رسائی کے لنکس

امریکہ کے اعلان آزادی سے 80 برس قبل غلامی کو چیلنج کرنے والی سیاہ فام خاتون


الزبتھ فری مین کا کانسی کا مجسمہ
الزبتھ فری مین کا کانسی کا مجسمہ

یہ ایک غلام عورت کی کہانی ہے، جس کی امنگوں کو کوئی غلام نہیں بنا سکا تھا۔۔۔ اور جو غلاموں کی آزادی کے اعلان سے 80 سال قبل اپنی آزادی حاصل کرنے کے لیے عدالت گئی تھی ۔ لیکن جسے تاریخ نے فراموش کر دیا۔

لیکن شہری رہنماؤں، سرگرم کارکنوں اور تاریخ دانوں کے ایک گروپ کوامید ہے کہ حال ہی میں میساچوسٹس کے پرسکون قصبے شیفیلڈ میں اس باحوصلہ خاتون کے کانسی کے مجسمے کی نقاب کشائی، ان کوفراموش کئے جانے کا اختتام بھی ہوگی ۔ آزادی کیلئے لڑنے والی وہ پہلی عورت جس نے 241 سال پہلے غلامی کی زنجیروں کو توڑتے وقت ،آذادی کی مناسبت سے اپنے لئے الزبتھ فری مین کا نام چنا تھا۔

یہ انتہائی اہم کہانی تاریخ دانوں کی نظر سے کیوں اوجھل رہی؟

ریاست میساچوسٹس کے رکن کانگرس، سمٹی پِگنیٹیلی ، برکشائرز میں شیفیلڈ سے قریب ہی پلے بڑھے تھے لیکن انہیں 20 سال پہلے تک الزبتھ فری مین کے بارے میں کچھ پتہ نہیں تھا۔ پھر انہیں پتہ چلا کہ ان کے بہت سے رفقا بھی اس مقدمے کے بارے میں بڑی حد تک اندھیرے میں تھے جس نے ایک قانونی نظیر قائم کر کے میساچوسٹس میں غلامی کو بنیادی طور پر ختم کیا تھا۔

"وہ یقینأ امریکی تاریخ کی ایک چھپی ہوئی شخصیت ہیں، اور میں واقعی یقین رکھتا ہوں کہ امریکہ کی تاریخ، سیاہ فام تاریخ ہے،" پیگنٹیلی، مزید کہتے ہیں۔ "لیکن بدقسمتی سے جو ہمیں پڑھائی اور اور سکھائی نہیں گئی وہ سیاہ فاموں کی تاریخ ہے۔"

آزادی کیلئے لڑنے والی وہ پہلی عورت جس نے 241 سال پہلے غلامی کی زنجیروں کو توڑتے وقت ، اپنے لئے الزبتھ فری مین کا نام چنا تھا۔
آزادی کیلئے لڑنے والی وہ پہلی عورت جس نے 241 سال پہلے غلامی کی زنجیروں کو توڑتے وقت ، اپنے لئے الزبتھ فری مین کا نام چنا تھا۔

کرنل جان ایشلی کے گھرانے کی غلام بیٹ ،پڑھنا، لکھنا نہیں جانتی تھی لیکن وہ سنتی خوب تھی۔

1773کا سال تھا جب شیفیلڈ کے ممتاز شہری ، برطانوی حکام کےظلم اور جبر کے خلاف اپنی شکایات پر بات کرنے کے لیے کرنل جان ایشلی کے گھر جمع ہوئے۔ انہوں نے Sheffield Resolves کے نام سے معروف دستاویز میں لکھا "تمام انسان فطری طور پر مساوی، آزاد اور ایک دوسرے سے آزاد ہیں۔"

1780میں ہمیں ان الفاظ کی بازگشت میساچوسٹس کے آئین کے آرٹیکل-میں سنائی دیتی ہے۔ جس کا آغاز ہوتا ہے "تمام انسان پیدائشی طور پر آزاد اور برابر ہیں، اور ان کے کچھ فطری، لازمی اور ناقابل انتقال حقوق ہیں۔"

شیفیلڈ ہسٹوریکل سوسائٹی کے صدر پال اوبرائن کہتے ہیں کہ سمجھا یہ جاتا ہے کہ ، آئین جب سب کے سامنے پڑھا گیا تو بیٹ نے بھی اسے سنا۔اور اس کے بعد، وہ پیدل ایشلے کے گھر سے تقریباً 5 میل دور اٹارنی تھیوڈور سیڈوک کے گھر گئیں، جو شیفیلڈ ریزولوز کا مسودہ تیار کرنے والوں میں سے ایک تھے، اور ان سے کہا کہ وہ اپنی آزادی کے حصول میں ان کی نمائندگی چاہتی ہیں۔

