کیا کرونا وائرس دماغ کو نقصان پہنچا سکتا ہے؟

  • مدثرہ منظر

فائل

کروناوائرس کے بارے میں جوں جوں تحقیق اور مشاہدات سامنے آرہے ہیں اس سے انسان کو پہنچنے والے نقصانات کی شدت کا اندازہ ہو رہا ہے۔

ایک تازہ ترین تحقیق سے ظاہر ہوا ہے کہ کووڈ نائنٹین مریضوں کے دماغ کو بھی شدید نقصان پہنچا سکتا ہے۔

Your browser doesn’t support HTML5

کیا کرونا وائرس دماغی صلاحیت متاثر کرسکتا ہے؟

خبر رساں ادارے رائٹرز نے اطلاع دی ہے کہ یونیورسٹی کالج لندن کی ایک تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ کووڈ نانٹین کے 43 کیسز کے مطالعے سے پتا چلا ہے کہ ان مریضوں کو سٹروک ہوا، ان کے اعصاب کو نقصان پہنچا یا دیگر کوئی دماغی بیماری لاحق ہوگئی۔

اب تک کووڈ نائنٹین کو ایسی ہی بیماری سمجھا جا رہا تھا کہ جیسے یہ سانس کی بیماری ہو اور پھیپھڑوں کو نقصان پہنچاتی ہو، مگر اب نیورو سائنٹسٹ اور برین سپیشلسٹ اس کے دماغ پر ہونے والے اثرات کو دیکھ کرتشویش محسوس کر رہے ہیں۔

کینیڈا کی ویسٹرن یونیورسٹی کے نیورو سائنٹسٹ ایڈرین اووین نے تو اس تشویش کا اظہار بھی کیا ہے کہ دنیا میں لاکھوں افراد کے کووڈ نائنٹین میں مبتلا ہونے کے بعد اگر ایک سال کے عرصے میں صحتیاب ہونے والے دس ملین افرد کی بھی ذہنی صلاحیت بگڑتی ہے تو یہ ان کی نہ صرف روز مرہ زندگی کو متاثر کرے گی بلکہ ان کی کام کرنے کی صلاحیت بھی متاثر ہو گی۔ یونیورسٹی کالج لندن کا یہ مطالعہ ایک مؤقر جریدے، 'برین' میں شائع ہوا ہے۔

اس کے بارے میں ایریزونا کی مڈ ویسٹرن یونیورسٹی میں اسسٹنٹ پروفیسر اور نیورالوجسٹ ڈاکٹر فرخ قریشی کا کہنا ہے کہ ہمیں یہ تو علم ہو گیا تھا کہ کرونا وائرس سے فالج یا سٹروک بھی ہو سکتا ہے خاص طور پر نوجوانوں میں مگر اس مطالعے میں خاص طور پر جس بیماری کا ذکر کیا گیا ہے وہ اے ڈی ای ایم یا اکیوٹ ڈیمائلیٹنگ اینسی فیلو مائی لائٹس کہلاتی ہے اور زیادہ تر بچوں میں پائی جاتی ہے۔ بڑوں میں کبھی کبھار ہی دیکھی جاتی تھی اس کے مریضوں کی تعداد اب بڑھ گئی ہے۔

انہوں نے بتایا کہ یہ بیماری دماغ اور سپائنل کورڈ دونوں کو متاثر کرتی ہے۔ مختلف لوگوں میں اس کی علامات مختلف ہوتی ہیں۔ لیکن سب سے زیادہ عام علامتیں ہیں غنودگی، نیند، کنفیوژن، ہیلیو سی نیشن، جسم کے دائیں یا بائیں حصے یا بازو میں کمزوری اور جس حصے میں سپائنل کورڈ متاثر ہوئی ہو اس سے نچلا دھڑ کمزور یا سن ہو سکتا ہے۔ نظر دھندلی ہو سکتی ہے اور یہ سب علامات ایک ساتھ ہو سکتی ہیں۔

ڈاکٹر عدنان قریشی یونیورسٹی آف مزوری میں پروفیسر آف نیورولوجی ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اے ڈٰی ای ایم تب ہوتا ہے کہ جب وائرس جسم میں داخل ہوتا ہے تو جسم میں اینٹی باڈیز پیدا ہوتی ہیں جو ایک معمول کا ردعمل ہے۔ لیکن بعض اوقات یہی اینٹی باڈیزوائرس اور دماغ کے خلیات میں تمیز نہیں کر پاتیں اور دماغ پر حملہ کر دیتی ہیں۔ دماغ میں موجود پروٹین پر ان کا حملہ گویا جسم کا اپنے ہی دفاعی نظام پر حملہ بن جاتا ہے۔

