خواتین کے عالمی دن کے موقع پر خواتین اور نوجوانوں کو با اختیار بنانےسے متعلق اقوا م متحدہ کے کمیشن کا 67 واں اجلاس 6 مارچ سے نیو یارک میں اقوام متحدہ کے ہیڈ کوارٹرز میں شروع ہو چکا ہے جو 17 مارچ تک جاری رہے گا۔ اس موقع پر ایشیائی ترقیاتی بینک (ADB) اور اسلامی ترقیاتی بینک صنفی مساوات اور خواتین کو بااختیار بنانے سے متعلق ایک مشترکہ تقریب کا اہتمام کر رہے ہیں ۔
اسلامی ترقیاتی بینک میں خواتین اور نوجوانوں کو معاشی طور پر مستحکم کرنے سے متعلق شعبے کی سر براہ کرسٹونیا لوک ہارٹ نے 13 مارچ کو ہونے والی اس تقریب کے بارے میں وی او اے کوتفصیلات فراہم کیں جن کے مطابق اس تقریب میں ماہرین کا ایک پینل اس بارے میں گفتگو کرے گا کہ معاشی عدم استحکام اور بحران کے موجودہ تناظر میں خواتین کو بااختیار بنانے کے لیے ڈیجیٹل ٹیکنالوجیز کو کس طرح استعمال کیا جائے؟ صنفی عدم مساوات سے نمٹنے کے لیے ڈیجیٹل ٹیکنالوجیز کس طرح ایک مؤثر طریقہ رہی ہیں؟ اور وہ ممکنہ علاقے کہاں ہیں جہاں ڈیجیٹل ٹیکنالوجیز کے ڈیزائن اور استعمال میں صنفی مساوات کو بڑھایا جا سکتا ہے؟
انہوں نے اقوام متحدہ کے اندازوں کےحوالےسے بتایا کہ اس وقت دستیاب ٹیکنالوجیز خواتین کو ترقی کے عمل میں آگے بڑھنے کے یکساں مواقع فراہم کرنے میں کامیاب نہیں ہو رہیں کیوں کہ انہیں مردوں کے مقابلے میں ٹیکنالوجیز اور ان کے استعمال کے مساوی مواقع حاصل نہیں ہیں ۔
SEE ALSO: صنفی مساوات کے حصول میں مزید 300 سال لگ سکتے ہیں: اقوامِ متحدہکرسٹونیا نے بتایا کہ عالمی آبادی کا صرف 51فی صد انٹرنیٹ تک رسائی رکھتا ہے اور عالمی سطح پر خواتین کے مقابلے میں مردوں کے آن لائن ہونے کا امکان 21فی صد زیادہ ہے، جو کہ کم سے کم ترقی یافتہ ممالک میں بڑھ کر 52فی صد تک ہو جاتا ہے۔ جب کہ مردوں کےلیےبنیادی مقاصد کے لیے ڈیجیٹل ٹیکنالوجی سے فائدہ اٹھانے کے امکانات خواتین اور لڑکیوں کی نسبت 25 فیصد زیادہ ہیں اور خواتین میں مردوں کی نسبت کمپیوٹر پروگرام ک کی مہارت حاسصل کرنےکے امکانات 4 گنا کم ہیں ۔
انہوں نے مزید بتایا کہ مردوں کے مقابلے میں خواتین کے پاس اسمارٹ فون کی تعداد بہت ہی کم ہے اور وہ موبائل انٹرنیٹ تک رسائی حاصل نہیں کر سکتی ہیں اور یہ کہ خواتین کی ڈیجیٹل ٹیکنالوجیز میں کم شمولیت کے نتیجے میں دنیا بھر کے ملک مجموعی قومی پیداوار میں ایک ٹریلین امریکی ڈالرز سے محروم ہو چکے ہیں اور 2020 میں اسے 126 ارب ڈالر کا نقصان ہوا ۔
تاہم کرسٹونیا لوک ہارٹ کا مزیدکہنا تھا کہ اگر ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کا مناسب استعمال کیا جائے تو صنفی مساوات کو بڑھایا جا سکتا ہے ۔ اور اس ضمن میں خواتین سے متعلق اقوام متحدہ کے کمیشن کے ساتھ ساتھ ، ایشیائی ترقیاتی بینک اور اسلامی ترقیاتی بینک بھی خصوصی طور پر اقدامات کررہے ہیں جن کی تفصیلات جلدسامنے آئیں گی ۔
وائس آف امریکہ نے خواتین کی ترقی میں ٹیکنالوجی کے عمل دخل پر کچھ ایسی ممتاز پاکستانی خواتین سے گفتگو کی جو ٹیکنالوجی کی مدد سے خواتین کو بااختیار بنانے کے لیے کوشاں ہیں ۔
