'روپے کی قدر کا تعین کرنسی مارکیٹ کو ہی کرنا چاہیے'

فائل

ماہرینِ معاشیات کا کہنا ہے کہ ڈالر کی قیمت میں آئے روز اضافے اور روپے کی قدر میں تنزلی کی متعدد وجوہات میں سے ایک وجہ ذرائع ابلاغ اور سوشل میڈیا پر طرح طرح کی قیاس آرائیاں بھی ہیں۔

ماہرین کے مطابق اس سے مارکیٹ میں افراتفری پھیلتی ہے اور کاروباری افراد ڈالر کو ایک جنس کے طور پر خریدنا شروع کر دیتے ہیں۔ جس سے ڈالر کو پہیے لگ جاتے ہیں اور روپیہ تنزلی کا شکار ہو جاتا ہے۔

وائس آف امریکہ کے ساتھ گفتگو میں معاشی امور کے ماہر محمد سہیل کا کہنا تھا کہ اقتصادی نظریات تو یہ کہتے ہیں کہ کرنسی کی قدر کا تعین مارکیٹ میں طلب و رسد کے اصول پر ہونا چاہیے۔ یہی کلیہ حکومتِ پاکستان نے عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) کے ساتھ طے کیا ہے کہ روپے کی قدر کا تعین بازار کریں گے۔

انہوں نے کہا کہ گزشتہ حکومت نے ابتدائی چار برس تک مصنوعی طریقۂ کار اپنا کر ڈالر کی قیمت کو روکے رکھا جو معیشت کی ترقی کے لیے سودمند نہیں تھا۔

نادیہ فاروق 'ایشین ڈیویلپمنٹ بینک' کے ساتھ وابستہ تجزیہ کار ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ سابق حکومت نے ڈالر کی قیمت کو روکے رکھا تھا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ روپیہ عالمی مارکیٹ میں تقابل کی اہلیت کھو بیٹھا۔

اس ضمن میں محمد سہیل نے پاکستان کی گزشتہ تین حکومتوں کو ذمے دار ٹھہرایا۔ انہوں نے کہا کہ نگران حکومت اور پھر پی ٹی آئی کے دور میں روپے کی قدر کو حقیقت پسند سطح پر لانے کے لیے بروقت اقدامات نہیں کیے گئے۔

ماہر اقتصادیات اکرام الحق کا وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہنا تھا کہ روپے کی قدر میں کمی عالمی مالیاتی ادارے کے ساتھ شرائط کا فطری نتیجہ ہے۔ ان کے بقول پاکستان میں ڈالر کی طلب میں بہت زیادہ اضافہ ہوا ہے اور رسد کہیں کم ہے۔

خرم شہزاد کے مطابق مارکیٹ میں قیاس آرائیاں بھی روپے کو کمزور کرنے کا باعث بنتی ہیں۔ بقول ان کے قیاس آرائیوں کے نتیجے میں غیر یقینی صورت حال پیدا ہوتی ہے اور لوگ ڈالر کو بطور جنس ذخیرہ کر لیتے ہیں۔ اس معاشی رویے کو کنٹرول کیا جانا چاہیے۔

نادیہ فاروق کہتی ہیں کہ آئی ایم ایف جہاں بھی جاتا ہے اس کی خواہش ہوتی ہے کہ قرضہ لینے والا ملک اپنے پاؤں پر کھڑا ہو اور جو حقیقت پسندانہ اصلاحات ہیں وہ لائی جائیں۔

ڈالر کی قدر میں اضافے کے نقصانات و فوائد؟

ماہرین کہتے ہیں کہ ڈالر کی قیمت بڑھنے کا نقصان یہ ہے کہ درآمدی مصنوعات کی قیمت بڑھ جاتی ہے جس کا براہِ راست بوجھ عوام پر پڑتا ہے۔ پیٹرول اور بجلی کی قیمتوں میں اضافے سمیت مہنگائی بھی بڑھ جاتی ہے۔

ماہرین کے مطابق ڈالر کی قیمت بڑھنے کا فائدہ یہ ہے کہ کرنسی کی قدر کو مستحکم بنانے کے لیے اسے حقیقی سطح پر لیا جائے تو بیرونی سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے۔ اور برآمدات بڑھنے سے غیر ملکی زرِ مبادلہ میں اضافہ ہو سکتا ہے۔

محمد سہیل اور خرم شہزاد دونوں یہ سمجھتے ہیں کہ حکومت نے جو اقدامات کیے ہیں ان سے آئندہ چند ماہ میں استحکام آ سکتا ہے۔

اکرام الحق کے خیال میں معاشی مسائل کے اسباب اندرونی ہیں اور ایک ایسی جاندار حکمتِ عملی اپنانے کی ضرورت ہے جس میں زمینی حقائق کا تجزیہ کیا جائے اور ہر شعبے کے لیے الگ الگ حل تلاش کیے جائیں۔

نادیہ فاروق کہتی ہیں کہ پاکستان میں بڑے پیمانے پر معاشی اصلاحات نظر نہیں آتیں۔ تاہم معاشی ٹیم میں تبدیلیوں کے بعد بہتر نتائج کی امید کی جاسکتی ہے۔