پاکستان میں دو ماہ سے بھی کم عرصے کے دوران تیل کی قیمت میں 60 فی صد سے بھی زائد اضافہ ہوچکا ہے جس کی وجہ سے پیٹرولیم مصنوعات کی فروخت میں کمی آرہی ہے اور معاشی سرگرمیاں بھی سست روی کا شکار دکھائی دیتی ہیں۔
پیڑولیم قیمتوں میں ہونے والے اضافے کے بعد ہفتہ وار تعطیلات کے علاوہ عام دنوں میں بھی بڑے شہروں میں ٹریفک میں کمی دیکھی جارہی ہے۔ جب کہ عید الاضحٰی کی آمد آمد ہے لیکن اس موقعے پر مویشی منڈیوں اور بازاروں میں روایتی چہل پہل متاثر ہوئی ہے۔
ٹرانسپورٹ کے کرایوں میں ہوش رُبا اضافے کی وجہ سے بڑے شہروں سے آبائی علاقوں کی جانب چھٹیاں گزارنے کے لیے جانے والوں کی تعداد میں بھی کمی آئی ہے۔
اعداد و شمار کے مطابق بڑھتی ہوئی قیمتوں کے باعث تیل کی طلب کم ہوئی ہے۔رواں برس اپریل میں 5 فی صد اور جون میں تیل کی فروخت میں تقریبا 11 فی صد کمی ریکارڈ کی گئی ہے۔
پیٹرولیم مصنوعات میں جون کے دوران سب سے زیادہ کمی ہائی اسپیڈ ڈیزل اور پیٹرول کی فروخت میں ہوئی جن میں بالترتیب 16 اور 12 فی صد کمی آئی ہے۔ فرنس آئل کی فروخت بھی گزشتہ ماہ کے مقابلے میں دو فی صد کم ہوئی ہے۔
اس سال اپریل میں تیل کی فروخت سب سے زیادہ بڑھی تھی جب کہ مجموعی طور پر مالی سال 22-2021 کے دوران ملک میں تیل کی کھپت میں 16 فی صد اضافہ ہوا ہے جو گزشتہ 10 برسوں میں سب سے زیادہ ہے۔سب سے زیادہ اضافہ فرنس آئل کی طلب میں ہوا جو 4 ملین ٹن تک جا پہنچی تھی۔ماہرین کا کہنا ہے کہ ایل این جی کی عدم دستیابی کی وجہ سے ملک میں فرنس آئل سے بجلی کی پیداوار بڑھانے کے سبب یہ اضافہ ہوا ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
تیل کی طلب اور تجارتی خسارہ
ایک جانب پیٹرول کی قیمتوں میں اس تیز رفتار اضافے کی وجہ سے جہاں معاشی پہیہ سست ہوگیا ہے وہیں تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ تیل کی طلب میں کمی سے ملک کا تجارتی خسارہ کم کرنے کی صورت میں اس کا مثبت اثر بھی ہوگا۔
جون میں ختم ہونے والے مالی سال میں پاکستان کا تجارتی خسارہ 48 ارب ڈالر کی تاریخی سطح پر جاپہنچا ہے۔ پاکستان نے مالی سال 22-2021 کے دوران عبوری ڈیٹا کے مطابق 31.85 ارب ڈالرز کی اشیا برآمد کیں جبکہ اس کے مقابلے میں 80.51 ارب ڈالر کی اشیا درآمد کیں۔پہلے 11 ماہ کے اعداد و شمار کے مطابق درآمدات میں پیٹرولیم اور مصنوعات ایل این جی کا حصہ 27 فی صد یعنی تقریبًا 20 ارب ڈالر رہا۔
گزشتہ مالی سال کے دوران یہ تجارتی خسارہ 31 ارب ڈالر کا تھا جب پاکستان نے 25 ارب ڈالر کی برآمدات کیں جب کہ درآمدات کی مالیت 56 ارب ڈالر تھی۔ اس طرح جولائی میں ختم ہونے والے مالی سال میں پاکستان کو 57 فی صد سے زائد تجارتی خسارہ ہوا تھا۔
تجارتی خسارہ زیادہ ہونے کے باعث پاکستان کے جاری کھاتوں کا خسارہ بھی 11ماہ میں بڑھ کر 15.2 ارب ڈالر تک پہنچ چکا ہے۔ پاکستان نے گزشتہ مالی سال کے 11 ماہ کے دوران 16.3 ارب ڈالر کا نیا قرضہ حاصل کیا ہے۔ جو اس سے پہلے والے مالی سال سے 7 فی صد زیادہ بتایا ہے۔
پیٹرول کی قیمت مزید کتنی بڑھ سکتی ہے؟
معاشی ماہر اور ٹاپ لائن سیکیورٹیز میں ریسرچ اینالسٹ محمد سعد ذکر کا کہنا ہے کہ حکومت جاری کھاتوں کے خسارے کم کرنا چاہتی ہے اور آئی ایم ایف نے بھی اس کا مطالبہ کیا ہے۔ اس کے ساتھ عالمی منڈی میں تیل کی قیمتیں بڑھنے کی وجہ سے ملک میں بھی قیمتیں بڑھانا پڑیں گی۔ ایل این جی دست یاب نہ ہونے کی وجہ سے مہنگے فرنس آئل سے بجلی زیادہ پیدا کی جارہی ہےجس کی وجہ سے بجلی کی قیمتوں میں بھی ہوش ربا اضافہ ہورہا ہے۔
سعد ذکر کا مزید کہنا ہے کہ ملک میں تیل کی قیمتوں میں مزید اضافے کا امکان بھی موجود ہے کیوں کہ محاصل کا ہدف پورا کرنے کے لیے حکومت نے ابھی صرف دس روپے کی پیٹرولیم لیوی عائد کی ہے۔ سال کے آخر میں 855 ارب روپے کے ہدف کے حصول کے لیے پیٹرولیم لیوی50 روپے تک بڑھانا ہوگی۔
ان کا کہنا تھےکہ اگرچہ روس اور یوکرین کے درمیان جاری جنگ کی وجہ سے یہ مشکل نظر آتا ہے لیکن فرض کرلیا جائے کہ عالمی منڈی میں تیل کی قیمتیں مزید نہیں بڑھتیں اور ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قیمت مستحکم ہوجاتی ہے تو بھی تیل کی قیمت کم از کم 288 روپےفی لیٹر تک جاسکتی ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
انہوں نے کہا کہ عالمی سطح پر تیل کی قیمتوں میں کوئی واضح کمی اور ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدرمیں بڑا اضافہ ہونے کی صورت ہی میں ملک کے اندر پیڑولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کا امکان پیدا ہوسکتا ہے۔
سعد ذکر کا کہنا ہے کہ گاڑیوں کی فروخت میں آنے والی کمی، زرعی شعبے میں کم نمو اور پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں تیزی سے اضافے کی بنا پر نئے مالی سال میں تیل کی فروخت میں 15 فی صد تک کم ہوسکتی ہے۔