سعودی عرب میں قید پاکستانیوں کی واپسی میں تاخیر، وجہ سیاسی یا انتظامی؟

فائل فوٹو

"میرا بھائی خالد (فرضی نام) جدہ کی جیل میں پچھلے نو سال سے قید ہے۔ سعودی شہزادے نے پاکستانی قیدیوں کو واپس بھیجنے کا اعلان کیا تو اس کی واپسی کی امید پیدا ہوئی لیکن دو سال ہو گئے ابھی تک کچھ نہیں ہوا۔"

پنجاب کے شہر سرگودھا کے رہائشی محمد نوید کے بھائی خالد 2012 میں چھٹی مکمل کر کے واپس جا رہے تھے کہ جدہ ایئر پورٹ پر اُن کے سامان سے منشیات برآمد ہونے پر اُنہیں حراست میں لے لیا گیا۔

وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے محمد نوید نے بتایا کہ خالد کے بچے جو اس وقت بہت چھوٹے تھے اب بڑے ہو چکے ہیں لیکن اُن کے والد کا کوئی اتا پتہ نہیں ہے۔

محمد نوید نے بتایا کہ اپنے اسیر بھائی کی رہائی کے لیے وہ گزشتہ نو سال سے حکومتی اداروں کے دروازے کھٹکھٹا رہے ہیں۔

خالد ایک سعودی کمپنی میں ڈرائیور تھے۔ دو سال بعد وہ چھٹی گزارنے پاکستان آئے اور 2012 میں جب وہ اپنے ایک دوست کے ساتھ واپس سعودی عرب جا رہے تھے تو اُن دونوں کے سامان میں منشیات برآمد ہوئیں جس پر حکام نے دونوں کو حراست میں لے کر قید کر لیا۔

خالد کے بھائی نے بتایا کہ "ہمیں 17 دن تک کچھ معلوم نہیں تھا کہ وہ کہاں ہیں۔ پھر ایک دن اچانک ان کے بھائی کا فون آیا کہ وہ جیل میں ہیں۔"

سرکاری اعدادوشمار کے مطابق نومبر کے اختتام تک دنیا بھر کی مختلف جیلوں میں نو ہزار سے زائد پاکستانی قید تھے جن میں درجنوں خواتین بھی شامل ہیں۔

سمندر پار اسیر پاکستانیوں میں سب سے زیادہ تین ہزار 423 افراد متحدہ عرب امارت میں قید ہیں جب کہ دوسرے نمبر پر سعودی عرب ہے جہاں دو ہزار 260 پاکستانی قید ہیں۔

Your browser doesn’t support HTML5

’’کئی ہزار پاکستانی بیرون ملک جیلوں میں قید"

سعودی ولی عہد محمد بن سلمان نے فروری 2019 میں دورۂ پاکستان کے دوران سعودی جیلوں میں قید دو ہزار 107 قیدیوں کو واپس بھیجنے کا اعلان کیا تھا۔

سرکاری اعداد و شمار کے مطابق سعودی عرب سے تاحال 579 افراد کی واپسی ہوئی ہے۔ تاہم قیدیوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیم 'جسٹس پروجیکٹ' ان حکومتی اعدادوشمار سے اتفاق نہیں کرتی۔

'جسٹس پروجیکٹ' کی ڈائریکٹر سارہ بلال کہتی ہیں کہ ان 579 قیدیوں کی فہرست میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جو 2019 کے اعلان سے پہلے واپس آ چکے تھے۔

وزیرِ اعظم کے معاونِ خصوصی برائے سمندر پار پاکستانی زلفی بخاری کہتے ہیں کہ قیدیوں کی واپسی میں وقت لگے گا۔

اُن کے بقول کرونا وائرس نے بہت سی مشکلات پیدا کی ہیں اور انتظامیہ کے کام میں اضافہ ہوا ہے۔

وائس آف امریکہ کے سوال پر معاون خصوصی کا کہنا تھا کہ ہم وعدے کے مطابق جلد تمام قیدیوں کو واپس لائیں گے۔

قیدیوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والے ادارے 'جسٹس پروجیکٹ پاکستان‘ کی رابعہ شعیب کے مطابق سعودی عرب کے ولی عہد محمد بن سلمان کے قیدیوں کی رہائی سے متعلق اعلان پر مکمل عمل نہیں ہو سکا۔

سعودی ولی عہد نے اعلان کیا تھا کہ وہ سعودی عرب کی جیلوں میں قید پاکستانیوں کی رہائی یقینی بنائیں گے۔

ان کے بقول قیدیوں کی واپسی میں تاخیر کی وجوہات انتظامی نہیں بلکہ سیاسی نوعیت کی ہیں۔

رابعہ شعیب نے بتایا کہ سعودی عرب سے قیدیوں کی واپسی کا عمل شروع ہوا تھا لیکن دونوں ملکوں کے تعلقات میں پیدا شدہ سرد مہری کے باعث یہ عمل رک گیا۔

وزارت سمندر پار پاکستانیوں سے حاصل تفصیلات کے مطابق اگست 2018 سے اب تک بیرون ممالک قید آٹھ ہزار 754 پاکستانیوں کو وطن واپس لایا جا چکا ہے۔

معاونِ خصوصی زلفی بخاری کا کہنا ہے کہ بیرونِ ممالک قید پاکستانیوں کی وطن واپسی کے لیے حکومت سعودی عرب سمیت دیگر ممالک کے ساتھ قیدیوں کے تبادلے کے معاہدے کر رہی ہے جس کے باعث اس عمل میں آسانی پیدا ہو گی۔

سعودی عرب کی جیل میں قید ابوزر کے بھائی کا کہنا ہے کہ "میرے بھائی کو تقریباً نو سال ہو گئے کئی لوگ ایسے ہیں جو 15 یا 20 سال سے جیل میں ہیں جب کہ کئی پاکستانیوں کے سر قلم ہو چکے ہیں۔"

خیال رہے کہ سعودی عرب میں منشیات رکھنے کے جرم میں سر قلم کرنے کی سزا دی جاتی ہے۔

گزشتہ ماہ سری لنکا میں قید 41 پاکستانیوں کو قیدیوں کے تبادلے کے معاہدے کے تحت وطن واپس لایا گیا اور اب یہ قیدی راولپنڈی کی اڈیالہ جیل میں اپنی بقیہ قید گزار رہے ہیں۔