اور مظفر آباد کی جانب اس کا مارچ جاری ہے۔
پیر کو کشمیر کی صورتِ حال پر پاکستان کے وزیرِ اعظم شہباز شریف کی صدارت میں ان مطالبات سے متعلق وفاقی کابینہ کا اجلاس ہوا تھا جس کے بعد یہ بجلی اور فوڈ سبسڈی کے نوٹی فیکیشن جاری کیے گئے۔
پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر کے وزیرِ اعظم انوارلحق نے کہا کہ یہ ریلیف وقتی نہیں ہے بلکہ مستقل ہوگا اور کشمیر کے آئندہ بجٹ میں بھی اسے شامل کیا جائے گا۔
انہوں نے بتایا کہ سبسڈی کے حالیہ فیصلے سے اس سے قومی خزانے پر 23 ارب سے بھی زائد کا بوجھ پڑے گا جسے وزیرِ اعظم نے خوش دلی سے قبول کیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ عوامی ایکشن کمیٹی کی جدو جہد رنگ لائی اور ان کے احتجاج کو اپنی قوت کے طور پر دیکھا۔
انہوں نے بتایا کہ نیلم جہلم کے نرخ اور بجلی کے چارجز سے متعلق فیصلے جلد حل کرلیے جائیں گے۔
چوہدری انوار الحق نے کہا کہ صدر اور وزیرِ اعظم نے یقین دہانی کرائی تھی کہ سب اسٹیک ہولڈرز اسلام آباد میں بیٹھیں گے اور اس معاملے کو جلد از جلد حل کرلیں گے۔
لا اینڈ آرڈر کی صورتِ حال پر انہوں نے کہا کہ کشمیر میں ایک منتخب جمہوری حکومت ہے جو عوامی مینڈیٹ اور مزاج کوسمجتھی ہے۔ اس لیے پرامن جہدوجہد میں رکاوٹ ڈالنے کا پہلے بھی ارادہ نہیں تھا اور آئندہ بھی نہیں ہے۔
ان کا کہنا تھا اس احتجاج کے دوران کشمیر کے 100 سے زائد پولیس اہل کار زخمی ہوئے اور ایک افسر ہلاک ہوا۔ لیکن پولیس کو فائرنگ کی اجازت نہیں تھی اور نہ ہی انہیں اسلحہ فراہم کیا گیا تھا۔ اسی وجہ سے لانگ مارچ کے شرکا کو کوئی نقصان نہیں پہنچا۔
SEE ALSO: پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر کے وزیراعظم کی پرتشدد مظاہروں کے بعد ایکشن کمیٹی کو مذاکرات کی دعوتکشمیر کی صورتِ حال پر اجلاس
اس سے قبل وزیر اعظم شہباز شریف کی زیر صدارت آزاد کشمیر کی صورتِ حال پر اعلیٰ سطح کا اجلاس ہوا۔
اجلاس میں وزیرِ اعظم آزاد کشمیر چوہدری انوار الحق، وفاقی وزیرِ امور کشمیر امیر مقام سمیت وفاقی وزرا اور اعلیٰ حکام شریک ہوئے۔
اجلاس میں صورتِ حال کا جائزہ لینے کے بعد وزیرِ اعظم شہباز شریف نے کشمیری عوام کے مسائل کو حل کے لیے 23 ارب روپے کی فوری فراہمی کی منظوری دی تھی۔
سرکاری دفاتر اور تعلیمی اداروں کو بند رکھنے کا فیصلہ
کشمیر میں حکومت نے لانگ مارچ کے پیش نظر 13 مئی کو مظفرآباد میں سرکاری دفاتر اور تعلیمی اداروں کو بند رکھنے کا فیصلہ کیا۔
واضح رہے کہ گزشتہ روز موبائل انٹرنیٹ سروسز بھی معطل کر دی گئی تھیں۔ ذرائع کے مطابق حکومت نے موبائل انٹرنیٹ سروسز کے بعد اب موبائل فون سروس بھی معطل کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔
دوسری جانب پاکستان کے وزیرِ اعظم شہباز شریف نے کشمیر کی صورتِ حال پر غور کے لیے ہنگامی اجلاس اسلام آباد میں طلب کیا تھا۔ پیر کو ہونے والے اجلاس میں کشمیر حکومت کے اعلیٰ حکام کو بھی مدعو کیا گیا۔
قبل ازیں سوشل میڈیا پر ایک بیان میں شہباز شریف نے صورتِ حال پر گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ مطالبات کے حل کے لیے پرامن لائحہ عمل اختیار کیا جائے۔
واضح رہے کہ اتوار کو پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر میں جاری احتجاجی لانگ مارچ میں شریک قافلے موسم کی خرابی کے باوجود راولاکوٹ شہر پہنچ چکا تھا۔
SEE ALSO: میرپور: اسرائیل مخالف مظاہرے کے دوران غیر ملکی ریستوران جلانے کا مقدمہ درجتین روز سے جاری احتجاج
کشمیر میں احتجاج کا یہ سلسلہ تین روز قبل شروع ہوا تھا۔ احتجاج میں کئی مقامات پر پر تشدد مظاہرے ہو چکے ہیں جس میں ایک پولیس اہلکار ہلاک اور کئی درجن مظاہرین زخمی ہوئے تھے۔
بجلی کی قیمتوں میں کمی اور گندم کے آٹے کی قیمت پر سبسڈی کی فراہمی کے مطالبات پر احتجاج کو منظم کرنے والی جوائنٹ ایکشن کمیٹی کا کہنا ہے کہ مختلف شہروں میں پولیس نے کئی درجن مظاہرین کو گرفتار بھی کیا۔
کشمیر میں احتجاج کا سلسلہ گزشتہ ایک سال سے جاری ہے۔ اس دوران حکومت اور جوائنٹ ایکشن کمیٹی کے ذمہ داران کے درمیان مذاکرات کے کئی ادوار ہوئے تاہم یہ مذاکرات نتیجہ خیز نہیں ثابت نہیں ہوسکے تھے۔
مظاہرین کے مطالبات
گزشتہ برس مئی سے شروع ہونے والی اس تحریک کے دو بڑے مطالبات ہیں جن میں پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر کے دریاؤں سے پیدا ہونے والی بجلی ضرورت کے مطابق پیداواری لاگت پر واپس مقامی آبادی کو فراہمی اور گندم کے آٹے کی قیمتوں پر گلگت بلتستان کی طرز پر سبسڈی شامل ہیں۔
دیگر مطالبات میں بیورو کریسی اور اشرافیہ کی سرکاری مراعات میں کمی، منتخب بلدیاتی نمائندوں کو ترقیاتی فنڈز کی منتقلی، کشمیر میں موبائل فون اور انٹرنیٹ سروسز کی بہتری، طلبہ یونین کی بحالی، کشمیر بینک کو شیڈولڈ بینک قرار دینے اور منگلا ڈیم پر رٹھوعہ ہریام پل کی تکمیل جیسے مطالبات شامل ہیں۔
ہیومین رائٹس کمیشن آف پاکستان کی گزشتہ ہفتے شائع ہونے والی سالانہ رپورٹ کے مطابق اس تحریک کے اوائل میں حکومت کی جانب سے اسے دبانے کے لیے انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں' کی گئیں۔
رپورٹ کے مطابق مظاہرین اور پولیس میں تصادم کے دوران کئی شہریوں کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا- یہ بھی کہا گیا ہے کہ احتجاج پر غداری اور بغاوت جیسی دفعات کے تحت کم از کم چار مقدمات درج کر کے 53 شہریوں کو گرفتار بھی کیا گیا تھا۔