انسانی حقوق کی ایک بین الاقوامی تنظیم ’ایمنسٹی انٹرنیشنل‘ نے کہا ہے کہ دنیا کے مختلف ملکوں میں موت کی سزا پانے والے قیدیوں میں ذہنی معذور اور کم فہم لوگ بھی شامل ہیں جو کہ بین الاقوامی معیار کی صریحاً خلاف ورزی ہے۔
جمعہ کو سزائے موت کے خلاف عالمی دن کے موقع پر ایمنسٹی انٹرنیشنل کی طرف سے جاری ایک بیان میں کہا گیا کہ امریکہ، جاپان اور پاکستان سمیت مختلف ملک جہاں اب بھی سزائے موت پر عملدرآمد کیا جاتا ہے، ذہنی عارضے یا کم فہم قیدیوں کو بھی سزائے موت سنائی گئی۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل کے بیان میں امریکہ اور جاپان کے علاوہ پاکستان میں سزائے موت کے ایسے قیدیوں کا تذکرہ کیا گیا جو ذہنی عارضے یا پھر عقلی پسماندگی کا شکار ہیں۔
پاکستان میں توہین مذہب کے قانون کے تحت سزائے موت پانے والے قیدی محمد اصغر کے بارے میں بیان میں کہا گیا کہ 2010ء میں برطانیہ میں اس شخص میں نفسیاتی مسائل کی تشخیص ہوئی تھی۔
یہ بعد ازاں پاکستان آ گیا اور اسے توہین مذہب کے الزام میں گرفتار کرنے کے بعد موت کی سزا سنائی گئی۔
اس قیدی کو حال ہی میں اڈیالہ جیل میں ایک پولیس اہلکار نے فائرنگ کر کے زخمی بھی کر دیا تھا۔
تنظیم کے مطابق ان ملکوں کو اپنے نظام انصاف میں فوری اصلاحات لانے کی ضرورت ہے تاکہ ایسے لوگوں کو لاحق خطرات کم ہو سکیں۔
عالمی امور سے متعلق ایمنسٹی انٹرنیشنل کی ڈائریکٹر اودری گاوگران نے بیان میں کہا کہ "بین الاقوامی سطح پر رائج معیار میں یہ واضح طور پر موجود ہے کہ ایسے افراد جو ذہنی اور عقلی معذوری کا شکار ہیں انھیں انتہائی سزا نہیں دی جانی چاہیے۔ لیکن بہت سے مقدمات میں یہ معذوری ظاہر ہی نہیں کی جاتی۔"
ان کا کہنا تھا کہ ایسے ممالک جہاں اب بھی سزائے موت دی جاتی ہے وہ اس بات کو یقینی بنائیں کہ سزائے موت کے قیدیوں کا مقدمہ شروع ہونے سے لے کر ان کی سزاؤں کے دورانیے میں ان کے رویوں کا آزادانہ جائزہ لینے کے لیے شد و مد سے اقدامات کریں۔