متحدہ قومی موومنٹ کی نشست سے کراچی کے ڈپٹی میئر منتخب ہونے والے ارشد وہرہ اتوار کو مصطفیٰ کمال کی جماعت پاک سرزمین پارٹی میں شامل ہو گئے۔
اس حوالے سے اتوار کو انہوں نے 'پی ای سی ایچ ایس' میں پاک سرزمین پارٹی کے ہیڈکوارٹر 'پاکستان ہاؤس' میں 'پی ایس پی' کے صدر، انیس احمد قائمخانی کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ دستیاب وسائل کے باوجود عوام کی خدمت نہیں کی جا سکی اور ایک سال تک ہم وسائل اور اختیارات کا رونا روتے رہے۔ مصطفیٰ کمال نے عوام کی خدمت کی مثال قائم کی۔
ان کا کہنا تھا کہ عوام کی خدمت نہ کرنے کے باعث میں نے ایم کیو ایم چھوڑی ہے۔
اس موقع پر، انیس قائم خانی کا کہنا تھا کہ پچھلے دنوں ہی فاروق ستار نے کہا تھا کہ اگر وفاداریاں تبدیل کرائی گئیں تو تمام اراکین قومی و صوبائی اسمبلی و سینیٹ اجتماعی استعفے دے دیں گے۔ بقول اُن کے، ''اب وہ اخلاقی جرات کا مظاہرہ کریں اور استعفے جمع کرادیں۔ پاک سرزمین پارٹی ضمنی انتخابات میں بھرپور طریقے سے حصہ لے گی''۔
انیس قائمخانی نے دعویٰ کیا کہ 'پی ایس پی' میں شامل ہونے والوں کی ''ابھی بہت لمبی لائن لگی ہوئی ہے''۔
ادھر ارشد وہرا کی 'پی ایس پی' میں شمولیت پر، فاروق ستار کا کہنا تھا کہ ہم جبر اور چھینا جھپٹی کی سیاست نہیں کرتے۔ اپنے اطراف موجود کارکنوں کی طرف فرداً فرداً اشارہ کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ میرے ساتھ کھڑے تمام افراد میرے لیے ارشد وہرا ہیں۔
ساتھ ہی انہوں نے ارشد وہزہ کے 'پی ایس پی' میں شمولیت کے خلاف 5 نومبر کو مزار قائد پر احتجاجی جلسہ عام کا اعلان بھی کیا۔
سیاسی حلقے کیا کہتے ہیں؟
ارشد وہرہ کے متحدہ چھوڑنے کے اعلان پر سیاسی حلقوں میں ملاجلا تاثر دیکھنے کو ملا۔ وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے، کچھ سیاسی شخصیات نے نام ظاہر نہ کرنے کی درخواست پر رد عمل میں کہا: '’کافی طویل عرصے بعد 'پی ایس پی' میں متحدہ کے کسی اہم عہدیدار نے پی ایس پی میں شمولیت اختیار کی ہے اور یہ کوئی غیر معمولی بات نہیں ہے''۔
اُنھوں نے مزید کہا کہ ''متحدہ قومی موومنٹ پاکستان اس پر شاید خاموش نہ بیٹھے۔ فاروق ستار 5 نومبر کے احتجاجی جلسے کا اعلان کرچکے ہیں اگر وہ اپنے احتجاج میں کامیاب ہوگئے تو پھر کراچی کی سیاست جو کچھ مہینوں سے خاموشی میں ڈوبی ہوئی تھی۔ اس میں ہلچل پیدا ہوسکتی ہے۔ لیکن، اگر وہ بھرپور احتجاج میں کامیاب نہیں ہوتے تو پھر ایم کیو ایم میں اختلافات کی خبروں کو ایک مرتبہ پھر ہوا ملنے لگے گی‘‘۔
متحدہ میں اختلافات کی خبریں اس وقت آنا شروع ہوئی تھیں جب رواں ماہ کی آغاز میں متحدہ کے سینئر اراکین نے مہاجر قومی موومنٹ اور پی ٹی آئی کے رہنماؤں اور دیگر اراکین سے ملاقات کی تھی۔
پارٹی کے سنیئر رہنماؤں کے حوالے سے کہا جا رہا تھا کہ وہ ’انتخابی اتحاد‘ کی حمایت کرنے پر ناراض ہیں۔ خود پی ٹی آئی میں بھی ان ملاقاتوں کے حوالے سے اختلافات کی خبریں گردش کر رہی تھیں۔