پاکستان کے مختلف صوبوں میں بارشوں کے باعث آنے والے سیلاب نے تباہی مچا رکھی ہے۔ سندھ، بلوچستان، جنوبی پنجاب اور خیبرپختونخوا کے کئی علاقے سیلاب سے متاثر ہوئے ہیں۔ سیلاب کی تباہ کاریوں سے نمٹنے کے لیے حکومتِ پاکستان نے عالمی برادری سے امداد کے لیے ڈونرز کانفرنس منعقد کرنے کا بھی فیصلہ کیا ہے۔
ملک کے مختلف علاقوں میں ہونے والی طوفانی بارشوں کی وجہ سے کئی مقامات پر ندی نالوں میں طغیانی ہے۔ اب تک درجنوں افراد ہلاک ہو چکے ہیں جب کہ ہزاروں مکانات اور کھڑی فصلیں تباہ ہوچکی ہیں۔
سیلاب زدگان کا یہ شکوہ ہے کہ پاکستان میں اتنی بڑی تباہی کے باوجود مقامی میڈیا پر وہ کوریج نہیں دی جا رہی جو ماضی میں اس نوعیت کی تباہی پر دی جاتی تھی۔
سوشل میڈیا پر بھی پاکستان میں سیلاب کی تباہ کاریوں اور اس سے ہونے والی ہلاکتوں پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے حکام سے مؤثر اقدامات کرنے کے مطالبے کیے جا رہے ہیں۔
بعض ناقدین کا کہنا ہے کہ پاکستان میں اس وقت سب سے بڑی خبر سیلاب اور اس سے ہونے والی تباہی ہے، لیکن میڈیا پر سیاسی معاملات کو زیادہ اہمیت دی جا رہی ہے۔ کئی روز سے ڈاکٹر شہباز گل کا معاملہ، عمران خان کے خلاف درج مقدمہ اور توہینِ عدالت کی کارروائی کو زیادہ کوریج دینے کا معاملہ بھی موضوع بحث ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
ڈونرز کانفرنس
وفاقی حکومت نے سیلاب کی وجہ سے ہونے والے نقصانات اورمشکل مالی صورتِ حال کے باعث ڈونرز کانفرنس بلانے کا بھی فیصلہ کیا ہے۔ وزیرِاعظم شہبازشریف نے متعلقہ حکام کو ہدایت کی ہے کہ ڈونرز کانفرنس میں بین الاقوامی اداروں کو وفاقی و صوبائی حکومتوں کی جانب سے جاری ریلیف اور بحالی کی کاوشوں سے بھی آگاہ کیا جائے۔
حکومت کے مطابق 37.2 ارب روپے کے فلڈریلیف کیش پروگرام کے تحت رقوم کی تقسیم کا عمل تیزکر دیا گیا ہے۔سیلاب میں ہلاک ہونےوالے افرادکے لواحقین کوفی کس 10 لاکھ روپے جب کہ ہر متاثرہ گھر کی تعمیر نو کے لیے پانچ لاکھ روپے فراہم کیے جائیں گے۔
حکومت کی طرف سے نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (این ڈی ایم اے) کو سیلا ب زدہ علاقوں میں ریسکیو ریلیف آپریشن کے لیے پانچ ارب روپے کی فراہم کیے گئے ہیں۔
سیلاب کی تباہ کاریوں کا سلسلہ ابھی جاری ہے اور حکومت کا کہنا ہے ابھی نقصانات کا مکمل اندازہ نہیں لگایا جاسکتا تاہم بحالی کے کام کے لیے کثیر رقم درکار ہو گی۔
پاکستانی میڈیا نے اس سانحے کو نظرانداز کیا؟
علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کے پروفیسر اور کالم نگار شاہد اقبال کامران کہتے ہیں کہ پاکستان میں اس وقت بہت بڑا المیہ رُونما ہو چکا ہے۔ لیکن حیرانگی اس بات پر ہے کہ پاکستانی میڈیا اسے نظرانداز کر رہا ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے شاہد اقبال کامران کا کہنا تھا کہ اگر میڈیا پر بروقت کوریج دی جاتی تو متعلقہ ادارے اس پر فوری کارروائی کرنے پر مجبور ہو جاتے۔
شاہد اقبال کامران کا کہنا تھا کہ اب یہ خبر سامنے آئی ہے کہ آرمی چیف اور وزیرِ اعظم کے درمیان رابطہ ہوا ہے اور سیلاب متاثرین کی مدد پر بات چیت کی گئی ہے۔ اُن کے بقول اب جب لاکھوں لوگ سیلاب سے متاثر ہوچکے ہیں، مال مویشی بہہ گئے ہیں اور اب اس معاملے پر ہماری قیادت بات چیت کر رہی ہے۔
شاہد اقبال کامران کہتے ہیں کہ جب پانی اُترے گا توتباہی کا مزید اندازہ ہو گا، نئی بیماریاں جنم لیں گے جبکہ صحت کی کوئی سہولت دُوردراز علاقوں میں میسر نہیں ہو گی۔
تجزیہ کار اور کالم نگار سلمان عابد کہتے ہیں کہ اس وقت سیاسی فریقین کے درمیان ایک جنگ جاری ہے اور پاکستان کی تمام سیاست ایک موضوع تک محدود ہو کر رہی گئی ہے۔ اس وقت یہ صرف سیاسی نہیں ریاستی بحران ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے سلمان عابد کا کہنا تھا کہ پاکستان میں ہمیشہ ادارے اس وقت حرکت میں آتے ہیں جب سانحہ رُونما ہو جاتا ہے۔ بدقسمتی سے قبل از وقت ایکشن نہیں لیا جاتا۔
