بھارتی کشمیر کی بعض سیاسی جماعتوں نے حکومت کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا ہے کہ حکومتی دعووں کے باوجود کشمیر میں بیرونی سرمایہ کاری میں نمایاں کمی آئی ہے۔ بھارتی حکومت نے دعویٰ کیا تھا کہ کشمیر کی نیم خود مختار حیثیت ختم ہونے کے بعد یہاں سرمایہ کاری کے لیے سازگار ماحول فراہم کر دیا گیا ہے۔
بھارتی حکومت کا دعویٰ رہا ہے کہ نہ صرف بھارت بلکہ خلیجی ملکوں سے بھی بڑے سرمایہ کار یہاں سیاحت، انفارمیشن ٹیکنالوجی، الیکٹرک صنعت اور دوسرے شعبوں میں سرمایہ کاری کرنا چاہتے ہیں۔
جموں و کشمیر کے انتظامی سربراہ لیفٹننٹ گورنر منہوج سنہا نے اپنے حالیہ بیان میں کہا کہ اگست 2019 کے بعد علاقے کے صنعتی شعبے نے نشونما پائی ہے اور بڑے پیمانے پر صنعتی سرمایہ کاری نے اس کے شان دار مستقبل کی راہ ہموار کر دی ہے۔
اُنہوں نے مزید کہا کہ گزشتہ تین برس کے دوران جموں کشمیر نے نمایاں ترقی کی ہے اور یہ اب وفاق کے زیرِ انتظام اُن علاقوں میں شمار ہوتا ہے جو تیزی سے آگے بڑھ رہے ہیں جس سے لوگوں میں ایک نئی اُمید پیدا ہوئی ہے۔
ان میں سے ایک علاقے کی حکومت کا جو یونین ٹریٹری آف جموں اینڈ کشمیر کہلاتا ہےکہنا ہے کہ اس کی طرف سے گزشتہ برس ایک نئی صنعتی پالیسی متعارف کرانے کے بعد اسے 64 ہزار کروڑ روپے کی بیرونی سرمایہ کاری کی پیش کش ہوئی ہے۔
دارالحکومت سرینگر میں ایک سرکاری ترجمان نے بتایا کہ نئی صنعتی ترقیاتی اسکیم جو 2037 تک نافذ العمل رہے گی, بیرونی سرمایہ کاری کے لیے خوش آئند ثابت ہوئی ہے۔
ترجمان نے کہا کہ " نئی صنعتی پالیسی کے اعلان کے بعد حکومت کو 60 ہزار کروڑ روپے سے زائد بیرونی سرمایہ کاری کی تجاویز موصول ہوئی ہیں جو جموں و کشمیر میں سرمایہ کاری کے لیے ایک دلکش دوستانہ ماحول کی واضح عکاسی کرتا ہے۔
لیکن بھارتی پارلیمان میں حکومت کی طرف سے پیش کیے گئے اعداد و شمار کے مطابق جموں و کشمیر میں بیرونی سرمایہ کاری میں حالیہ برسوں میں کمی آ گئی ہے۔ بھارتی کشمیر میں 2021-2020 کے دوران 376 کروڑ روپے کی سرمایہ کاری کی گئی جو پانچ برسوں کے دوران ایک مالی سال کی کم سرمایہ کاری ہے۔
اعداد و شمار کے مطابق 2018-2017 کے دوران بھارتی کشمیر میں 840 کروڑ روپے سے زائد کی سرمایہ کاری کی گئی تھی۔
داخلی امور کے وزیرِ امملکت نتیانند رائے نے پارلیمنٹ کے ایوانِ زیرین لوک سبھا میں ایک تحریری سوال کے جواب میں کہا کہ جموں و کشمیر کی حکومت نے یہ اطلاع دی ہے کہ 64 ہزار کروڑ روپے کی بیرونی سرمایہ کاری کی تجاویز موصول ہوئی ہیں۔ لیکن گزشتہ پانچ برس کے دوران کشمیر میں صرف 2517 کروڑ سے زائد کی سرمایہ کاری ہو سکی۔
حزبِ اختلاف کا حکومت پر غلط بیانی کا الزام
