امریکہ کا لاٹری ویزہ پروگرام ان ممالک کے شہریوں کے لیے ہے جن کے تارکین وطن امریکہ میں کم تعداد میں ہیں۔
لیکن افغانستان پر طالبان کے قبضے اور وہاں سے تمام امریکی افواج کے انخلا کے بعد ویزہ لاٹری جیتنے والے افغان شہری اس خوف میں ہیں کہ شاید وہ کبھی بھی اپنا ملک چھوڑ کر امریکہ کی طرف قانونی ہجرت نہیں کر سکیں گے۔
کابل میں رہنے والی ایک 27 سالہ خاتون، جو خواتین کے حقوق کی سرگرم کارکن بھی ہیں، لاٹری ویزہ جیتنے والے افراد میں شامل ہیں۔ اپنے تحفظ کے پیش نظر انہوں نے وائس آف امریکہ سے اپنا نام پوشیدہ رکھنے کی درخواست کی ہے۔ ہم انہیں 'ایس' کا نام دے رہے ہیں۔
ایس کہتی ہیں کہ انہیں پہلی بار امریکی حکومت نے 2020 میں مطلع کیا تھا کہ ڈائیورسٹی ویزہ پروگرام میں ان کا نام بھی نکل آیا ہے، جسے عام طور پر گرین کارڈ لاٹری کے نام سے جانا جاتا ہے۔
اس پروگرام کی امریکی کانگریس نے 1990 کے امیگریشن ایکٹ کے تحت منظوری دی تھی، تاکہ امریکہ میں تارکین وطن کے تنوع میں اضافہ کیا جا سکے۔
ویزہ لاٹری پروگرام جیتنے کی خوشی
'ایس' نے کہا کہ جب انہیں معلوم ہوا کہ وہ دنیا بھر سے سالانہ بنیاد پر منتخب کیے جانے والے 55،000 لوگوں میں شامل ہیں تو انہیں بہت خوشی ہوئی۔ لیکن امریکہ جانے سے قبل امریکی سفارت خانے کے عہدیداروں کے ساتھ انٹرویوز، پس منظر کی جانچ پڑتال اور دیگر بہت سی دستاویزات کی ضرورت تھی۔
SEE ALSO: ویزہ لاٹری پروگرام کے خاتمے کے لیے کانگریس میرا ساتھ دے، صدر ٹرمپانہوں نے وی او اے کو بتایا کہ اس کے بعد انہوں نے مطلوبہ کاغذات فراہم کرنے کے بعد امریکی سفارت خانے میں اپنے انٹرویو کا انتظار شروع کر دیا جس میں عموماً چند ماہ لگ جاتے ہیں۔
بقول ان کے، "جب مجھے امریکی حکومت کی طرف سے انٹرویو کا خط ملا تو میں دوبارہ بہت خوش ہوئی کہ اب منزل بہت قریب آ گئی ہے''۔
"میں خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے کی وجہ سے طالبان سے خوف زدہ تھی۔ اس لیے میں نے اپنے بھائی کے ساتھ دوسری جگہ منتقل ہونے کا فیصلہ کیا۔ مگر پھر یہ سب کچھ ایک خواب بن گیا"۔
"بدقسمتی سے، کابل میں امریکی سفارت خانہ 31 اگست کو بند ہو گیا۔ اب ہمیں معلوم نہیں ہے کہ انٹرویو کے لیے کہاں جانا ہے یا ویزا کہاں سے لینا ہے۔ ہم افغانستان میں خطرے میں ہیں۔ لیکن میں افغانستان چھوڑنے کی کوشش کرتی رہوں گی"۔ انہوں نے ایک آڈیو پیغام میں بتایا۔
ڈائیورسٹی ویزہ پروگرام مسائل کا شکار
'ایس' اور دوسروں کے لیے اس بڑے دھچکے سے بہت پہلے، ڈائیورسٹی ویزہ پروگرام کا ریکارڈ بہت شاندار تھا۔ لیکن 2017 میں اس وقت کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے متعدد اقدامات کے ذریعے مسلم اکثریتی ممالک کے لوگوں کو امریکہ آنے سے روک دیا۔ پھر مارچ 2020 میں، ٹرمپ نے کرونا وائرس کی وبا کی وجہ سے دنیا بھر میں قونصل خانے بند کر دیئے۔اس کے بعد ٹرمپ انتظامیہ نے یہ کہتے ہوئے کچھ تارکین وطن کے ویزوں پر پابندی لگا دی کہ ایسا کرنا امریکی معیشت کے تحفظ کے لیے ضروری ہے۔
ان اقدامات کے نتیجے میں ویزہ لاٹری جیتنے والے سینکڑوں افغان باشندوں کو امریکہ آنے سے روک دیا گیا۔
Your browser doesn’t support HTML5