فاطمہ جناح ویمن یونیورسٹی راولپنڈی کے ڈیپارٹمنٹ آف بائیو ٹیکنالوجی اور بائیو انفرمیٹکس کی ڈائریکٹر اور چیئر پرسن پروفیسر ڈاکٹر عذرا یاسمین نے وی او اے کو بتایا کہ ٹیکنالوجی دنیا بھر میں ایک انقلابی تبدیلی لا کر ہر شعبےکی نا گزیر ضرورت بن چکی ہے۔
انہوں نے کہا کہ جدید ٹیکنالوجی خاص طور پر اسمارٹ فونز اور دوسرےڈیجیٹل پلیٹ فارمز خواتین کو بااختیار بنانے میں ایک اہم کردار ادا کر رہےہیں ۔ خواتین مختلف ایپس سے بھر پور فائدہ اٹھا کر اپنے روزمرہ کے امور اور کاروبار آن لائن طریقے سے انجام دے رہی ہیں ۔
انہوں نے مزید کہا آج کی دنیا میں ٹیکنالوجی نے خواتین کو مردوں کے مساوی لانےمیں اہم کردار ادا کیا ہے۔ ٹیکنالوجی کی نئی نئی پیش رفت اور اس تک رسائی کی بدولت خواتین خود کو تعلیم یافتہ بنانے اور اپنے مخصوص شعبوں میں اپنی مہارتیں بہتر بنانے کےلیے مزید ڈیجیٹل پلیٹ فارمز کے بارے میں آگاہ ہو رہی ہیں او ر ان تک رسائی کر رہی ہیں ۔ حتی کہ وہ بھی جو بہت زیادہ کوالیفائیڈ نہیں ہیں اور پس ماندہ ملکوں یا علاقوں میں رہ رہی ہیں ، ٹیکنالوجی سے مستفید ہو رہی ہے۔
انہو ں نے کہا کہ آن لائن ڈگریوں نے بھی خواتین کو مضبوط کیا ہے اور ٹیکنالوجی خواتین کے لیے افرادی قوت میں شمولیت اور کامیابی کےنئےمواقع فراہم کررہی ہے اور ان کی گھریلو ، ثقافتی اور معاشرتی رکاوٹیں دور کر کے انہیں زیادہ صنفی مساوات فراہم کررہی ہے۔
SEE ALSO: دنیا بھر میں موجود پاکستان کی آؤٹ آف پریکٹس لیڈی ڈاکٹرز اپنے پروفیشن میں واپس آرہی ہیںاس سلسلے میں اپنی یونیورسٹی کی کارکردگی کو اجاگرکرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ان کی یونیورسٹی میں، جو پاکستان کی واحد خواتین کی یونیورسٹی ہے پاکستان بھر سے خواتین کو عمر کی کسی شرط کے بغیر داخلہ دیاجاتا ہے اور انہیں انٹر نیٹ ، جدید آلات سے آراستہ لیبارٹریوں اور مختلف ٹیکنالوجیز کے استعمال سے کاروبار کے مختلف طریقے سکھا کر اپنی زندگیوں میں تبدیلی لانے اور دنیا کے دوسرے حصوں میں موجود ماہرین سے آن لائن تربیت اور رہنمائی حاصل کرنے کے مواقع فراہم کیے جارہےہیں ۔
انہوں نے بتایا کہ ہم اپنی طالبات کو جدید ٹیکنالوجیز سے لیس کرنے کےلیے انہیں ٹیکنالوجی پر مبنی بہت سے جدید کورسز کی پیش کش کرتےہیں تاکہ جب وہ ٹیکنالوجی کے استعمال سے بھر پور دنیا میں عملی طور پر داخل ہوں تو انہیں اس حوالےسےکوئی مشکل پیش نہ آئے۔
پاکستان میں ڈیجیٹل ایڈ ٹیک کمپنی FEEEL کی فاونڈراور سی ای او اور ایموشنل انٹیلی جیس کی ایک ممتاز ایکسپرٹ ڈاکٹر فریال رزاق بھی ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کے استعمال سے خواتین کو بااختیار بنانے ، اور انہیں معاش کے ہنر سکھانے اور جذباتی مسائل کے حل کےلیے کوشا ں ہیں ۔ وہ کراچی اسکول آف بزنس اینڈ لیڈر شپ (KSBL ( میں سنٹر فار سنٹر فار ایتھیکل لیڈر شپ کی ایم ڈی ہیں جہاں اخلاقیات پر ریسرچ کی جاتی ہے اور کارپوریٹ ٹریننگ بھی کروائی جاتی ہے جبکہ یہاں ہر شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والوں کے لئے ڈیجیٹل کورسز بھی کروائے جاتے ہیں ۔
