بھارتی حکومت کی طرف سے اپنے زیرِ انتظام کشمیر کی ریاست کو دوحصوں میں تقسیم کرکے انہیں براہِ راست وفاق کے کنٹرول والے علاقے بنانے کے تقریبا" چار سال بعد جموں کو ایک الگ ریاست کا درجہ دینے کا مطالبہ ایک بار پھر زور پکڑنے لگا ہے۔
بھارت نے 2019 میں کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت ختم کر کے جموں و کشمیر کو یونین ٹریٹری بنا دیا تھا۔ جموں کی آبادی تقریباً 70 لاکھ ہے جو وفاق کے زیرِانتظام جموں و کشمیر یونین ٹیرٹری کی کُل آبادی کا لگ بھگ 50 فی صد ہے۔
جموں صوبے کے 10 میں سے پانچ ضلعوں؛ راجوری، پونچھ، ڈوڈہ، بھدرواہ، کشتواڑ اور رام بن میں مسلمانوں کی اکثریت ہے جب کہ دیگر گنجان آبادی والے ضلعوں؛جموں، سامبہ، کٹھوعہ، ادھم پور اور ریاسی میں زیادہ تر ہندو مذہب کے پیروکار آباد ہیں۔ علاقے کا سب سے بڑا نسلی گروپ ڈوگرہ ہیں جو اس کی کُل آبادی کا 47 فی صد ہیں اور جموں کو ایک الگ ریاست بنانے کا مطالبہ کرنے والوں میں پیش پیش ہیں۔ ہندوستان کی برطانیہ سے آزادی کے وقت کشمیر کے آخری حکمران خاندان کا تعلق بھی ڈوگرہ برادری سے تھا۔
جموں کے ڈوگروں کی ایک سیاسی جماعت ڈوگرہ سوابھیمان سنگٹھن پارٹی (ڈی ایس ایس پی) نے حالیہ ہفتوں میں اس خطے کے مختلف علاقوں میں کئی عوامی اجتماعات کیے اور ریلیلاں نکالیں جن میں جموں کو ایک الگ ریاست بنانے کے مطالبے پر زور دیا گیا۔
ڈی ایس ایس پی کے سربراہ اور سابق وزیر چوہدری لال سنگھ نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ نئی دہلی میں نریندر مودی حکومت جموں و کشمیر کا ریاستی درجہ جسے 5 اگست 2019کو ختم کیا گیا تھا، بحال کرنے کا وعدہ کر چکی ہےلیکن میں سمجھتا ہوں کہ جموں کو ایک الگ ریاست بنانا ملک اور جموں کے لوگوں کے مفاد میں ہوگا۔
انہوں نے کہا "اگر وفاق جموں کو ایک الگ ریاست بنانے پر آمادہ ہوجاتا ہے تو یہ ملک دشمن عناصر اور ملک کے اندر اور اس کے باہر موجود ہمارے بہت سے مخالفین کو، جو بھارت کو نقصان پہنچانے کی ہمہ وقت کوششیں کرتے ہیں ایک مناسب جواب ہو گا"۔
اپنے اس دعوے کی وضاحت کرتے ہوئے لال سنگھ نے کہا کہ جموں کو ایک الگ ریاست بنانے کی بدولت اس کے سبھی دس ضلعوں میں امن و امان قائم ہوگا اور ان لوگوں کا قلع قمع ہو جائے گا جو امن کو درہم برہم کرنا چاہتے ہیں ۔
SEE ALSO: مودی کا بھارت میں یونیفارم سول کوڈ پر اصرار؛ مسلم تنظیمیں معترض کیوں ہیں؟انہوں نے کہا کہ جموں کے علیحدہ ریاست بننے سے یہاں تعمیر و ترقی کے نئے باب کھلیں گے اور جمہوری عمل بحال ہوگا جو اس وقت ایک خواب لگ رہا ہے اور مستقبل قریب میں پورا ہوتا نظر نہیں آ رہا ہے اور اس میں جموں کے لوگوں کا کوئی قصور نہیں ہے۔
چوہدری لال سنگھ کا واضح اشارہ نئی دہلی کی جانب سے جموں و کشمیر میں اسمبلی انتخابات کرانے میں تاخیر کی جانب تھا۔ ناقدین اور حزبِ اختلاف کی جماعتوں کا کہنا ہے کہ بھارتیہ جنتا پارٹی(بی جے پی) بھارتی حکومت جموں و کشمیر میں عام انتخابات کرانے سے اس لیے کترا رہی ہے کیوں کہ اسے ان انتخابات میں اپنی کامیابی کا بالکل یقین نہیں ہے۔
