ڈی این اے ٹیسٹ نے 70 سال بعد ملا دیا

نیشنز پاپولیسن فنڈ کی ایک لیبارٹری میں ایک ٹیکنیشین فادومو یوسف ڈی این اے ٹیسٹنگ کر رہی ہیں۔ جنوری 2018

ڈی این اے کے ایک ٹیسٹ نے ایک 72 سالہ فرانسیسی شخص کو امریکہ میں مقیم اس کے سوتیلے بھائی سے ملوا دیا، جو ایک دوسرے سے قطعی طور پر لاعلم تھے اوراس سے پہلے ان کے درمیان کبھی بھی کوئی تعلق نہیں رہا تھا۔ دونوں کی عمروں میں 7 سال کا فرق ہے اور ان کی مائیں مختلف ہیں۔

اس کہانی کی ابتدا 55 سال پہلے اس وقت جب اینڈر گانتویس 15 سال کا تھا اور بسترمرگ پر اس کی ماں نے صرف اتنا بتایا تھا کہ اس کا باپ فرانسیسی نہیں بلکہ ایک امریکی فوجی تھا جسے یہاں ہزاروں فوجیوں کے ساتھ نازیوں سے لڑنے کے لیے بھیجا گیا تھا۔ گانتویس کی ماں نے اسے بتایا کہ جب وہ واپس جا رہا تھا تو میں نے اسے یہ نہیں بتایا تھا کہ وہ باپ بننے والا ہے۔ یہ قصہ ہے سن 1944 دوسری جنگ عظیم کا۔

گانتویس نے اپنے بچپن اور لڑکپن کے 15 سال باپ کی شفقت کے بغیر گزارے تھے، اور اس کی ماں نے اسے باپ کے بارے میں کبھی کچھ نہیں بتایا۔

ماں کے انتقال کے بعد گانتویس پر ایک ہی دھن سوار ہو گئی کہ وہ اپنے باپ سے مل کر رہے گا۔ اس نے پیرس میں امریکی سفارت خانے سے رابطہ کیا اور اپنے باپ کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کی کوشش کی لیکن کچھ حاصل نہ ہوا۔ اس نے اپنی کوششیں جاری رکھیں اور ہر اس جگہ رابطہ کیا جہاں سے اسے دوسری جنگ عظیم میں امریکہ سے بھیجے جانے والے اتحادی فوجیوں کے متعلق پتا چل سکتا تھا۔ پچاس برس کی یہ تلاش سمندر میں سوئی ڈھونڈنے کے مترادف تھی۔ لیکن گانتویس نے ہمت نہ ہاری۔

اس نے خبررساں ادارے اے ایف پی کو بتایا کہ کچھ عرصہ قبل سوتیلی بہن نے اسے بتایا کہ امریکہ میں قائم ایک ڈی این اے کی کمپنی خاندان کے افراد کا کھوج لگانے میں مدد دیتی ہے۔

گانتویس نے’ مائی ہیریٹیج ‘نامی کمپنی سے رابطہ کیا۔ ان سے کچھ دستاویزات اور دیگر معلومات کا تبادلہ ہوا جس کے بعد کمپنی نے بتایا کہ اس کے ڈی این اے کاامریکی ریاست ساؤتھ کیرولائنا میں ایک میچ موجود ہے۔ اس کا نام ایلن ہیڈرسن ہے اور وہ اس سے سات سال چھوٹا ہے۔ ڈی این اے رپورٹ کے مطابق وہ اس کا سوتیلا بھائی ہے۔

سوتیلے بھائی کا انکشاف کسی معجزے سے کم نہیں تھا۔ ہوا یوں کہ ’ مائی ہیریٹیج ‘کمپنی نے فاکس نیوز چینل پر ایک پروگرام شروع کیا جس کا مقصد پروگرام میں شرکت کرنے والوں کے آباؤاجداد کا پتا لگانا تھا۔ اتفاق سے ہینڈرسن بھی ایک شو میں شریک ہوا اور اس کا ڈی این اے لیا گیا۔ چند ہفتوں کے بعد ہنڈرسن کو بتایا گیا کہ اس کا ایک سوتیلا بھائی فرانس میں رہتا ہے۔

ہنڈرسن کے دل میں بھی اپنے ان دیکھے سوتیلے بھائی سے ملنے اور دیکھنے کا شوق پیدا ہوا ۔ دونوں بھائیوں کے درمیان رابطہ ہوا تو گانتویس کو پتا چلا کہ اس کے والد کا 1997 میں انتقال ہو گیا تھا۔ اور وہ اس حقیقت سے بے خبر تھا کہ جب اس نے فرانس چھوڑا تو ایرین ماں بننے والی تھی۔

دونوں سوتیلے بھائیوں کے درمیان پہلی ملاقات 24 ستمبر کو ہوئی۔ لیکن یہ ایک مشکل ملاقات تھی کیونکہ گانتویس کو انگریزی اور ہیندرسن کو فرانسیسی نہیں آتی تھی اور انہیں آپس میں بات چیت کے لیے ایک مترجم کی مدد لینی پڑی۔ تاہم اب وہ انگریزی سیکھ رہا ہے۔

گانتویس نے میڈیا کو بتایا کہ ہینڈرسن سے معلوم ہوا کہ میں اپنے باپ کی ہو بہو نقل ہوں۔ میرے مسکرانے کا، بات کرنے کا، چلنے پھرنے کا انداز ہو بہو وہی ہے جو میرے والد کا تھا۔ حتیٰ کہ میرا قدکاٹھ اور رنگ روپ بھی والد جیسا ہی ہے۔

گانتویس نے بتایا کہ اس کا سوتیلا بھائی بھی بالکل اسی جیسا ہے۔ حتی ٰ کہ عادتیں بھی ملتی ہیں۔ اس نے بھی ایک کالی بلی پالی ہوئی ہے اور وہ بھی چار خانوں کے پرنٹ والی شرٹ پہنتا ہے۔

امریکہ آنے کے بعد گانتویس کو صرف سوتیلا بھائی ہی نہیں بلکہ ایک بہن بھی مل گئی ہے۔ اس کا نام جوڈی اور عمر 70 سال ہے۔ وہ اپنے والد سے تو نہیں مل سکا لیکن اس نے لاس اینجلس کے قبرستان میں ان کی قبر پر حاضری دی ہے۔

دوسری جنگ عظیم کے دوران یورپ میں امریکی اتحادی فوجیوں کی آمد اور نازیوں کی فتح اور پھر پسپائی نے اپنے پیچھے ایسی بہت سی کہانیاں چھوڑی ہیں۔ اس بارے میں تو معلومات دستیاب نہیں ہیں کہ امریکی واپس جاتے ہوئے اپنے پیچھے کتنے بچے چھوڑ گئے تھے تاہم سرکاری اعداد و شمار کے مطابق ان یورپی ملکوں میں جنہیں نازی بوٹوں نے روندا تھا، جرمن فوجیوں کے ناجائز بچوں کی تعداد 2 لاکھ سے زیادہ ہے۔