وی او اے اردو سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ وہ خواتین کو بااختیار بنانے میں ٹیکنالوجی کے کردار کے حوالے سے خود کو ایک مثال سمجھتی ہیں ۔ انہوں نے بتایا کہ انہوں نےشادی کے 17 سال بعد گھریلو ذمہ داریوں کے ساتھ ساتھ آن لائن ایم بی اے اور پھر پی ایچ ڈی کی اور 40 سال کی عمر میں ہائر ایجوکیشن کو ایک استادکے طور پر جوائن کیا، اور اس وقت وہ نہ صرف ایک کامیاب انٹری پرینیور ہیں بلکہ دنیا بھر کے ممتاز تعلیمی اداروں میں ایموشنل انٹیلی جنس کے شعبے میں ایک کنسلٹنٹ اور ٹرینر کےطورپر بھی کام کررہی ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ ٹیکنالوجی اور ڈیجیٹل پلیٹ فارمز کی مدد سے وہ دنیا بھر کے ماہرین کےانٹر ویوز پر مبنی جذباتی صحت پر پاکستان کا پہلا ڈیجیٹل میگزین لانچ کرنے میں کامیاب ہو سکیں۔
ٹیکنالوجی کے استعمال ہی سے انہوں نے پرائمری اسکول کے بچوں کی جذباتی زندگی بہتر بنانے کےلیے ویڈیو لٹریسی پر مبنی کارٹون سیریز کا نصاب تشکیل دیا۔
انہوں نے کہاکہ وہ سمجھتی ہیں کہ ٹیکنالوجی خاص طور پر اسمارٹ فونز صرف امیر اور تعلیم یافتہ لوگوں کے لیے ہی بزنس کا ذریعہ نہیں بن رہے بلکہ یہ د یہات کی ان پڑھ اور پس ماندہ خواتین کےلئے بھی اپنے چھوٹے موٹے کاروبار گھر سے ہی کرنے کا ذریعہ بن رہےہیں ۔
اس سلسلے میں انہوں نے خواتین سےمتعلق اپنے پراجیکٹ شانہ بشانہ کا تذکرہ کیا ۔ انہوں نے کہا اس پراجیکٹ کے ذریعے انہوں نے ہزارہ ، مری اور پنجاب کے دور افتادہ علاقوں میں گھروں میں بیٹھی ان ہنر مند خواتین کو جنہیں سماجی اقدار گھر سے باہر کام کرنے کی اجازت نہیں دیتیں، اسمارٹ فونز، انٹر نیٹ اور آن لائن ادائیگی کے جاز کیش ، ایزی پیسہ جیسےطریقےسکھا کر انہیں اس قابل بنایا ہے کہ وہ گھر سے باہر جائے بغیر کاروبار کر سکیں اور اپنی اور اپنے اہل خانہ کی آمدنی میں اضافہ کر کے معاشرے میں با عزت طریقے سے روزگار کما سکیں ۔
انہوں نے مزید کہا کہ اس وقت ان میں سےبہت سی خواتین واٹس ایپ کے ذریعے فروزن سموسوں کا بزنس چلارہی ہیں ۔ کچھ سردیوں میں سوپ بنا کر فروخت کر رہی ہیں۔ کچھ نےمساج کا کاروبار شروع کر دیا ہے۔ کچھ معمرلوگوں کےلیےہفتےمیں تین چار پکی ہوئی ڈشز فراہم کرنے کا کاروبار کر رہی ہیں ۔ کچھ درزیوں سے منسلک ہو کر سلائی کا کام کر رہی ہیں اور کچھ اسی طرح کے کچھ دوسرے کام کر رہی ہیں جو وہ گھر بیٹھ کر اور موبائل فون کی مدد سے کر سکتی تھیں ۔
Your browser doesn’t support HTML5
انہوں نے کہا کہ ٹیکنالوجی مستقبل ہے اور خواتین کے لیے ٹیکنالوجی کا استعمال انہیں اور ان کے خاندانوں اور آخر کار ان کے ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کر سکتا ہے۔
