|
امریکی اسٹاک مارکیٹ ڈاؤ (DOW) کے اسٹاکس میں پیر کے روز ان خدشات کے بعد 860 پوائنٹس کی شدید کمی ہوئی کہ امریکہ کی سست ہوتی ہوئی معیشت کساد بازاری کی جانب بڑھ رہی ہے۔ اسٹاکس گرنے سے دنیا بھر میں حصص کی منڈیوں میں سرمایہ کاروں نے تیزی سے اپنے حصص فروخت کرنے شروع کر دیے۔
ڈاؤ، کا اصل نام ڈاؤ جونز انڈسٹریل ایوریج ہے جسے اختصار کے طور پر صرف ڈاؤ کہا جاتا ہے۔ یہ 30 معروف امریکی کمپنیوں کا ایک گروپ ہے جو امریکہ کی اسٹاک ایکس چینج کمپنیوں میں اسٹاک مارکیٹ انڈیکس کے طور پر رجسٹرڈ ہے۔
نیویارک کی اسٹاک ایکس چینج ’وال سٹریٹ‘ میں پیر کے روز تقریباً ہر کمپنی کے حصص گرتے ہوئے دکھائی دیے اور سرمایہ کاروں پر یہ خوف غالب رہا کہ امریکی معیشت کی سست روی تیز تر ہو رہی ہے۔
امریکی اسٹاک ایکس چینج میں اتار چڑھاؤ دنیا بھر کی مالی منڈیوں پر اثر اندازہوتا ہے۔
بازار حصص میں پیر کی دوپہر S&P 500 کی خرید و فروخت میں 2.4 فی صد کی کمی ہوئی جو 2022 کے بعد سے کاروبار کا خراب ترین دن تھا۔ S&P 500 اصل میں 500 سے زیادہ بڑی کمپنیوں کا Standard and poor’s 500 نامی گروپ ہے ، جس کے حصص کی قیمت کا اتار چڑھاؤ اسٹاک مارکیٹ پر اثرانداز ہوتا ہے۔
امریکی اسٹاکس کی گراوٹ نے جاپان کے بازار حصص نکئی 225 کو بطور خاص متاثر کیا اور پیر کو اس میں 12.4 فی صد کی کمی ہوئی جو 1987 کے بعد سے کم ترین گراوٹ تھی۔
اسی طرح جنوبی کوریا کے کوسپی انڈیکس میں 8.8 ٖفی صد کی کمی ہوئی۔ یورپ کی منڈیاں 2 فی صد سے زیادہ گر گئیں۔
بٹ کوائن 61000 ڈالر سے غوطہ لگا کر 55000 ڈالر پر آ گیا۔
سب سے حیران کن بات یہ ہے کہ سونے کی قیمت بھی ایک فی صد گر گئی۔ جب کہ سونا ایک ایسی چیز ہے جو مارکیٹ کے عدم استحکام میں اپنی قدر برقرار رکھتا ہے۔
کئی اقتصادی ماہرین کا کہنا ہے کہ جاپان اور دیگر ملکوں کی اسٹاک مارکیٹوں پر پیر کے روز ظاہر ہونے والے منفی اثرات جمعے کی اس رپورٹ کا ردعمل ہے جس میں بتایا گیا تھا کہ روزگار فراہم کرنے والی امریکی کمپنیوں نے پچھلے مہینے سے کارکنوں کی بھرتیاں اس سے بھی کہیں کم کر دیں ہیں جتنا کہ معاشی ماہرین توقع کر رہے تھے۔
اس کے ساتھ ساتھ حالیہ عرصے میں کئی کمپنیوں نے اپنے ہزاروں ملازم نکال دیے ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ کمپنیاں یہ کارروائی معیشت کے مزید سست ہونے کے خطرے کے پیش نظر کر رہی ہیں۔
حالیہ عرصے میں امریکہ کے مرکزی بینک فیڈرل ریزو نے افراط زر کو بڑھنے سے روکنے کے لیے سود کی شرح میں اضافہ کر دیا تھا۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اس کے منفی اثرات مارکیٹ کو متاثر کر رہے ہیں۔
آجروں نے اخراجات میں اضافہ ہونے سے اپنی چیزوں کی قیمتیں بڑھانا شروع کر دی ہیں۔ جس سے مہنگائی ہو رہی ہے اور نتیجتاً خریداریوں میں کمی آ رہی ہے اور معیشت میں اضافہ رک گیا ہے۔
معیشت سے متعلق ایک کمپنی انیکس ویلتھ منیجمنٹ کے چیف اکانومسٹ برائن جیکب سن کہتے ہیں کہ فیڈرل ریزو، سود کی شرح گھٹا کر اس صورت حال کو روک سکتا ہے۔ کیونکہ ایسے اقدامات ہنگامی صورت حال مثال کے طور پر کوویڈ اور بے روزگاری میں غیر معمولی اضافے کی صورت میں کیے جاتے ہیں۔
گولڈ مین سیکس گروپ کے ماہر اقتصادیات ڈیوڈ مریسل کا خیال ہے کہ جمعے کو ملازمتوں کے بارے میں رپورٹ اس جانب اشارہ کرتی ہے کہ اگلے 12 مہینوں کے دوران کساد بازاری کا امکان بڑھ گیا ہے۔تاہم ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس وقت یہ امکان 25 فی صد ہے جب کہ رپورٹ کی اشاعت سے پہلے اس خطرے کی سطح 15 فی صد تھی۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ کمپنیوں کے منافع، سود کی شرح اور معیشت پر بیرونی معاملات نمایاں اثرات ڈالتے ہیں۔ مثال کے طور پر اسرائیل حماس جنگ کی بگڑتی ہوئی صورت حال، جس کے نتیجے میں تیل کی قیمتں بڑھ سکتی ہیں اور اس کا اثر دنیا بھر کی معیشت لے سکتی ہے۔ اسی طرح معیشت پر اثرات کے حوالے سے امریکہ کے صدارتی انتخابات کی صورت حال کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔
(وی او اے نیوز)