جموں و کشمیر میں آخری اسمبلی انتخابات 2014 میں کرائے گئے تھے۔ 19 جون 2018 کو ریاست میں اُس وقت گورنر یا صدارتی راج نافذ کیا گیا تھا جب بی جے پی نے پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی (پی ڈی پی) کی صدر محبوبہ مفتی کی قیادت میں شامل مخلوط حکومت سے علیحدگی اختیار کر لی تھی جس کے بعد اسمبلی میں اکثریت کھو دینے کے بعد وزیراعلیٰ کو اپنے عہدے سے مستعفی ہونا پڑا تھا۔
اُس وقت کے ریاستی گورنر ستیہ پال ملک نے پی ڈی پی، نیشنل کانفرنس اور کانگریس کی طرف سے مل کر نئی حکومت تشکیل دینے کی کوشش کو ناکام بنانے کے لیے 2014 کے انتخابات کے نتیجے میں وجود میں آئی اسمبلی کو برطرف کر دیا تھا۔
نئی دہلی نے 5 اگست 2019 کو جموں وکشمیر کی آئینی نیم خود مختاری ختم کر دیا تھا اور اس کے ساتھ ہی ریاست کو دو حصوں میں تقسیم کرکے انہیں براہ راست وفاق کے کنٹرول والے علاقے بنا دیا تھا۔ یہ علاقے اب یونین ٹریٹری آف جموں اینڈ کشمیر اور یونین ٹریٹری آف لداخ کہلاتے ہیں۔
Your browser doesn’t support HTML5
اور کون تقسیم چاہتا ہے؟
ماضی میں جموں کو ایک الگ ریاست بنانے کا مطالبہ کرنے میں جموں اسٹیٹ مورچہ (جے ایس ایم) بھی خاصا سرگرم نظر آ رہا تھا ۔ تاہم 2014 کے اسمبلی انتخابات سے ذرا پہلے اس علاقائی تنظیم کو بی جے پی میں ضم کرنے کا اعلان ہوا تھا ۔ ایک بار پھر ماضی میں اس تنظیم سے وابستہ رہنے والے چند سرگرم سیاسی کارکن جموں کی علیحدگی کو بنیاد بنا کر اسے ایک الگ سیاسی فورس کے طور پر بحال کرنے کی کوششیں کررہے ہیں۔
چوہدری لال سنگھ نے اپنے ایک حالیہ بیان میں مورچے کا نام نہ لیتے ہوتے اس سے وابستہ رہنے والے افرادکو شدید نکتہ چینی کا ہدف بناتے ہوئے کہا تھا: "جو لوگ ماضی میں جموں کو ایک الگ ریاست بنانے کا مطالبہ کر رہے تھے وہ بعد میں خاموش ہو گئے اور جموں کے عوام کے ساتھ کیے گیے اپنے وعدے بھول گئے ہیں۔"
'اک جُٹ جموں 'نامی ایک اور علاقائی گروپ جموں کے اُن اضلاع پر مشتمل ایک الگ ریاست تشکیل دینے کا مطالبہ کر رہا ہے جہاں ڈوگرے اکثریت میں آباد ہیں۔ یہ گروپ مسلم اکثریتی واد ی کشمیر کو وفاقی کنٹرول کے دو الگ الگ حصوں میں تقسیم کرنے کا بھی مطالبہ کر رہا ہے اور اس کے اس مطالبے کے مطابق ان میں سے ایک 'پنُن کشمیر ' یا اپنا کشمیر کہلائے گا اور اس میں صرف کشمیری برہمن یا عرفِ عام میں کشمیری پنڈت کہلانے والے رہ سکیں گے جب کہ دوسرا حصہ آبادی کے باقی ماندہ طبقوں کے لیے مخصوص رہے گا۔
SEE ALSO: بھارتی کشمیر میں صدارتی راج کے پانچ برس؛ اسمبلی انتخابات کب ہوں گے؟'اک جُٹ جموں' کے لیڈر انکور شرما کو یقین ہے کہ وادی کشمیر کی ان خطوط پر تقسیم اور جموں کو ایک الگ ریاست بنانے سے ان کے بقول مسلمانوں کی طرف سے کیے جانے والے علیحدگی کے مطالبے کاموثر طور پر توڑ کیا جا سکتا ہے اور 'جہادی جنگ' کو ختم کیا جاسکتا ہے۔
