توہینِ پارلیمنٹ بل کی منظوری؛ 'پارلیمان اپنی بالادستی منوانا چاہتی ہے'

پاکستان کی پارلیمنٹ کی جانب سے توہینِ پارلیمنٹ بل کی منظوری کا معاملہ سیاسی اور عوامی حلقوں میں موضوعِ بحث بنا ہوا ہے۔ بعض حلقے اس بل کو پارلیمان کی بالادستی کے لیے ضروری قرار دے رہے ہیں جب کہ بعض مبصرین کہتے ہیں کہ اس سے اداروں کے درمیان محاذ آرائی مزید بڑھے گی۔

پاکستان کی پارلیمنٹ نے منگل کو تحقیر مجلس شوریٰ (توہین پارلیمنٹ)بل 2023 منظور کیا تھا۔

اس بل میں ہے کیا؟

قومی اسمبلی میں پاس ہونے والے اس بل کے تحت مجلسِ شوری (پارلیمنٹ) یا اس کی کسی کمیٹی کی تحقیر یا کسی ایوان یا رکن کا استحقاق مجروح کرنے پر سزا ہو گی۔

ایوان یا ایوان کی کسی کمیٹی کے احکامات یا ہدایات کی خلاف ورزی کرنے والے پر کسی رکن، ایوان یا کمیٹی کا استحقاق توڑنے پر یہ قانون لاگو ہوگا۔

بل کے مطابق کمیٹی کے سامنے جھوٹے بیان یا ثبوت یا ریکارڈ کی فراہمی سے انکار، کسی گواہ کو دھمکیوں یا طاقت کے ذریعے کمیٹی کے سامنے ثبوت پیش کرنے یا بیان دینے سے روکنے والے پر بھی یہ قانون لاگو ہو گا۔

بل کے مطابق کسی بھی شخص کے خلاف توہین کا یہ قانون لاگو کرنے کے لیے ایوان تحریک کے ذریعے توہین کا معاملہ پانچ رکنی کمیٹی کو بھیجے گا۔ بل کے تحت توہینِ پارلیمنٹ پر مختلف سزائیں تجویز کی گئی ہیں۔

قانون کے مطابق انسدادِ تحقیر کمیٹی پانچ ممبران پر مشتمل ہو گی جس کے قیام کی منظوری اسپیکر قومی اسمبلی دیں گے۔قومی اسمبلی سے تین جب کہ سینیٹ سے دو اراکین کمیٹی میں شامل ہوں گے۔

کمیٹی ارکین میں ایک نام اسپیکر اور ایک، ایک نام وزیرِاعظم اور اپوزیشن لیڈر دیں گے۔ سینیٹ سے ایک کمیٹی رکن اپوزیشن اور ایک حکومت سے ہوگا، چیئرمین یا چیئرپرسن کا انتخاب کمیٹی خود کرے گی۔

پارلیمنٹ کی توہین پر کسی بھی حکومتی یا ریاستی عہدے دار کو طلب کیا جا سکے گا۔اس قانون کے تحت جرم ثابت ہونے پر چھ ماہ قید اور 10 لاکھ روپے جرمانے کی سزائیں بل میں تجویز کی گئی ہیں۔

پاس ہونے والے بل کے مطابق انسداد تحقیر کمیٹی کے پاس سول کورٹ کا اختیار ہوگا، خصوصی کمیٹی عدم پیشی پر کسی بھی شخص کے سمن اور وارنٹ گرفتاری جاری کر سکے گی۔ وارنٹ گرفتاری جاری کرنے کے لیے اسپیکر قومی اسمبلی اور چیئرمین سینٹ کی منظوری ضروری ہو گی۔

اس بل میں سزا کے خلاف اپیل کا حق بھی دیا گیا ہے اور ایوان کی مشترکہ کمیٹی سے اپیل کی جاسکے گی۔ توہینِ پارلیمنٹ کی سزا کے خلاف 30 روز کے اندر اپیل کا حق ہوگا۔ سزا کو کسی عدالت میں چیلنج نہیں کیا جا سکے گا۔ اپیل صرف متعلقہ کمیٹی کے سامنے ہی ہو سکے گی۔


انسداد تحقیر کمیٹی کے پاس سول کورٹ کا اختیار ہوگا۔ کمیٹی عدم پیشی پر کسی بھی شخص کے سمن اور وارنٹ گرفتاری جاری کر سکے گی۔ وارنٹ گرفتاری جاری کرنے کے لیے اسپیکر قومی اسمبلی اور چیئرمین سینٹ کی منظوری ضروری ہو گی۔

'پارلیمان کو اپنی بالادستی منوانے کے لیے یہ بل لانا پڑا'