سلمان عابد کا کہنا تھا کہ اس وقت جو حال ملک کی سیاست کا ہے وہی حال میڈیا کا بھی ہے جو صرف ریٹنگ کی بنیاد پر کوریج کرتا ہے۔ اس وقت کسی کی ترجیحات میں سیلاب زدگان نہیں ہیں، لہذٰا میڈیا اُن معاملات کی زیادہ کوریج کر رہا ہے جن کے باعث اسے ریٹنگ ملتی ہے۔
اُن کے بقول جب 2005 میں زلزلہ آیا تو ریاست فوری ایکشن میں آئی اور ریاستی پالیسی کو دیکھتے ہوئے میڈیا نے بھی اپنا کردار ادا کیا۔ اب اگر ریاست شہباز گل کے پیچھے پڑ جائے گی تو پھر میڈیا کی توجہ بھی اس جانب ہو گی۔
'میڈیا نے واقعی سیلاب کو کم کوریج دی'
سیلاب کو کم کوریج دینے کے معاملے پر ردِعمل دیتے ہوئے نجی نیوز چینل '24 نیوز' کے ڈائریکٹر نیوز میاں طاہر کہتے ہیں کہ یہ تاثر درست ہے کہ میڈیا نے اس قومی سانحے کی کم کوریج کی۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ جب سیلاب آیا تو اسی وقت ملک میں سیاسی درجۂ حرارت بھی بہت زیادہ تھا۔ عمران خان جلسے کر رہے تھے اور میڈیا بھی وہی چیز دکھا رہا تو جو عوام دیکھنا چاہتے ہیں۔
میاں طاہر کہتے ہیں کہ عمران خان بڑے سیاسی لیڈر ہیں، وہ اگر اسلام آباد میں شہباز گل کے لیے ریلی نکالنے کے بجائے سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں جاتے تو اس سے حکومت پر دباؤ بڑھتا کہ وہ زلزلہ زدگان کی فوری مدد کرتی۔
میاں طاہر نے کہا کہ یہ بات درست ہے کہ میڈیا نے اپنی ٹیمیں ان علاقوں میں بہت تاخیر سے بھیجیں لیکن اس تنقید کے بعد اب میڈیا ان علاقوں میں اچھی کوریج کررہا ہے۔
کیا سیاسی رہنماؤں کا سیلاب پر ردِعمل کافی ہے؟
ایک ایسے وقت میں جب ملک بھر میں سیلاب کی وجہ سے درجنوں افراد زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں اور لاکھوں افراد امداد کے منتظر ہیں ایسے میں ان دنوں ملک کا سیاسی درجہؐ حرارت بھی زیادہ رہا۔
پاکستان تحریکِ انصاف کے رہنماؤں کی گرفتاریاں، عمران خان کے خلاف مقدمے اور عدالتی کارروائیاں سب سے زیادہ زیرِ بحث رہیں جس کے بعد اب بعض سیاست دانوں نے اس عمل پر خود ہی تنقید کرتے ہوئے متاثرین کی مدد کو ترجیح دینے کا کہا ہے۔
وزیردفاع خواجہ آصف نے ایک ٹویٹ میں کہا کہ وطن عزیز کا بیشتر حصہ خصوصاً پسماندہ علاقے سیلاب سے تباہ ہو چکے ہیں۔ کروڑوں لوگ بےگھر ہیں، فاقوں بیماریوں کاشکار ہیں۔ قوم کو اس وقت صرف سیلاب کی تباہ کاریوں سے دوچار بہن بھائیوں پر توجہ دینی چاہیے۔
پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری نے ایک بیان میں کہا کہ ملک میں بارشوں کی وجہ سے ہنگامی صورتِ حال ہے اور متاثرین کی نظریں ہم پر ہیں۔ آصف زرداری کا کہنا تھا کہ اس وقت سب کو سیاست چھوڑ کر متاثرین کی مدد کے لیے آگے بڑھنا چاہیے۔
پاکستان تحریک انصاف کے رہنما فواد چوہدری نے ایک بیان میں کہا کہ سیلاب نے بلوچستان اور سندھ میں جو تباہی مچائی اور صوبائی حکومتیں جس بری طرح ریلیف دینے میں ناکام ہوئیں۔ ان کا کہنا تھا کہ آپ کو نئے انتظامی یونٹس بنانے پڑیں گے،اگر ایسا نہیں ہوا تو پاکستان میں گورننس بہتر ہونے کا کوئی امکان نہیں۔
پاکستان پیپلز پارٹی کے سابق ڈپٹی سپیکر قومی اسمبلی فیصل کریم کنڈی نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اس وقت ملک کے چاروں صوبوں میں 2010 سے زیادہ سنگین نوعیت کا سیلاب ہے جس سے تباہی پھیلی ہوئی ہے لیکن اس قدر ردِعمل سامنے نہیں آ رہا۔
انہوں نے کہا کہ اس وقت صوبوں میں مختلف جماعتوں کی حکومتیں ہیں اور بدقسمتی کی بات ہے کہ کوئی بھی حکومت ماضی کی طرح پرفارم نہیں کررہی، اس وقت میڈیا کا فوکس بھی صرف اور صرف سیاست ہے۔ اگر میڈیا عوام کی توجہ ان امور پر نہیں دلوائے گا تو اس المیہ میں عوام بھی دلچسپی نہیں لیں گے۔