امریکی حکومت کی ایک دستاویز کے مطابق، ایک بار جب 2020 کے موسم گرما میں قونصل خانے دوبارہ کھلنا شروع ہوئے تو حکام کو حکم دیا گیا کہ وہ لاٹری ویزوں کی درخواستوں پر سب سے آخرمیں کام کریں۔
اس پر تارکین وطن کے وکلا نے مقدمہ دائر کیا۔ گزشتہ ماہ کے شروع میں، ایک وفاقی جج نے اپنے فیصلے میں لکھا کہ امریکی حکومت کو لاٹری ویزہ جیتنے والوں کی درخواستوں پر کارروائی جاری رکھنی چاہیے۔ 17 اگست کو، امریکی ضلعی عدالت برائے کولمبیا نے بائیڈن انتظامیہ کو مالی سال 2020 سے 9،095 ڈائیورسٹی ویزے جاری کرنے کا حکم دیا۔
تاہم بائیڈن انتظامیہ کے وکلا نے عدالت میں کہا کہ انتظامیہ 2022 کے موسم خزاں سے پہلے ان درخواستوں سے نمٹ نہیں سکے گی۔
لاٹری ویزے کا طریقہ کار
1990 کا امیگریشن قانون ریاستہائے متحدہ امریکہ میں تارکین وطن کے درمیان تنوع کو بڑھانے کے لیے بنایا گیا تھا، پروگرام میں درخواست دینے میں دلچسپی رکھنے والوں کے پاس کم از کم ہائی اسکول کی ڈگری یا کسی پیشے میں کام کا دو سال کا تجربہ ہونا چاہیے۔
لاٹری ویزہ جیتنے والوں کو عام طور پر جولائی میں ایک ای میل یا خط موصول ہوتا ہے جس میں انہیں مطلع کیا جاتا ہے کہ وہ جیت گئے ہیں۔ پھر وہ ایک مکمل درخواست جمع کراتے ہیں اور انہیں یکم اکتوبر تک اپنے قریبی امریکی قونصل خانے میں انٹرویو دینا ہوتا ہے۔ اور چونکہ ویزہ کی اہلیت اگلے سال میں منتقل نہیں ہوتی، اس لیے یہ سارا عمل ایک سال میں ہونا ضروری ہوتا ہے۔
امریکی محکمہ خارجہ کے تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ سال ایک کروڑ 30 لاکھ سے زائد افراد نے اس پروگرام کے لیے درخواست دی تھی۔
ویزہ لاٹری کے سب سے بدقسمت افراد
اس پروگرام کی 30 سالہ تاریخ میں پچھلے کچھ برسوں میں جیتنے والے شاید سب سے بدقسمت افراد وہ سینکڑوں افغان شہری ہوں گے، جو افغانستان سے امریکہ کے انخلا اور سفارت خانے کی بندش سے طالبان کے کنٹرول والے اس ملک میں پھینس گئے ہیں، جہاں وہ خود کو خطرات میں گھرا ہوا محسوس کرتے ہیں۔
ڈائیورسٹی ویزا جیتنے والے ایک 33 سالہ افغان باشندے'ایچ' نے کہا کہ تمام ضروری دستاویزات بھیجنے کے باوجود وہ اور ان کا خاندان ایک سال سے ویزہ انٹرویو کا انتظار کر رہے ہیں۔
انہوں نے وی او اے کو ایک ٹیکسٹ میں بتایا، "اس ملک میں اب زندگی کی کوئی امید نہیں ہے۔"
محکمہ خارجہ کے ایک ترجمان نے بدھ کو وی او اے کو ای میل کے ذریعے بتایا ہے کہ اگرچہ امریکی حکومت "فی الحال" افغانستان میں تارکین وطن کے ویزوں کے لیے قونصلر خدمات فراہم کرنے سے قاصر ہے، لیکن وہ متبادل طریقے وضع کر رہے ہیں۔
ترجمان نے کہا، "تارکین وطن ویزہ کے درخواست دہندگان کو تازہ ترین معلومات کے لیے امریکی حکومت کی سرکاری ویب سائٹس بشمول travel.state.gov پر نظر ڈالنی چاہیے۔"
'ایچ' نے کہا کہ اس نے امریکی افسران اور سابق افغان حکومت کی مدد کی تھی، اس کا پورا خاندان اس وقت روپوش ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ صرف اس کی بیوی یا ساس کھانا خریدنے کے لیے باہر جاتی ہیں۔
بقول ان کے، "میں نے آپ کو اپنی زندگی کی حقیقت لکھی ہے۔ میری خواہش ہے کہ ویزہ انٹرویو آن لائن اور الیکٹرانک ہو، تاکہ ہم اپنی نئی زندگی اور گھر تک آرام سے سفر کر سکیں''۔