پاکستان کے سرحدی علاقے طورخم سے متصل مشرقی افغانستان کے پہاڑوں میں گھرا ویران صحرا لاکھوں افغان مہاجرین سے بھر چکا ہے۔
کچھ مہاجرین خیموں میں مقیم ہیں، جب کہ بہت سے کھلے آسمان تلے رہنے پر مجبور ہیں۔ ان کے پاس صرف کچھ سامان ہے جو وہ پاکستان سے اپنے ساتھ لے آئے ہیں۔
یہ ان پناہ گزینوں کا کیمپ ہے جو طورخم بارڈر کے راستے پاکستان سے افغانستان واپس آئے ہیں۔
گزشتہ 40 برس سے زائد عرصے سے جاری جنگ، تشدد، غربت کی وجہ سے افغانستان دنیا کے ان ممالک میں شامل ہے جس کی بڑی آبادی بے گھری اور نقل مکانی کا سامنا کر رہی ہے۔
اس وقت 60 لاکھ سے زائد افغان ملک سے باہر مہاجر ہیں۔ ملک میں 35 لاکھ کے قریب افراد اندرونی طور پر نقل مکانی کرچکے ہیں۔ ملک کی آبادی چار کروڑ کے قریب ہے۔ بہت سے لوگ جنگ، زلزلے، خشک سالی اور دیگر وجوہات سے مہاجر بننے پر مجبور ہوئے ہیں۔
گزشتہ مہینوں میں خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس (اے پی) کے ایک فوٹو گرافر نے افغانستان کی ایران کے ساتھ مغربی سرحد سے پاکستان کی سرحد تک سفر کیا اور ان لوگوں کے حالات جاننے کی کوشش کی جو یا تو ملک میں اندرونی طور پر نقل مکانی کرچکے ہیں، یا جو حال ہی میں وطن واپس لوٹے ہیں۔
افغانستان میں غربت کی شرح، جو پہلے ہی بہت زیادہ تھی، طالبان کی حکومت کے بعد معاشی بحران میں مزید اضافہ ہوا ہے۔ دو کروڑ 80 لاکھ کے قریب افراد بین الاقوامی امداد پر گزر بسر کر رہے ہیں۔
ان مہاجرین میں سے بہت سے روزمرہ کی خوراک اور سردیوں میں آگ جلانے کے لیے لکڑی سے بھی محروم ہیں۔ اکثر اوقات بچے اور عورتیں بھیک مانگنے پر مجبور ہوجاتے ہیں جب کہ کچھ لوگ اپنی نوجوان بیٹیوں کا بیاہ ایسے لوگوں سے کر دیتے ہیں، جو اس کے بدلے قیمت دینے پر راضی ہوں۔
کابل میں اندرونی طور پر مہاجر افراد کے ایک کیمپ میں پندرہ برس کی شمیلا کا بیاہ ہو رہا ہے۔ انہوں نے سرخ لباس پہنا ہوا ہے۔ جہاں خاندان کی عورتیں انہیں مبارکباد دے رہی ہیں لیکن دلہن اداس ہے۔
شمیلا کا کہنا ہے کہ وہ انکار نہیں کر سکتیں، کیوں کہ اس سے ان کے خاندان کو دکھ ہوگا۔ ان کے والد نے طالبان کے ڈر سے خاندان کا نام دینے سے انکار کیا۔ شمیلا کے خاوند کا خاندان ان کے بدلے ان کے والد کو رقم فراہم کر رہے ہیں، جس کے ذریعے وہ اپنا قرض اتار سکیں گے۔
شمیلا کا کہنا ہے کہ وہ پڑھ لکھ کر کام کرنا چاہتی تھیں، وہ سکول جانا چاہتی تھیں۔ بقول ان کے، ’’مجھے اپنے تمام خواب ادھورے چھوڑنے پڑے، اس طرح شاید میں اپنے والد اور خاندان کے کسی کام آسکوں۔‘‘
رواں برس پاکستان کی جانب سے غیر قانونی طور پر مقیم افغان باشندوں کو ملک بدر کرنے کے فیصلے کے بعد بہت سے افغان مہاجر افغانستان منتقل ہوگئے۔ ان میں سے بہت سوں کا کہنا ہے کہ پاکستانی حکام نے انہیں اپنے ساتھ کچھ لے جانے کی اجازت نہ دی۔
ان کا پہلا پڑاؤ طورخم کے نزدیک ایک کیمپ ہے، جہاں سے طالبان انہیں کسی اور کیمپ میں منتقل کر دیں گے۔ خوراک کی قلت کے علاوہ ان کے پاس سردی سے بچنے کے کافی ساز و سامان اور گرم کپڑے بھی نہیں جس کی وجہ سے کیمپ میں اکثر افراد بیمار ہیں۔
کیمپ کے ایک کنارے، ایک پہاڑ تلے 55 برس کے فاروق صادق اپنے سامان کے قریب بیٹھے تھے۔ انہوں نے اے پی کو بتایا کہ وہ پاکستان کے شہر پشاور میں ایک گھر کے مالک تھے۔ وہ پشاور میں گزشتہ 30 برس سے رہائش پذیر تھے۔ اب ان کے پاس کچھ بھی نہیں ہے، ایک ٹینٹ تک نہیں ہے اور وہ گزشتہ آٹھ دنوں سے زمین پر سو رہے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ ان کے پاس افغانستان میں کوئی گھر نہیں ہے، نہ کوئی رقم۔ وہ دوبارہ پاکستان کا ویزا حاصل کر کے اپنا گھر بیچنا چاہتے ہیں، تاکہ وہ اپنے خاندان کے لیے کچھ کر سکیں۔
پاکستان سے بہت سے افغان پناہ گزینوں کی بے دخلی کے بعد افغان شہریوں کی ایران کی سرحد کی جانب نقل مکانی میں اضافہ دیکھا گیا ہے۔ یہ افراد کام کی تلاش میں وہاں جا رہے ہیں۔
ہر مہینے ہزاروں افراد افغان شہر زرنج کے نزدیک سرحد سے ایران چلے جاتے ہیں، تاکہ وہ وہاں کام کر کے اپنے گھر والوں کو پیسہ بھیج سکیں۔ ان میں 12 سے 20، 30 برس کی عمر کے نوجوان شامل ہیں۔ ان میں سے بہت سوں کو ایرانی سرحدی فورسز گرفتار کر کے واپس ان کے گھر بھیج دیتی ہیں۔
اس کے علاوہ کچھ لوگ پہاڑوں کو عبور کر کے پاکستان کی جنوب مغربی سرحد کراس کرتے ہیں، تاکہ وہ وہاں سے ایران جا سکیں۔
اے پی کے مطابق ان مہاجرین پر دہشت گرد تنظیم جنداللہ حملے کرتی ہے جس میں بہت سے افراد ہلاک ہوتے ہیں۔ ان میں سے کچھ شیعہ بھی ہوتے ہیں۔
اس خبر کے لیے مواد ایسوسی ایٹڈ پریس (اے پی) سے لیا گیا۔