رواں ماہ کے شروع میں سید محمد نعمان کی والدہ کرونا کے باعث انتقال کر گئی تھیں۔ ان کے بقول کرونا ٹیسٹ مثبت آنے کے باوجود انہوں نے اپنی والدہ کو اس سے لاعلم رکھا تھا۔ تاہم تشخیص کے فوری بعد ضلعی انتظامیہ نے ان کے گھر والوں کو قرنطینہ میں بھیج دیا تھا۔
صوبہ خیبر پختونخوا کے ضلع نوشہرہ سے تعلق رکھنے والے سید محمد نعمان پیشے کے لحاظ سے ٹھیکے دار ہیں۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ گزشتہ ماہ ان کی بھابی نے بخار اور کھانسی کی شکایت کی تو وہ انہیں قریبی نجی لیبارٹری میں کرونا وائرس کا ٹیسٹ کرانے کے لیے لے گئے۔ تیس نومبر کو لیبارٹری نے ان کا ٹیسٹ مثبت ہونے کی رپورٹ جاری کی۔
نعمان کا کہنا ہے کہ چند دن بعد بھابی کا دوبارہ ٹیسٹ کرایا جس کی رپورٹ نو دسمبر کو منفی آئی۔ اس کے بعد وہ اپنی بھابی کو پشاور کے ایک نجی اسپتال میں زچگی کے لیے لے گئے۔
نعمان کے مطابق اسپتال انتظامیہ نے ایک دفعہ پھر ان سے کرونا ٹیسٹ کرانے کا کہا جس کا نتیجہ 12 دسمبر کو ایک مرتبہ پھر مثبت آیا۔
دو ہفتوں کے دوران تین ٹیسٹوں کے مختلف نتائج نعمان کے بقول ان کی سمجھ سے باہر ہیں۔
پاکستان میں کرونا وائرس کی وجہ سے اب تک 9000 سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ ماہرین کے مطابق وبا کی دوسری لہر میں ہلاکتوں میں اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔
ملک میں ری انفیکشن یعنی کرونا سے شفایاب ہوجانے والے افراد کے وائرس کا دوبارہ شکار ہونے کے کیسز بھی رپورٹ ہو رہے ہیں۔
ڈاکٹر یاسر محمود یوسفزئی خیبر میڈیکل یونیورسٹی میں ایسوسی ایٹ پروفیسر اور پبلک ہیلتھ ریفرنس لیبارٹری پشاور کے ڈائریکٹر ہیں۔
اڈاکٹر یاسر کے بقول ان کی یونیورسٹی کی تحقیق نے سب سے پہلے ری انفیکشن کا انکشاف کیا تھا جو خیبر پختونخوا میں اپنی نوعیت کا پہلا کیس تھا۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ ری انفیکشن سے مراد یہ ہے کہ کسی مریض میں ایک مرتبہ کرونا کی علامات ظاہر ہوں اور 'پی سی آر' ٹیسٹ میں اس کی تشخیص ہو جائے اور پھر متاثرہ فرد صحت یاب بھی ہو جائے۔ کچھ عرصے بعد اسی مریض میں نئے سرے سے علامات ظاہر ہوں اور 'پی سی آر' ٹیسٹ بھی مثبت آجائے تو اس عمل کو ری انفیکشن کہتے ہیں۔
یاسر محمود یوسفزئی کے مطابق ان کی تحقیق ایک ایسے کیس پر تھی جس کے پہلے اور دوسرے ٹیسٹ میں چار مہینے کا فرق تھا۔
نعمان کے گھرانے کی پیچیدہ صورتِ حال پر تبصرہ کرتے ہوئے لیبارٹری ڈائریکٹر نے بتایا کہ ایسا ممکن ہے کہ 'پی سی آر' ایک دفعہ مثبت آجائے۔ چند ہی دن بعد منفی جب کہ اس کے دو چار دنوں بعد پھر سے رپورٹ مثبت آ جائے۔ تاہم انہوں نے واضح کیا کہ اسے ری انفیکشن کا کیس نہیں کہا جا سکتا۔