Sedgwick اور ایک اور وکیل ٹیپنگ ریو نے یہ مقدمہ لڑنے پر آمادگی ظاہر کی۔ اس وقت میساچوسٹس کی عدالتوں میں خواتین کو انتہائی محدود قانونی حقوق حاصل تھے، اس لیے ایشلے کے گھرانے سے ہی ایک مرد غلام کواس مقدمے میں شامل کیا گیا، جن کا نام بروم تھا۔

جیوری نے ان کے وکلا سے سے اتفاق کیا، 21 اگست 1781 کو بیٹ اور بروم کو آزادی کا ایک غیر معمولی پروانہ مل گیا۔

ریاست میساچوسٹس کے پہلے سیاہ فام گورنر، پیٹرک نے ایک ای میل میں کہا۔ "مجھے اس کہانی کے بارے میں جو چیز پسند ہے وہ یہ ہے کہ یہ غیر معمولی خاتون، جوایک غلام تھی، بعض اوقات ظلم وستم کا نشانہ بھی بنتی تھی،جو پڑھنے لکھنے سے قاصرتھی۔۔۔ اس نےمیز کے ارد گرد ہونے والی گفتگو کو بڑےغور سے سنا۔ کیونکہ وہ جن مردوں کی غلامی میں تھی، وہ زندگی، آزادی اور خوشی کے حصول کے ناقابل تسخیرتصورات پر بحث کر رہے تھے۔"وہ مزید کہتے ہیں، " مجھےدل سے پسند ہے کہ یہ بے اختیار عورت ایسے طاقتور خیالات کو اپنا سکتی تھی، اور دوسروں کو اس سوال کو جانچنے پر آمادہ کر سکتی تھی۔ پھر کہ میساچوسٹس کی عدالت کے پاس اس کے سوال کو سنجیدگی سے لینے کی دیانت داری موجود تھی۔"

اس تاریخی مقدمے کے بعد، ایشلے نے فری مین سے کہا کہ وہ پھران کے گھر میں ایک تنخواہ دار ملازمہ کے طور پر واپس آجائیں، لیکن انہوں نے انکار کر دیا اور اس کے بجائےاپنے وکیل سیڈوک کے گھر کام کرنا شروع کر دیا، جہاں انہوں نے ان کے بچوں کی پرورش میں مدد کی اورہر ایک انہیں پیارکے نام، مم بیٹ، یعنی "ماں بیٹ" کے نام سے پکارتا تھا۔

سیڈوک خاندان میں ممبیٹ کے لیے اتنا گہرا احترام اور پیار تھا کہ جب 1829 میں تقریباً 85 سال کی عمر میں ان کا انتقال ہوا تو انہیں اسی قبرستان میں دفن کیا گیا جہاں ان کے خاندان کے دوسرے افراد کی قبریں ہیں۔ وہ یہاں واحد غیر خاندانی فرد تھیں۔

ان کے بارے میں جو کچھ مورخین جانتے ہیں وہ تھیوڈور سیڈوک کی بیٹیوں میں سے ایک، ناول نگار کیتھرین ماریا سیڈوک کی تحریروں سے ان تک پہنچا ہے۔

پگناٹیلی کو پچھلے سال فری مین کا مجسمہ نصب کرنے کی تحریک اس وقت ملی جب انہوں نے ایڈمز میں، ساہ فام تاریخ کی ایک اور رہنما،سوسن بی انتھونی کے مجسمے کی نقاب کشائی میں شرکت کی تھی۔

انہوں نے لوگوں کو اکٹھا کیا اور تقریباً دو لاکھ اسی ہزار ڈالرز اکٹھے کیے، جن سے تقریباً 8 فٹ کا مجسمہ تخلیق کیا گیا، اور علاقے کے ہائی اسکول کے طلبہ کے لیے فری مین کے اعزاز میں اسکالرشپ فنڈ بھی۔

الز بیتھ فری مین کا مجسمہ، مشہور مجسمہ ساز برائن ہینلون نے کاسٹ کیا ہے اور اسے، شیفیلڈ میں فرسٹ کانگریگیشنل چرچ کی زمین پر نصب کیا گیا ہے، جو سیڈوک کے گھر سے زیادہ دور نہیں تھا۔

"ہم نہیں جانتے کہ الزبتھ فری مین چرچ گئی تھیں یا نہیں، لیکن ہم جانتے ہیں کہ ایشلے خاندان جا تا تھا، اور یہ عام بات تھی کہ بچوں کی دیکھ بھال کے لیے غلاموں کو چرچ میں لایا جائے،" اوبرائن نے کہا۔

اس ماہ مجسمےکی نقاب کشائی میں منتظمین فری مین کے ورثا میں سے کسی کو تلاش کرنے میں ناکام رہے ہیں۔

انہیں امید ہے کہ ایک مستقل یادگار فری مین کی کہانی میں دلچسپی پیدا کرے گی۔ "شاید ان کے خاندان میں سے کوئی ہمیں مل جائے،"

اس کہانی کے لئے معلومات اے پی کی ایک رپورٹ پر مبنی ہیں۔

XS
SM
MD
LG