ناجائز اسلحے پر کنٹرول کی قرارداد، نئی بحث

ملک کو ناجائز اسلحے سے پاک کرنے کی قرارداد کثرت رائے سے منظور کرلی گئی لیکن ایوانوں کے باہر موجود مختلف سیاسی جماعتوں کے رہنما اب بھی اس پر مختلف آراء رکھتے ہیں۔
ملک کے ایوان بالا ’سینیٹ ‘ میں پیر کے روز کراچی کو جبکہ منگل کو قومی اسمبلی میں پورے ملک کو ناجائز اسلحے سے پاک کرنے کی قرارداد کثرت رائے سے منظور کرلی گئی۔

ادھر ایوانوں کے باہر مختلف سیاسی جماعتوں کے راہنماوں نے مختلف آراء کا اظہار کیا ہے، جس کے سبب ملک بھر میں ایک نئی بحث چھڑ گئی ہے۔


بحث اس موضوع پر ہورہی ہے کہ سینیٹ میں صرف کراچی کو جبکہ قومی اسمبلی کی قرارداد میں پورے ملک کو ناجائز اسلحے سے پاک کرنے کی بات کی گئی ہے، اور ایک اہم قومی معاملے پر اس طرح کا تضاد حیران کن امر ہے۔

سینیٹ کی قرارداد کو عوامی نیشنل پارٹی نے پیش کیا تھا جس کی ایم کیوایم نے سخت مخالفت کی تھی، جبکہ قومی اسمبلی کی قرارداد خود ایم کیوایم نے پیش کی ہے جسے اکثریت رائے سے منظور کرلیا گیا۔


اسی موضوع پر بات چیت کرتے ہوئے، مسلم لیگ ن سندھ کے جنرل سیکرٹری سلیم ضیا کا کہنا ہے کہ، ’ان قراردادوں کا منظور ہونا اچھی بات ہے لیکن ان پر عملدرآمد کون کرائے گا؟‘

اُن کے بقول، ’مفاہمتی پالیسی اختیار کرنے والے حکمراں ان قراردادوں پر کیسے عملدرآمد کریں گے۔اصل میں تو مفاہمتی پالیسی نے ہی کراچی کے حالات خراب کئے ہیں۔’

انھوں نے دعویٰ کیا کہ، ’حکومت اور اس کے اتحادی ملک کو یا کراچی کو اسلحہ سے پاک نہیں کرسکتے، یہ کام کوئی نگراں حکومت کرسکتی ہے یا آئندہ آنے والی حکومت۔‘


جماعت اسلامی سندھ کے امیر ڈاکٹر معراج الہدی صدیقی کے الفاظ میں: ’ملک کو اسلحہ سے پاک کرنے سے کسی کو انکار نہیں ہے لیکن اس کا آغاز کراچی سے کیا جائے کیوں کہ کراچی گزشتہ کئی سال سے بدامنی کا شکار ہے۔ یہاں دہشت گردی ملک کے دیگر شہروں سے بہت زیادہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ تمام سیاسی اور مذہبی جماعتیں پہلے کراچی کو اسلحے سے پاک کرنے کا مطالبہ کررہی ہیں‘۔

انہوں نے مزید کہا کہ، ’کراچی دنیا کے خطرناک شہروں میں شامل ہے۔ اس لیے یہاں پہلے آپریشن ہونا چاہیے اور یہ آپریشن بلاامتیاز ہو ۔جو بھی جرائم میں ملوث ہو،چاہے اس کا تعلق کسی بھی جماعت سے ہو، اس کیخلاف بلا امتیاز کاروائی کی جائے۔‘

انھوں نے کہا کہ، ’ کراچی میں امن اسی وقت قائم ہوسکتا ہے جب آئین اور قانون کی بالادستی ہو۔‘


دوسری جانب، قومی اسمبلی اور سینیٹ میں موجود سیاسی جماعتوں کا ردعمل خاصا دلچسپ ہے۔ خود پیپلز پارٹی کے بعض ارکان مختلف رائے رکھتے ہیں۔

جے یو آئی کے مولانا فضل الرحمٰن نے قومی اسمبلی میں قرارداد کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ ’ملک حالت جنگ میں ہے۔‘

اُن کے الفاظ میں: ’خون کا کھیل کھیلا جارہا ہے۔ ادارے عوام کو تحفظ دینے میں ناکام ہوچکے ہیں۔ اگرعام آدمی سے اسلحہ چھینا گیا تو وہ اپنا تحفظ کیسے کرے گا۔ لوگوں کو اپنے تحفظ کیلئے اسلحہ رکھنے کا حق ہونا چاہئے‘۔


ادھر ن لیگ ،جے یو آئی اور عوامی نیشنل پارٹی نے قرارداد کو ’فضول مشق‘ قراردیا اور کہا کہ ملک کو اسلحہ سے پاک کرنا ممکن نہیں۔ سیکوریٹی ادارے اپنی ذمہ داری پوری کریں۔

پیپلز پارٹی کے نور عالم خان کاکہناتھا کہ وہ ملک کو اسلحہ سے پاک کرنے کی قرارداد کی حمایت نہیں کرتے ۔ اس قرارداد کو ایوان میں یکطرفہ کارروائی کے ذریعے ’بل ڈوز‘ کیا گیا ہے اور ووٹنگ نہیں کروائی گئی۔