مشرقِ وسطیٰ میں عام خیال یہی ہے کہ صدر اوباما نے اپنی قاہرہ کی تقریر میں بڑی اچھی باتیں کہی تھیں۔ لیکن واشنگٹن میں قائم غیر جانبدار پراجیکٹ ، مشرقِ وسطیٰ میں جمہوریت کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر اینڈریو البرٹسن کے مطابق،علاقے کے لوگ اب بھی سیاسی اصلاحات کے لیے ٹھوس امریکی امداد کی علامتیں تلاش کر رہے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ ’’مثال کے طور پر اسی بات کو لیجیئے کہ اوباما انتظامیہ نے کہا ہے کہ وہ علاقے میں اصلاحات کے لیے خاموش، پرائیویٹ، اور بند دروازوں کے پیچھے سفارتکاری کا طریقہ استعمال کریں گے۔ میرے خیال میں اس سے لوگوں کو یہ پیغام ملتا ہے کہ ان کے ساتھ کھلے عام بات چیت کرنا اہم نہیں ہے۔ یعنی تبدیلی کے عمل میں ان کی رائے لینا، انہیں شریک کرنا اہم نہیں ہے۔ اس طرح حکومتوں کو اور عام لوگوں کو غلط پیغام ملتا ہے‘‘۔
البرٹسن کہتے ہیں کہ امریکہ نے مصر کے صدر حسنی مبارک پر زور دیا ہے کہ وہ 28 سالہ پرانے ایمرجینسی قوانین معطل کر دیں جن سے ملک کی سیاسی زندگی محدود ہو گئی ہے۔ مبارک نے ایسا کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ البرٹسن کہتے ہیں کہ لوگ پوچھ رہے ہیں کہ اب امریکہ کیا کرے گا؟ ان کا مشورہ ہے کہ انتظامیہ کو مصر میں سول سوسائٹی سے رابطہ کرنا چاہیئے اور سیاسی اصلاحات اور انسانی حقوق کے احترام کی کوششوں میں اپنی حمایت کا اشارہ دینا چاہیئے۔
اوباما انتظامیہ کا کہنا ہے کہ وہ مصر میں ایسا ہی کر رہی ہے۔ لیکن واشنگٹن انسٹی ٹیوٹ فار نیئر ایسٹ پالیسی کی دینا گوئیرگیوس کہتی ہیں کہ اس طریقے سے مطلوبہ نتائج حاصل نہیں ہوئے ہیں۔ ان کا مشورہ ہے کہ اوباما انتظامیہ کو قاہرہ کی تقریر کے ایک سال بعد اپنی پالیسی کا جائزہ لینا چاہیئے اور یہ طے کرنا چاہیئے کہ کون سی چیزیں کار گر ہوئی ہیں اور کون سی نہیں۔ ان کے مطابق’’مصر میں حالات اور زیادہ خراب ہو رہے ہیں، جیسا کہ ایمرجینسی کے قوانین کی تجدید سے ظاہر ہوتا ہے۔ ظاہر ہے کہ امریکی انتظامیہ خاموش سفارتکاری سے، توقع کے مطابق نتائج حاصل نہیں کر سکی ہے۔ اب وقت آ گیا ہے کہ ہم دوسرے طریقے تلاش کریں‘‘۔
اسٹیفین گرینڈ بروکنگز انسٹی ٹیوٹ سے وابستہ ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اوباما جمہوریت سے کس حد تک وابستہ ہیں، اس کا پتہ اس وقت چلے گا جب اس سال مصر میں پارلیمانی انتخابات اور اگلے سال صدارتی انتخاب ہوگا۔ انھوں نے کہا کہ’’امید یہ کرنی چاہیئے کہ امریکہ کی کوشش یہ ہوگی کہ سب کو برابر کے مواقع حاصل ہوں اور انتخابات آزادانہ اور منصفانہ ہوں، اور عام مصریوں کی بات سنی جائے۔ میں سمجھتاہوں کہ امریکہ کے لیے یہ غلطی ہوگی کہ وہ اس چیلنج سے فرار اختیار کر لے اور موجودہ حکومت کو اپنا جانشین خود مقرر کرنے دے‘‘۔
مشرقِ وسطیٰ میں رائے عامہ کے جائزوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ عام تاثر یہ ہے کہ صدر اوباما نے یہ وعدہ تو کیا تھا کہ وہ طرزِ حکومت کے انتخاب میں عام لوگوں کی آواز شامل کرانے میں مدد دیں گے۔ لیکن اگر امریکہ کے سامنے مسئلہ یہ ہو کہ مستحکم لیکن غیر جمہوری لیڈروں اور غیر مستحکم جمہوریت میں سے کس کا انتخاب کیا جائے، تو قرعہ فال ہمیشہ غیر جمہوری لیڈروں کے نام نکلے گا۔
لیکن امریکی محکمۂ خارجہ کی ڈپٹی اسسٹنٹ سیکرٹری برائے مشرقِ قریب،تامارا وٹس کہتی ہیں کہ مشرقِ وسطیٰ میں جمہوریت کی حمایت اور امریکہ کے قومی مفاد کے درمیان کوئی تضاد نہیں ہے ۔ ان کا کہنا ہے کہ’’ہماری سیکورٹی کے مفادات کو جمہوریت اور انسانی حقوق میں پیش رفت سے مدد ملتی ہے اور میں سمجھتی ہوں کہ یہ بات اس علاقے کے ملکوں کے لیے بھی صحیح ہے۔ میں سمجھتی ہوں کہ یہ علاقہ مجموعی طور پر زیادہ مستحکم، زیادہ کامیاب، اور زیادہ محفوظ ہوگا، اگر یہ زیادہ جمہوری ہو۔ ہم اسی اصول کی بنیاد پر کام کرتے ہیں‘‘۔
اس مہینے کے شروع میں شرم الشیخ میں مصر کے صدر حسنی مبارک کے ساتھ ملاقات کے بعد، نائب صدر جو بائڈن نے ایک بیان جاری کیا جس میں مصر سے کہا گیا تھا کہ وہ ایک متحرک اور جاندار معاشرے، اور سیاسی طور پر زیادہ آزاد اور مقابلے کی فضا پر مبنی معاشرے کے لیے کام جاری رکھے۔ انھوں نے کہا کہ اگر مصر بدستور مضبوط ملک اور اس علاقے کے لیے نمونہ بننا چاہتا ہے، تو یہ مقاصد بہت اہم ہیں۔
بعض دوسرے ماہرین تسلیم کرتے ہیں کہ مشرقِ وسطیٰ میں سیاسی اصلاحات لانا، طویل المدت مقصد ہے جس کی کامیابی کا اندازہ لگانا، قاہرہ میں صدر کی تقریر کے ایک سال بعد ممکن نہیں ہے۔ وہ اس خیال سے متفق ہیں کہ علاقے میں جمہوریت کے فروغ کے لیےصدر کی انتظامیہ کی کوششیں ابھی جاری ہیں۔