کیا آپ سوچ سکتے ہیں کہ ڈیجیٹیل ڈیٹا آپ کے ’ڈی این اے‘ میں محفوظ کیا جا سکتا ہے جو انسانوں کو پہلے سے زیادہ ذہین بنا سکتا ہے۔
یہ کسی سائنس فکشن فلم کی کہانی معلوم ہوتی ہے۔ لیکن، سائسندان واقعی ایک ایسی ٹیکنالوجی پر کام کر رہے ہیں جس میں انسانی جینز میں رد و بدل کرکے اس میں معلومات محفوظ کی جا سکیں گی۔
امریکی ریاست کیلی فورنیا میں ’زائمرجن‘ نامی کمپنی کی لیبارٹری میں کیے جانے والے تجربات ایسے ہیں جو آج سے کچھ سال پہلے تک انسان سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔ شریک بانی جاشوا ہافمین کا کہنا ہے کہ مشینیں حیاتیات میں ایسی چیزیں دیکھ سکتی ہیں جو انسان کبھی نہیں دیکھ سکا۔ چونکہ زائمرجن نامی مشین کمپیوٹر کی مدد سے ایسے تجربات کر سکتی ہے جن میں انسانی جین میں رد و بدل کیا جاسکتا ہے، ان میں بننے والے کیمیکلز طاقتور مواد بنا سکیں گے۔
ان کا کہنا ہے کہ وہ ایسے ہی خودکار طریقوں اور مشینوں کی مدد سے ایک خلیے پر مشتمل خوردبینی جرثوموں کو مستقبل کی کیمیکل فیکٹریز بنانے پر کام کررہے ہیں، جس میں زیادہ تر کام زرعی کمپنیوں کے لیے کیمیکلز اور دیگر مواد کا ہے۔ اس کے ذریعے وہ فصلوں کی حفاظت کرنے والی ادویات کو زیادہ موثر بنانے پر بھی کام کر سکتے ہیں۔
سائسندان اور ماہر اعصاب، ووین منگ کا کہنا ہے کہ اسے طریقے کو استعمال کرکے خوردبینی جرثوموں کی بجائے انسانی دماغ کی کارکردگی کو بہتر بنایا جا سکتا ہے۔ ان کے بقول، ’’میں انسانی ذہن کو مصنوعی آلات فراہم کرنے کی بات کر رہی ہوں۔ کیا میں آپ کے دماغ میں کسی چیز کا اضافہ کرکے آپ کو ذہین بنا سکتی ہوں؟ آپ ایک لمحے میں کسی بھی چیز کے بارے میں کتنا سوچ سکتے ہیں اس پر کتنی توجہ اور توانائی لگا سکتے ہیں؟ ہم اس کارکردگی میں پندرہ فیصد تک اضافہ کرسکتے ہیں‘‘۔
دنیا بھر میں دماغ کو مصنوعی طور پر متحرک کرنے کے بارے میں تحقیق کی جا رہی ہے، جس سے ممکن ہے کہ دماغ کی cognitive یعنی سمجھنے کی صلاحیت میں اضافہ بھی کیا جا سکے۔
وویوین منگ کا کہنا ہے کہ یہ ٹیکنالوجی غریب بچوں کے لیے فائدہ مند ثابت ہو سکتی ہے۔ ان کے مطابق، اس ایک گھنٹے میں جو شاید بچے علاج کی خاطر ایک کلاس میں گزارتے ہیں، اس ٹیکنالوجی کی مدد سے ہم انھیں عام بچوں کی سطح پر لاسکتے ہیں۔
بیالوجی کی ہی فیلڈ میں کام کرنے والےہیان جون پارک اور ان کی کمپنی کیٹالوگ مصنوعی ڈی این اے بناتی ہے جس میں ڈیجیٹل ڈیٹا محفوظ کیا جاسکتا ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ ہم ایک معاشرے کے طور پر فائیو جی وائرلیس نیٹورک سے، انٹرنیٹ، ہائی ڈیفینیشن ویڈیوز اور سوشل میڈیا سے بہت سا ڈیٹا تخلیق کرتے ہیں، اورر سال دو ہزار پچیس تک ہمارے پاس بہت زیادہ اور فائدہ مند ڈیٹا اکٹھا ہو جائے گا۔ لیکن، کیا ہمارے پاس اسے محفوظ کرنے کی گنجائش ہوگی؟ اس لیے، ہمیں ایک نئے ذریعے کی کی ضرورت ہے جو موجودہ حل سے بہتر ہو۔ اور وہ ہے ڈی این اے میں ڈیٹا محفوظ کرنا کیونکہ ڈیٹا محفوظ کرنے کے موجودہ طریقوں کی نسبت مصنوعی ڈی این اے میں بہت زیادہ معلومات محفوظ کی جاسکیں گی، جو ہزاروں سال تک محفوظ رکھی جا سکتی ہیں۔
اور چونکہ ان کی کمپنی نے کم خرچ میں یہ کرنے کا طریقہ ڈھونڈ لیا ہے، اسی لیے سلیکیون ویلی کے سرمایہ کار بھی اس شعبے میں دلچسبی ظاہر کر رہے ہیں اور کیوں نا کریں۔ یہ ایک ایسی ایجاد ہے جو سائنس فکشن کو سائنسی حقیقت میں بدل دے گی۔