حزبِ اختلاف کی جماعتوں نے حکومت کو آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے اس پر جھوٹ بولنےاور لوگوں کو گمراہ کرنے کا الزام عائد کیا ہے۔
سابق وزیرِ اعلیٰ اور پیپلز ڈیمو کریٹک پارٹی کی صدر محبوبہ مفتی نے ایک ٹوئٹ کرکے کہا "حکومت کے بلندو بانگ دعووں کے باوجود اعداد و شمار کچھ اور ہی کہانی سنا رہے ہیں۔"
بھارت کے قومی دھارے میں شامل جموں و کشمیر کی سب سے پرانی سیاسی جماعت نیشنل کانفرنس نے بھی پارلیمنٹ میں ظاہر کیے گئے ان اعداد و شمار کو لے کر حکومت پر تنقید کی ہے۔
پارٹی کے ترجمانِ اعلیٰ تنویر صادق نے کہا کہ آرٹیکل 370 کے خاتمے نے بھاری سرمایہ کاری کے حکومتی دعووں کا پول کھول دیا ہے۔
اُنہوں نے مزید کہا کہ ہم سے کہا جا رہا تھا کہ دفعہ 370 محض ایک رکاوٹ تھی جو علاقے کی ترقی کی راہ میں حائل تھی۔ لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے۔
تنویر صادق نے الزام لگایا کہ جموں و کشمیر میں حالیہ برسوں میں بے روزگاری میں بھی نمایاں اضافہ ہوا ہے، لوگوں کے مصائب بڑھ گئے ہیں اور باغبانی اور دوسرے متعلقہ شعبے سب سے زیادہ بری طرح متاثر ہوئے ہیں۔
Your browser doesn’t support HTML5
بے روزگاری میں کمی آگئی ہے یا اضافہ ہوا ہے؟
بھارت کی وزارت ِ محنت کا کہنا ہے کہ جموں و کشمیر میں بے روزگاری کی شر ح میں گزشتہ دو برس کے دوراں کمی آگئی ہے۔
وزیرمحنت و روزگار رامیشور تیلی نے پیر کو نئی دہلی میں پارلیمان کو بتایا کہ کشمیر میں بے روزگاری کی شرح 2020-2019 میں 6.7 فی صد تھی جب کہ 2021-2020 میں یہ 5.9 فی صد ہو گئی۔
نیشنل کانفرنس کے ممبر پارلیمنٹ جسٹس(ر) حسین مسعودی کہتے ہیں کہ حکومت لوگوں کو مسلسل گمراہ کررہی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ اکتوبر میں سنٹر فار مانیٹرنگ انڈین اکانومی کی طرف سے جاری کیے گئے ڈیٹا کے مطابق جموں و کشمیر میں بے روزگاری کی شرح 22 فی صد ہے جو بھارت کی قومی اوسط 7.11 فی صد کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہے۔
'حکومت بے روزگاری کے مسئلے سے غافل نہیں'
اس تنقید کے جواب میں حکومت کا کہنا ہے کہ وہ جموں و کشمیر میں بے روزگاری کے مسئلے سے غافل نہیں اور سمجھتی ہے کہ علاقے میں سرمایہ کاری سے اس مسئلے کو حل کرنے میں بڑی مدد ملے گی۔
بھارتی حکومت یہ بھی کہتی ہے کہ اس نے 19 فروری 2021 کو جموں و کشمیر کی صنعتی ترقی کے لیے نئی سنٹرل سیکٹر اسکیم متعارف کرائی تھی جس کی ریاست کی طرف سے جاری کردہ جموں و کشمیر انڈسٹریل پالیسی نے بھی توثیق کی تھی۔
بھارتی حکومت کے بقول نئی پالیسی کے تحت اقتصادی پیکجز، سرینگر اور جموں کے ہوائی اڈوں سے رات کو فلائٹس آپریٹ کرنا شامل ہے۔