اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل انتونیو گوتریس نے پیر کو خواتین کی ایک کانفرنس کے آغاز پر متنبہ کیا کہ صنفی مساوات کی جانب موجودہ رفتار ظاہر کرتی ہے کہ اس مقصد کا حصول ابھی مزید 300 سال دور ہے۔
خواتین کی حیثیت سے متعلق کمیشن کی کانفرنس کے آغاز میں انہوں نے کہا کہ ’’کئی دہائیوں سے حاصل کی گئی ترقی ہماری آنکھوں کے سامنے غائب ہو رہی ہے۔‘‘
دو ہفتے تک جاری رہنے والے کمیشن آن اسٹیٹس آف ویمن کی اس کانفرنس میں 4,000 سے زیادہ حکومتی وزراء، سفارت کار اور سول سوسائٹی کے ارکان شرکت کریں گے۔ شرکا اس سالانہ اجتماع میں اس بات پر توجہ مرکوز کریں گے کہ دنیا بھر میں خواتین کی زندگیوں کو کیسے بہتر بنایا جا سکتا ہے۔
عالمی ادارے کے سربراہ نے نوٹ کیا کہ اس کمیشن کی اہمیت اس لیے بھی بڑھ گئی ہے کہ خواتین کے حقوق دنیا بھر میں پامال ہو رہے ہیں اور انہیں خطرات اور تشدد کا سامنا ہے۔
کانفرنس کا موضوع ’’جدت اور تکنیکی تبدیلی، اور صنفی مساوات کے حصول اور تمام خواتین اور لڑکیوں کو بااختیار بنانے کے لیے ڈیجیٹل دور میں تعلیم‘‘ہے۔
اس سال کانفرنس اور اس کی درجنوں ضمنی تقریبات میں یہ جائزہ لیا جائے گا کہ کس طرح انٹرنیٹ تک رسائی کی غیر متناسب کمی عالمی سطح پر خواتین اور لڑکیوں کو روک رہی ہے۔
سیکرٹری جنرل نے اپنی تقریر میں شرکاء کو بتایا کہ تین ارب لوگ اب بھی انٹرنیٹ تک رسائی نہیں رکھتے۔ ان میں سے اکثریت ترقی پذیر ممالک میں خواتین اور لڑکیوں کی ہے۔ کم سے کم ترقی یافتہ ممالک میں، صرف ایک فیصد خواتین آن لائن ہیں۔‘‘
عالمی سطح پر ٹیکنالوجی کی صنعت میں مردوں کی تعداد خواتین سے دو کے مقابلے میں ایک ہے جب کہ انجینئرنگ سے فارغ التحصیل افراد میں سے صرف 28 فیصد اور مصنوعی ذہانت (اے آئی) کے شعبے میں 22 فیصد کارکن خواتین ہیں۔ ان کی تنخواہوں میں 21 فیصد کا بڑا صنفی فرق بھی ہے۔
اس ضمن میں بات کرتے ہوئے یو این ویمن کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر سیما بہاؤس نے کہا کہ ’’ڈیجیٹل تقسیم، زندگی بچانے والی معلومات، موبائل منی پروڈکٹس، زرعی توسیع یا آن لائن عوامی سہولتوں تک خواتین کی رسائی کو محدود کر سکتی ہے‘‘۔
انہوں نے کہا کہ اس کے نتیجے میں ’’یہ بنیادی طور پر اس بات پر اثر انداز ہوتا ہے کہ آیا کوئی عورت اپنی تعلیم مکمل کرتی ہے، اپنے بینک اکاؤنٹ کی مالک ہے، اپنے جسم کے بارے میں باخبر فیصلے کرتی ہے، اپنے خاندان کا پیٹ پالتی ہے یا پیداواری روزگار حاصل کرتی ہے‘‘۔
بہاؤس نے کہا کہ اس عدم مساوات نے ایک نئی قسم کی ڈیجیٹل غربت پیدا کی ہے۔
’’ہم ڈیجیٹل فرق کو ختم کیے بغیر صنفی مساوات حاصل نہیں کر سکیں گے‘‘۔
اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق، خواتین اور لڑکیوں کو آن لائن زیادہ ہراسانی اور جنسی استحصال کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
افغانستان میں خواتین اور لڑکیوں کی صورت حال اس ہفتے کی کانفرنس میں توجہ کا مرکز ہو گی۔ اگست 2021 میں اقتدار پر قبضہ کرنے کے بعد سے طالبان نے افغان خواتین کو ان کے بہت سے حقوق سے محروم کردیا ہے۔
اس سلسلے میں گوتریس نے کہا کہ افغانستان میں خواتین اور لڑکیوں کو وہاں کی عوامی زندگی سے’’مٹایا‘‘ گیا ہے۔
رواں سال جنوری میں اقوام متحدہ کے رہنما نے ڈپٹی سیکرٹری جنرل اور بہاؤس کو طالبان کے لیے اس بارے میں ایک ’’واضح پیغام‘‘ کے ساتھ افغانستان بھیجا تھا۔
سیکرٹری جنرل نے زور دے کر کہا کہ خواتین اور لڑکیوں کو بنیادی انسانی حقوق حاصل ہیں اور ہم ان کے لیے لڑنا کبھی ترک نہیں کریں گے۔
کانفرنس کے دوران پیر کے روز ایک ضمنی تقریب میں متعدد افغان خواتین کارکنان نے خطاب کیا جس میں انہوں نے بین الاقوامی برادری سے طالبان کے 30 سے زائد احکامات کو رد کرنے میں مدد کے طور پر گروپ پر دباؤ بڑھانے کا واضح مطالبہ کیا۔
خیال رہے کہ طالبان کے احکامات میں ثانوی اسکول اور یونیورسٹی کی سطح پر خواتین پر پابندی، گھر سے باہر کام کرنے، مرد محافظ کے بغیر سفر کرنے اور کسی بھی سیاسی یا ثقافتی سرگرمیوں میں حصہ لینے پر پابندیاں شامل ہیں۔
اس تقریب میں افغانستان سے بے دخل ہونے والی فریحہ ایزر نے ،جو کہ ایک سرگرم کارکن اور خواتین کے حقوق کی محقق ہیں، کہا تھا کہ ’’ایک دہشت گرد گروہ کے اقتدار پر قبضہ کرنے کی ناقابل برداشت حقیقت کے نتیجے میں افغانستان میں امن و امان کی مکمل خرابی ہوئی ہے‘‘۔
انہوں نے کہا:’’مکمل افراتفری کی حالت نے انارکی اور سراسر لاقانونیت کو جنم دیا ہے، جس سے خواتین مکمل طور پر غیر محفوظ ہو گئی ہیں اور ان کے پاس انصاف کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے‘‘۔
افغانستان کا ہمسایہ ملک پاکستان، بدھ کو خواتین کےعالمی دن کے موقع پر مسلم خواتین کو درپیش چیلنجز پر کانفرنس کے موقعے پر ایک تقریب کی میزبانی کر ے گا۔
اس تقریب میں اسلام کے بارے میں ان تصورات کو دور کرنے کی کوشش ہو گی جن کے مطابق اسلام کو ایسا مذہب سمجھا جاتا ہے جو خواتین کے خلاف جبر اور امتیازی سلوک رکھتاہے۔ اس موقع پر تاریخ میں مسلم خواتین کی خدمات کو اجاگر کیا جائے گا۔ شرکا خواتین کو بااختیار بنانے کی راہ میں حائل رکاوٹوں کی نشاندہی کریں گے۔
(مارگریٹ بشیر، وی او اے نیوز)