افغانستان میں طالبان حکومت نے دعویٰ کیا ہے کہ ایران نے بھی گزشتہ تین ماہ کے دوران لگ بھگ ساڑھے تین لاکھ افغان مہاجرین کو بے دخل کیا ہے۔ اس عرصے کے دوران پاکستان اور ایران کی جانب سے مجموعی طور پر آٹھ لاکھ 50 ہزار افغان باشندوں کو بے دخل کیا جا چکا ہے۔
اقوام متحدہ کی طرف سے افغانستان واپس جانے والے افغان شہریوں کے لیے سخت سردی اور غیر یقینی مستقبل سے متعلق خبردار کیے جانے کے باوجود دونوں ہمسایہ ممالک میں غیر قانونی طور پر قیام پذیر افغان باشندوں کے خلاف کریک ڈاؤن جاری ہے۔
طالبان حکومت کے وزیر برائے مہاجرین عبدالرحمٰن راشد نے 'طلوع نیوز' کو بتایا کہ ایران نے رواں سال ستمبر کے آخری ہفتے سے اب تک لگ بھگ تین لاکھ 45 ہزار افغان شہریوں کو ملک بدر کیا ہے۔
راشد کا مزید تفصیلات دیے بغیر کہنا تھا کہ طالبان انتظامیہ نے ملک واپس آنے والے ہر خاندان کو نقدی اور دیگر فوری اشیا ضرورت فراہم کی ہیں۔
دوسری طرف ایرانی حکام کا دعوی ہے کہ انہوں نے غیر قانونی طور پر رہنے والے افغان شہریوں کو ملک بدر کیا ہے۔
علاوہ ازیں پاکستانی حکام کا کہنا ہے کہ غیر قانونی تارکینِ وطن کے خلاف جاری کریک ڈاؤن کے اعلان کے بعد سے اب تک لگ بھگ چار لاکھ 90 ہزار افراد واپس افغانستان جا چکے ہیں۔
وفاقی وزیر داخلہ سرفراز بگٹی نے اسلام آباد میں اختتام ہفتہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے دعوی کیا کہ دستاویزات نہ رکھنے والے 90 فی صد سے زائد افغان شہری رضا کارانہ طور پر واپس گئے۔
اقوامِ متحدہ کے ادارۂ برائے مہاجرین (یو این ایچ سی آر) کا کہنا ہے کہ حالیہ دنوں میں پاکستان سے افغانستان واپس جانے والے افغان شہریوں کی تعداد میں بتدریج کمی آئی ہے۔ تاہم اس کا کہنا ہے کہ جولائی 2024 تک مزید دو لاکھ 80 ہزار افراد متوقع طور پر افغانستان واپس جا سکتے ہیں۔
عالمی ادارۂ صحت (ڈبلیو ایچ او) نے پچھلے ہفتے خبردار کیا تھا کہ سخت موسم کے دوران واپس جانے والوں کے لیے خطرات بڑھ جائیں گے جس کے نتیجے میں زندگی بچانے والی صحت کی سہولتوں کی زیادہ ضرورت ہو گی۔
پاکستانی حکومت نے افغان شہریوں کو واپس بھیجنے کی مہم کو درست قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ یہ ملک کے امیگریشن قوانین کے مطابق ہے اور دنیا بھر میں اس طرح کے ضابطوں کی خلاف ورزی کرنے والوں کے ساتھ ایسا ہی کیا جاتا ہے۔
پاکستان نے واضح کر رکھا ہے کہ پاکستان میں قانونی دستاویزات رکھنے والے افغان مہاجرین یہاں قیام کر سکتے ہیں۔
خیال رہے کہ طالبان نے ملک واپس آنے والے شہریوں کے لیے سرحد پر عارضی کیمپس لگائے ہیں جہاں وہ تب تک رہ سکتے ہیں جب تک کہ انہیں ان کے آبائی علاقوں میں نہیں بھیج دیا جاتا۔
فورم