ڈاکٹر فرخ قریشی نے بتایا کہ دماغ کی ان بیماریوں کا اس بات سے کوئی تعلق نہیں ہے کہ مریض میں کووڈ نائنٹین کی شدت کیا تھی۔ بلکہ بعض اوقات تو یہ کرونا وائرس کی علامات ظاہر ہونے کے بعد سامنے آتی ہیں اور بعض اوقات کووڈ کی کوئی علامات ہی نہیں ہوتیں یا پھر مریض کووڈ سے صحتیاب ہو چکا ہوتا ہے۔

ڈاکٹر عدنان قریشی کہتے ہیں کہ دماغ کی ان بیماریوں کے اثرات کم سے کم بھی ہیں اور بہت زیادہ بھی۔ انہوں نے کہا کہ بعض اوقات مریض کو صرف سر میں درد محسوس ہوتا ہے ۔ انھوں نے بتایا کہ حال ہی میں کرونا کے چار سو مریضوں کا مطالعہ کیا جن میں سے ایک چوتھائی نے سر میں درد کی شکایت کی مگر یہ شکایت عارضی تھی لیکن جیسا کہ جریدے برین کے اس مضمون میں بتایا گیا ہے، ایسا ہو سکتا ہے کہ مریض کے دماغ کو ایسا نقصان پہنچے کہ وہ مستقل طور پر دماغی معذوری کا شکار ہو جائے۔

رائٹرز کے مطابق کینیڈا کی ویسٹرن یونیورسٹی کے نیورو سائنٹسٹ ایڈرین اووین کا کہنا ہے کہ جو مطالعہ سامنے آیا ہے اس نے اس بات کی اہمیت بڑھا دی ہے کہ بین الاقوامی سطح پر وسیع تحقیق کی جائے کہ کووڈ نائنٹین سے دماغی اور نفسیاتی طور پر کیا نقصانات ہو رہے ہیں۔

ڈاکٹر عدنان قریشی نے کہا کہ کووڈ کے مریضوں میں دماغی نقصان کا پتہ لگانا آسان نہیں ہے۔ کیونکہ اس کیلئے ان کا ایم آر آئی کرنا ہو گا اس کے علاوہ کوئی آسان ٹیسٹ موجود نہیں۔ لیکن ابھی شاید اس کی نوبت نہیں آئی کیونکہ اب بھی کووڈ نائنٹین دماغ کی نہیں پھیپھڑوں کی بیماری ہے۔

یونیورسٹی آف ایریزونا کے اسسٹنٹ پروفیسر اور نیورالوجسٹ ڈاکٹر فرخ قریشی نے کہا ہے کہ کرونا وائرس کی وبا کے بارے میں ابھی معلومات سامنے آرہی ہیں۔ انہوں نے جریدے 'برین' کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اس میں ایک اچھی خبر یہ ہے کہ اگرچہ کچھ اموات بھی ہوئیں مگر بعض لوگ دواؤں سے بہتر ہو گئے۔ اس کے بارے میں یہ بھی کہا گیا کہ لوگوں کو جزوی صحت ہوئی ہے۔ مگر چونکہ ابھی پورے اعدادوشمار موجود نہیں ہیں اس لئے ہو سکتا ہے وقت کے ساتھ جزوی طور پر صحت پانے والے لوگ مکمل صحتیاب ہو جائیں۔

دونوں ماہرین کے مطابق، کووڈ نائنٹین سب کیلئے نئی بیماری ہے۔اس سے جسم کا کوئی بھی حصہ متاثر ہو سکتا ہے اور علاج کوئی موجود نہیں اس لئے دماغی نقصان سے بچنے کیلئے بھی وہی احتیاطی تدابیر اختیار کرنا ہوں گی جو کرونا وائرس سے بچنے کے لئے سوشل ڈسٹینسنگ، ماسک کا استعمال اور ہاتھ بار بار دھونا ضروری ہیں۔ ایک طاقتور مگر اندھے دشمن سے مقابلے کے اس سے زیادہ کارآمد ہتھیار شاید اور کوئی نہیں ہو سکتے۔