ان کا یہ بھی کہنا تھا: "اس طرح سے نام نہاد تنازع کشمیر کو بھی حل کیا جاسکے گا اور جموں وکشمیر کے بھارت میں مکمل اور حقیقی انضمام کو یقینی بنایا جاسکتا ہے۔"
علیحدگی کی مخالفت
لیکن غیر منقسم جموں و کشمیر کی سب سے پرانی سیاسی تنظیم نیشنل کانفرنس کے صوبائی صدر رتن لال گپتا کہتے ہیں کہ اس ریاست کو دنیا مختلف مذاہب اور ثقافتوں کے ایک گہوارے کے طور پر جانتی ہے۔ اسے برقرار رہنا چاہیے بلکہ مزید مضبوط ہونا چاہیے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ایک ایسی ریاست کو جومختلف مذاہب، عقائد، نسلی گروہوں، رنگا رنگ ثقافتوں اور تہذیبوں کی تاریخ سے مالا مال ہے، اس کے اس طرح حصے بخرے کرنا ایک تاریخی المیہ ہوگا۔ ان کے بقول: ’’بی جے پی حکومت ریاست کو دو لخت کرکے پہلے ہی اس کی روح مجروح کر چکی ہے۔"
رتن لال گپتا کاکہنا ہے کہ جموں و کشمیر سیکیولر ازم کا گہوارہ رہ چکا ہے لیکن آج چند عناصر علاقائیت اور مذہب کے نام پر لوگوں میں دوریاں پیدا کر رہے ہیں جس کے پیچھے صرف سیاسی عزائم اور مقاصد ہیں۔
تجزیہ کا ڈاکٹر ارون کمار کہتے ہیں کہ جموں کو الگ ریاست بنانے کا مطالبہ دراصل وہ سیاسی لیڈر اور کارکن کر رہے ہیں جو سمجھتے ہیں کہ جموں و کشمیر ریاست کے سیاسی منظر نامے پر کئی دہائیوں سے برقرار کشمیری مسلمانوں کا غلبہ ان کے سیاسی عزائم کی تکمیل میں ایک رکاوٹ بنا ہوا ہے۔
یہ بھی پڑھیے کیا بھارتی حکومت حریت کانفرنس پر پابندی لگانے پر غور کر رہی ہے؟انہوں نے کہا کہ جموں کی علیحدگی کا مطالبہ کرنے والے اس بات سے ذرا بھی خوش نہیں ہیں کہ چند سالوں کو چھوڑ کر جب ریاست پر براہِ راست نئی دہلی کی حکمرانی رہی ہے تو یہاں کی حکومتوں کو چلانے میں کشمیری مسلمانوں کا بڑا اور بنیادی رول رہا ہے ۔ سبھی وزرائے اعلیٰ مسلمان تھے اور غلام نبی آزاد کو چھوڑ کر سب کا تعلق وادیٔ کشمیر سے تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ ظاہر ہے یہ لوگ جموں پر بلا شرکتِ غیرے حکومت کرنا چاہتے ہیں لیکن وہ اس کے ممکنہ سیاسی مضمرات کو نظر انداز کر رہے ہیں۔ ریاست کی تقسیم در تقسیم اور وہ بھی مذہب یا علاقائیت کے نام پر ’دی آئیڈیا آف انڈیا‘ کی نفی کرتی ہے۔
ضلع راجوری سے تعلق رکھنے والے سیاسی کارکن تصدق حسین کا کہنا ہے کہ جموں کو ایک الگ ریاست بنانے کا مطالبہ زیادہ تر ان علاقوں سے تعلق رکھنے والے گروپس کی جانب سے کیا جاتا ہے جہاں ڈوگری زبان بولنے والوں کی اکثریت ہے۔لیکن ان کے بقول یہ مسلم اکثریتی راجوری۔پونچھ سب ریجن یا پیر پنجال خطے اور چناب وادی میں رہنے والے عوام کے لیے ہرگز قابلِ قول نہیں ہو گا۔
ڈی ایس ایس پی کے لیڈر لال سنگھ اپنے مطالبے پر ہونے والی تنقید کے جواب میں کہتے ہیں کہ جموں کو ایک الگ ریاست بنانے کا مطالبہ ایک جائز مطالبہ ہے بلکہ اس سے اس خطے کے عوام کے جذبات وابستہ ہیں ۔
انہوں نے کہا کہ ہم یہ مطالبہ اپنی ثقافت، زبانوں اور جموں خطے کی جغرافیائی سرحدوں کی بنیاد پر کررہے ہیں جس میں دیگر لسانی اور مذہبی اکائیاں بھی شال ہیں اور یہ مضبوط سیکیولر بنیاد پر قائم ہے۔