امریکہ کی حکمراں جماعت ڈیموکریٹک پارٹی کے 75 ارکان نے منگل کو بذریعہ خط صدر جو بائیڈن پر زور دیا ہے کہ وہ واشنگٹن کا سرکاری دورہ کرنے والے بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کے ساتھ انسانی حقوق کے معاملات پر بات کریں۔
امریکی قانون سازوں نے کہا ہے کہ وہ بھارت میں مذہبی عدم رواداری، پریس کی آزادی، انٹرنیٹ تک رسائی اور سول سوسائٹی کے گروپوں کو ہدف بنانے کے بارے میں فکر مند ہیں۔
سینیٹر کرس وان ہولن اور پرمیلا جے پال کی قیادت میں بھیجے جانے والے اس خط میں بائیڈن پر زور دیا گیا ہےکہ "بھارت کے وزیرِ اعظم نریندر مودی سے ملاقات کریں تو دونوں ملکوں کے درمیان باہمی دلچسپی اور تعاون کے متعدد امور پر بات چیت کے ساتھ انسانی حقوق، میڈیا کی آزادی، مذہبی آزادیوں جیسے معاملات پر بھی بات کریں جو امریکی خارجہ پالیسی کے بنیادی اصول ہیں۔"
خط میں کہا گیا ہےکہ "ہم کسی مخصوص بھارتی رہنما یا سیاسی جماعت کی حمایت نہیں کرتے کیوں کہ یہ بھارت کے لوگوں کا فیصلہ ہے لیکن ہم ان اہم اصولوں کی حمایت میں کھڑے ہیں جنہیں امریکی خارجہ پالیسی کا بنیادی حصہ ہونا چاہیے۔"
مودی منگل کو دورے کے لیےامریکہ پہنچے ہیں اور جمعرات کو ان کی امریکی صدر جو بائیڈن سے وائٹ ہاؤس میں ملاقات شیڈول ہے۔ ان کے اس دورے کو دونوں ملکوں کے تعلقات میں ایک سنگ میل سے تعبیر کیا جا رہا ہے۔
SEE ALSO: بھارتی وزیرِ اعظم کا دورۂ امریکہ، دو طرفہ تعلقات میں جغرافیائی سیاست کا اہم کردارواضح رہے کہ نریندر مودی 2014 میں بھارت کے وزیرِ اعظم بننے کے بعد سے پانچ بار امریکہ جا چکے ہیں لیکن ان کا موجودہ دورہ مکمل سفارتی حیثیت کے ساتھ پہلا دورہ ہے جسے امریکہ میں اسٹیٹ وزٹ کہا جاتا ہے۔
خط کے مطابق "ہم امریکہ اور بھارت کے عوام کے درمیان دوستانہ تعلقات چاہتے ہیں اور یہ دوستی ہمارے بہت سے مشترکہ مفادات ہی نہیں، مشترکہ اقدار پر استوار ہو۔"
کل 75 ڈیموکریٹک سینیٹرز اور ایوان نمائندگان کے ارکان نے اس خط پر دستخط کیےہیں جو منگل کو وائٹ ہاؤس کو بھیجا گیا تھا۔
امریکی حقوق سے متعلق کئی امریکی گروپ مودی کے دورے کے دوران احتجاجی مظاہروں کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں۔
Your browser doesn’t support HTML5
واشنگٹن دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کے ساتھ قریبی تعلقات کی امید رکھتا ہے، جسے وہ چین کے خلاف ایک توازن کے طور پر دیکھتا ہے، لیکن انسانی حقوق کے حامیوں کو خدشہ ہے کہ جغرافیائی سیاست انسانی حقوق کے مسائل پر غلبہ حاصل کر لے گی۔
امریکی محکمۂ خارجہ کی مارچ میں جاری کی جانے والی انسانی حقوق کی پریکٹسز سے متعلق سالانہ رپورٹ میں بھارت میں 'انسانی حقوق کےنمایاں مسائل اور زیادتیوں' کو شامل کیا گیا تھا۔
بھارتی وزیرِ اعظم جمعرات کو ایوان اور سینیٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کریں گے، جو واشنگٹن کی جانب سے غیر ملکی زعما کو دیا جانے والا سب سے بڑا اعزاز ہے۔
صدر بائیڈن کے نام کانگریس ارکان کے خط میں دونوں ملکوں کے مستحکم تعلقات کی توثیق کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ بھارت کے ساتھ مضبوط تعلقات کے حامی ہونے کے ساتھ ساتھ ہم اس بات پر بھی یقین رکھتے ہیں کہ دوستوں کو ایک دوسرے کے ساتھ اختلافات بھی ایماندارانہ اور واضح انداز میں زیرِ بحث لانے چاہیئں۔
SEE ALSO: مودی کے دورہ امریکہ سے قبل واشنگٹن میں بی بی سی کی ڈاکیومینٹری کی اسکریننگڈیموکریٹک ارکان نے اپنے خط میں بھارت میں انسانی حقوق کی صورتِ حال پرتشویش کا اظہار کیا ہے اور کہا ہے کہ "غیر جانبدارانہ اور قابل بھروسہ رپورٹوں کا ایک سلسلہ بھارت کے اندر کم ہوتی سیاسی آزادیوں، بڑھتی ہوئی مذہبی عدم برداشت، سول سوسائٹی اور صحافیوں کی تنظیموں کے ہدف بنائے جانے کو ظاہر کرتا ہے۔ آپ بجا طور پر یہ کہہ چکے ہیں کہ امریکہ کو اپنی طاقت کی مثال سے نہیں بلکہ مثال کی طاقت سے قیادت کرنی چاہیے۔"
مودی کے واشنگٹن پہنچنے سے پہلے صحافیوں سے بات کرتے ہوئے امریکہ کی قومی سلامتی کے ترجمان جان کربی نے اس بات پر تبصرہ کرنے سے انکار کر دیا تھا کہ آیا بائیڈن مہمان وزیرِ اعظم کے سامنے انسانی حقوق کا معاملہ اٹھائیں گے۔