ان کا کہنا تھا کہ ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ ایسی صورت میں کسی مردہ وائرس کا حلق میں پڑے رہنا ممکن ہو سکتا ہے جو صرف 'پی سی آر' میں ظاہر ہوسکتا ہے۔ تاہم یہ نہ تو خطرناک ہوتا ہے اور نہ ہی کسی دوسرے فرد کو منتقل ہو سکتا ہے۔
ڈاکٹر یاسر کے مطابق پہلی مرتبہ علامات ظاہر ہونے کی صورت میں وائرس کا لیول بہت ہائی ہوتا ہے اور ٹیسٹ کرانے پر مثبت ہی آتا ہے۔ تاہم تاخیر کی صورت میں نتیجے پراثر پڑ سکتا ہے۔
ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ عالمی ادارۂ صحت کی ہدایات کے مطابق کرونا وائرس کے کسی بھی مثبت کیس کے 10 دن کے بعد دوبارہ ٹیسٹ کرنے کی ضرورت نہیں ہے کیوں کہ 10 دن بعد وائرس کسی دوسرے شخص کو منتقل نہیں ہوتا۔
کرونا وائرس کی نشان دہی کے لیے ناک یا گلے سے سیمپل لیا جاتا ہے۔ ماہرین کے مطابق ناک اور گلے میں وائرس کی مقدار مختلف نوعیت کی ہو سکتی ہے اور ایسا بھی ممکن ہے کہ ایک وقت میں ایک ہی شخص کے ناک کا ٹیسٹ حلق کے نتیجے سے مختلف ہو۔
ڈاکٹر یاسر کے مطابق وائرس کی نشان دہی کے لیے دو مختلف قسم کے محلول استعمال کیے جاتے ہیں۔ یونیورسل ٹرانسپورٹ میڈیم یا وائرس ٹرانسپورٹ میڈیم۔
حلق سے نمونہ لینے کے بعد اس کو محفوظ کرنے کے لیے یونیورسل ٹرانسپورٹ میڈیم یا وائرل ٹرانسپورٹ میڈیم میں ڈال دیا جاتا ہے جس کے بعد اسے لیبارٹری میں منتقل کر دیا جاتا ہے۔
ان کے بقول اگر 48 گھنٹوں کے اندر سیمپل کو محلول سے نہ گزارا جائے تو نتیجے پر فرق پڑ سکتا ہے۔
اس کے بعد 'پی سی آر' کا مرحلہ آتا ہے۔ مختلف قسم کی مشینوں اور کٹس کے استعمال کی وجہ سے دو لیبارٹریوں کے نتائج مختلف ہو سکتے ہیں۔
پاکستان میں کرونا عالمی وبا کا پہلا کیس رواں سال فروری کے مہینے میں سامنے آیا تھا جب کہ پہلی ہلاکت مارچ میں ہوئی تھی۔
لحاظ علی پیشے کے اعتبار سے صحافی ہیں اور پشاور میں مقیم ہیں۔ وہ جون کے مہینے میں کرونا کا شکار ہوئے تھے۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ اپنی صحافتی سرگرمیوں کے سلسلے میں وہ مختلف تقاریب میں جاتے تھے۔ اگرچہ انہوں نے ہمیشہ حفاظتی تدابیر کا خیال رکھا لیکن پھر بھی وہ وائرس کا شکار ہو گئے۔
ان کے مطابق جون میں ٹیسٹ مثبت آنے کے بعد انہوں نے اپنے آپ کو الگ تھلگ کر لیا تھا کیوں کہ بخار اور گلے کا درد ہونے کے ساتھ ساتھ ان کے منہ کا ذائقہ شدید متاثر ہوا تھا۔
رواں ماہ انہیں دوبارہ کھانسی اور بخار کی شکایت ہوئی اور کرونا کا ٹیسٹ کرانے پر نتیجہ مثبت آیا جس کے بعد انہوں نے اپنے دو بچوں اور اہلیہ کا بھی ٹیسٹ کرایا۔
وہ بتاتے ہیں کہ ایک ہفتے بعد ان کے ٹیسٹ کا نتیجہ تو منفی آگیا ہے لیکن ان کے تمام گھر والوں کے ٹیسٹ کا نتیجہ مثبت آیا ہے۔