پاکستان ڈویلپمنٹ فورم کے ڈائریکٹر اورکراچی یونیورسٹی کے استاد ڈاکٹر عمیرانصاری کہتے ہیں کہ آئینِ پاکستان میں ہر ادارے کی حدود متعین ہیں جس میں واضح طور پر درج ہے کہ پارلیمان سپریم ہے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ حالیہ عرصے میں پارلیمان کی بالادستی پر سوالات اُٹھتے رہے ہیں۔ کبھی اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے دباؤ کا تاثر رہا جب کہ اب عدلیہ کی جانب سے بھی پارلیمان کے معاملات میں مداخلت کے شکوے سامنے آ رہے ہیں۔

اُن کے بقول ایسی صورتِ حال میں پارلیمنٹ نے یہ ضروری سمجھا کہ وہ اپنے اختیارات منوانے کے لیے یہ بل لائے۔

ڈاکٹر عمیرانصاری کا کہنا تھا کہ پارلیمان بالادست ادارہ ہے اور اس میں عوام کی جانب سے منتخب نمائندے ہیں۔ لیکن یہ تاثر عام رہا ہے کہ پارلیمنٹ ربر اسٹیمپ ہے اور فیصلے کہیں اور ہوتے ہیں۔

اُن کے بقول آئین کہتا ہے کہ پارلیمان سپریم ہے اور عوام کی آواز ہے، اداروں کو سوچنا چاہیے کہ پارلیمان کو یہ قانون کیوں بنانا پڑا۔ پارلیمنٹ کے پاس اس کے علاوہ اختیار ہی باقی نہیں رہا تھا کہ وہ اپنے تحفظ کے لیے خود اقدامات کرے۔

Your browser doesn’t support HTML5

‘پارلیمان کی قانون سازی کا حق تسلیم نہیں کرنا تو الیکشن کا مذاق بھی ختم کریں’


'نامکمل اور ادھوری پارلیمان ایسی قانون سازی نہیں کرسکتی'

غیرسرکاری تنظیم' پتن' کے سربراہ سرور باری کہتے ہیں کہ پارلیمنٹ عوام کا منتخب کردہ ایوان ہے اور اس پر تنقید کا بھی لوگوں کو حق حاصل ہے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ جو بات درست ہے اسے درست اور جو غلط ہے اسے غلط کہنا چاہیے۔ یہ قانون سازی ایسی پارلیمنٹ سے کی جارہی ہے جو نامکمل ہے جس میں برائے نام اپوزیشن ہے۔

سرور باری کے بقول جمہوری رویوں کے مطابق تمام اداروں میں طاقت کا توازن قائم کیا گیا ہے۔ حال ہی میں اسرائیل میں بھی عدلیہ کو پارلیمان کے ماتحت کرنے کی کوشش کی گئی جس پر ردِعمل سامنے آیا تھا۔

اُن کے بقول "اگر آپ پارلیمان کو طاقت دینا چاہتے ہیں تو پھر باقی اداروں کو بند کردیں۔ ریاست کے تمام ستونوں کو اپنی حدود میں رہتے ہوئے اپنی طاقت برقرار رکھنا ہوگی۔ پارلیمان عدلیہ کے معاملات میں مداخلت نہیں کرسکتی اور نہ ہی ایسی کوئی قانون سازی کرسکتی ہے جس سے عدلیہ کے اختیارات پر قدغن لگے۔"

پاکستان میں حالیہ عرصہ میں پارلیمنٹ کی طرف سے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کے اختیارات اور بالخصوص ازخود نوٹس کے حوالے سے رولز میں تبدیلی کے لیے پریکٹس اینڈ پروسیجر بل لائے جانے اور اس پر عدالتی حکم امتناع کے بعد یہ بحث جاری ہے کہ عدلیہ اور پارلیمان ایک دوسرے کی حدود میں کیسے مداخلت کرسکتے ہیں۔

عدلیہ پاکستانی پارلیمان کی طرف سے اس بل کو اپنی حدود میں مداخلت سمجھتی ہے جب کہ پارلیمان اس بل پر عدالتی حکم امتناع کو پارلیمنٹ کو زیراثر لانے کا اقدام سمجھتی ہے۔

اس بل کے وقت پارلیمنٹ میں یہ تجویز بھی سامنے آئی تھی کہ ججز کو پارلیمنٹ کی استحقاق کمیٹی کے سامنے بلایا جائے لیکن اس تجویز پر عمل درآمد نہ ہوسکا ۔

ماضی میں کئی ارکان پارلیمنٹ، وزرا اور وزرائے اعظم عدالتوں کے سامنے پیش ہوکر اپنے عہدوں سے محروم ہوتے رہے ہیں ۔ حالیہ دنوں میں حکومت کی طرف سے عدلیہ کے خلاف سخت موقف کو دونوں اداروں کے درمیان ٹکراؤ قرار دیا جارہا ہے۔