فریال رزاق کی بات کی تائید خدیجہ ذوالفقار نے بھی کی جو پاکستان میں ایک ٹریول کمپنی کی فاونڈر اور سی ای او ہیں اور اس وقت دبئی سے اس کمپنی کو آن لائن چلا رہی ہیں۔ وائس آف امریکہ کو ایک انٹر ویو میں بتایا کہ ٹیکنالوجی دوسرےشعبوں کی طرح خواتین کو ٹریولنگ کے شعبےمیں بھی آگےبڑھنے میں مدد دےرہی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اگرچہ پاکستان میں خواتین ٹریولنگ کےبزنس میں بہت کم ہیں لیکن ٹیکنالوجی کے بڑھتےہوئے استعمال نے انہیں اس شعبےمیں آنے اور کاروبار کرنےکےمواقع فراہم کر دیےہیں ۔ مثال کے طور پر آن لائن بکنگ پلیٹ فارمز بن جانے کےبعد اب خواتین کےلیےکسی بھی جگہ سے اپنا ٹریول بزنس چلانا آسان ہو گیا ہے ۔ وہ اب مختلف پلیٹ فارمز پر اپنے ہوٹلوں، ریسٹورینٹس ، گھروں اور دوسرےمقامات پر رہائش کی عارضی سہولیات کی فہرست بنا کر زیادہ سےزیادہ صارفین تک پہنچ سکتی ہیں ۔
انہوں نے کہا کہ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز مثلاً فیس بک، ٹوئٹر ، اور لنکڈ ان خواتین کو اپنے ٹریول بزنس کو بڑھانے کے لیے موثر ذرائع ثابت ہو چکے ہیں جہاں وہ اپنی ٹریول سروسز کی تفصیلات پیش کر سکتی ہیں۔ اپنے صارفین کی سفری دستاویزات کا تبادلہ کر سکتی ہیں اور ان کے کےساتھ وابستگی جاری رکھ کر انہیں اپنا مستقل صارف بنا کر اپنے کاروبار کو فروغ دے سکتی ہیں ۔
اسی طرح موبائل ٹیکنالوجی نے ٹریول بزنس سےوابستہ خواتین کو اپنے کلائنٹس کےساتھ مستقل طور پر منسلک رہنے اور ان کے سفر کےلیے فوری بکنگ کر نے میں مدد کی ہے ۔ وہ اپنےصارفین کو موبائل ایپس کے استعمال سے بکنگز ، ان کی منسوخی کی فوری اطلاع دے سکتی ہیں اور فوری طور پر ان کا فیڈ بیک حاصل کر سکتی ہیں ۔
انہوں نے کہا کہ اسی طرح ڈیجیٹل مارکیٹنگ نے خواتین کےلیے ٹریول بزنس کو بڑھانےمیں بہت مدد فراہم کر رہی ہے۔وہ بلاگز ، ویڈیوز ، اور سوشل میڈیا پوسٹس کی مدد سےسفر کے مقامات اور ان کےتجربات کے بارے میں اہم معلومات فراہم کر کے اپنےصارفین کا دائرہ وسیع کر سکتی ہیں ۔
Your browser doesn’t support HTML5
ان کا کہنا تھا کہ ٹیکنالوجی کےانہی پلیٹ فارمز کی مدد سے وہ اپنے کاروبار کو دبئی تک توسیع دینے میں کامیاب ہوئی ہیں ۔ اور ٹریولنگ کا ایک کامیاب بزنس چلانے کے ساتھ ساتھ وہ خواتین کو ٹیکنالوجی کےشعبےمیں آگے لانے میں مدد کرنےمیں اپنا کردار اس طرح ادا کررہی ہیں کہ وہ انہیں اپنے بزنس کی آوٹ سورسنگ میں استعمال کرتی ہیں۔
ان کی کمپنی کی ویب سائٹ خواتین نےتیار کی ہے اور وہی اسے چلاتی ہیں۔ جب کہ ان کے سوشل میڈیا نیٹ ورکس کو ایک طالبہ چلاتی ہیں۔انہوں نے اپنی گفتگو سمیٹتےہوئے کہا کہ ٹیکنالوجی نے خواتین کےلیے ٹریول انڈسٹری میں نئے مواقع کھول دیے ہیں اور ان کےلیے اپنے کاروبار کو بڑھانااورسفر سے متعلق اپنے کاروباری سفر کو مزید خود مختار طریقے سے کرنا آسان بنا دیا ہے ۔
خدیجہ ذوالفقار اور فریال رزاق اور عذرا یاسمین نے خواتین کی ترقی کے لیے ٹکنالوجی کی اہمیت کو اجاگر کرتےہوئے زور دے کر کہا کہ خواتین کو ٹیکنالوجی کے شعبے میں تعلیم اور تربیت کے زیادہ سےزیادہ مواقع فراہم کرنےکےلیےسرکاری اور نجی اداروں کو اپنی کوششوں میں بہت زیادہ تیزی لانے کی ضرورت ہے تاکہ وہ اپنی اوراپنے خاندان کی زندگیاں بہتر بنانےکےساتھ ساتھ ملکی ترقی میں اپنا کردار مزید بہتر طورپر ادا کر سکیں۔