لحاظ کے بقول ان کے فیملی ممبرز میں جن کا نتیجہ مثبت آیا ہے کوئی علامات نہیں جب کہ ان کا نتیجہ منفی ہونے کے باوجود بخارکا لیول ہمیشہ 100 ڈگری سینٹی گریڈ سے اوپر رہتا ہے اور منہ کا ذائقہ اور خوشبو کی حس تاحال بحال نہیں ہوئی ہے۔
لحاظ علی نے پبلک ہیلتھ لیبارٹری کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ ایک ہفتے بعد کرونا ٹیسٹ کا نتیجہ جاری کرنا ان کی سمجھ سے باہر ہے کیوں کہ اس طرح تو یہ وائرس بہت زیادہ افراد کو منتقل ہو سکتا ہے جس کی وجہ سے کنٹیکٹ ہسٹری مزید بڑھ جاتی ہے۔
محدود عرصے میں ایک ہی شخص کا نتیجہ مثبت، منفی اور پھر مثبت آنے کے حوالے سے ڈاکٹر یاسر کہتے ہیں کہ پاکستان میں دو قسم کی لیبارٹریز کرونا ٹیسٹ کر رہی ہیں: پبلک ہیلتھ لیب اور ڈائگنوسٹک لیب۔
ان کا کہنا تھا کہ پبلک ہیلتھ لیبارٹری کا مقصد وبا کو کنٹرول کرنا ہے کیوں کہ اس کا براہِ راست تعلق کمیونٹی سے ہوتا ہے۔ اس لیے اگر اسے کسی مریض میں معمولی سے بھی آثار نظر آ جاتے ہیں تو وہ اسے مثبت ڈکلیئر کرتی ہے تاکہ وائرس کو کنٹرول کیا جاسکے۔
اس کے مقابلے میں ڈائگنوسٹک لیبارٹریز کو یہ اختیار ہوتا ہے کہ وہ مریض کے مزید ٹیسٹ کرائیں اور اگر علامات زیادہ سنگین نہ ہوں تو وہ نتیجہ منفی جاری کر دیتے ہیں۔
ڈاکٹر یاسر کے مطابق ری انفیکشن والے مریض کے بارے میں ضروری ہے کہ دونوں دفعہ کی بیماری میں کم از کم چار مہینے کا وقفہ ہو۔ اس کے علاوہ متاثرہ شخص کی مکمل کنٹیکٹ ہسٹری بھی دیکھی جاتی ہے کہ آیا اس سے کوئی دوسرا شخص بھی ماضی میں متاثر ہوا تھا یا نہیں؟
ساتھ ساتھ یہ بھی دیکھا جاتا ہے کہ پہلی مرتبہ کرونا مثبت ہونے کے بعد مریض کی اینٹی باڈیز بنی تھیں یا نہیں۔
ان کے مطابق دوسری مرتبہ انفیکشن کے ساتھ ساتھ اگر اینٹی باڈیز میں کمی واقع ہوئی ہو تو پھر یہ ری انفیکشن کا کیس تصور کیا جاتا ہے۔
ڈاکٹر یاسر کے بقول خیبر یونیورسٹی مریضوں کی اینٹی باڈیز کی سطح اور ری انفیکشن کے کیسز کا ریکارڈ مرتب کر رہی ہے جس پر ساتھ ہی ساتھ تحقیق کی جا رہی ہے۔
پاکستان میں کرونا کی دوسری لہر کی شدت کے بارے میں ڈاکٹر یاسر کا کہنا تھا کہ سردیوں میں ہوا ٹھنڈی ہو کر اوپر سے نیچے آتی ہے جس کی وجہ سے وائرس کے لگنے کے چانسز زیادہ ہوتے ہیں۔
ان کے بقول سردیوں میں کیسز میں اضافے کی ایک اور وجہ یہ ہے کہ لوگ ہوا دار کمروں میں وقت نہیں گزارتے۔ ایک اور وجہ یہ بھی ہے کہ گرمیوں میں یہ وائرس جسم سے باہر بہت جلدی ختم ہو جاتا ہے جب کہ سردیوں میں یہ وائرس جسم سے باہر مختلف سطحوں پر زیادہ وقت گزار سکتا ہے۔
پاکستان میں سردیوں کے مہینوں میں وٹامن سی سے جڑے پھلوں کی فروخت میں اضافہ ہو جاتا ہے جسے کچھ لوگ کرونا کے علاج کے لیے تجویز کرتے ہیں۔ تاہم ڈاکٹر یاسر کے مطابق ان پھلوں سے صحت پر اچھا اثر اور قوتِ مدافعت بھی ممکنہ طور پر بہتر ہو سکتی ہے، تاہم وٹامن سی کو کووڈ-19 کے علاج کے طور پر نہیں لیا جا سکتا۔