ڈاکٹر مغیث کا انتقال، 'صحافت ایک عظیم اُستاد سے محروم ہو گئی'

ڈاکٹر مغیث الدین شیخ (فائل فوٹو)

جامعہ پنجاب کے سابق ڈین اور ادارہ علوم ابلاغیات کے سابق ڈائریکٹر پروفیسر ڈاکٹر مغیث الدین شیخ کرونا وائرس کے باعث بدھ کو لاہور میں انتقال کر گئے۔ اِن کی وفات پر صحافیوں، سیاسی اور سماجی شخصیات نے دکھ اور غم کا اظہار کیا ہے۔

پروفیسر ڈاکٹر مغیث الدین شیخ کے صاحبزادے علی طاہر مغیث شیخ نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ اُن کے والد 10 روز قبل کرونا وائرس کا شکار ہوئے تھے۔ پہلے تو اُنہوں نے خود کو گھر میں ہی قرنطینہ کر لیا۔ لیکن طبیعت زیادہ بگڑنے پر اُنہیں اسپتال منتقل کیا گیا جہاں وہ چار روز داخل رہے لیکن اُن کی طبیعت میں بہتری نہ آ سکی۔

علی طاہر مغیث خود بھی مختلف کالجز اور یونیورسٹیز میں پڑھاتے ہیں۔ اُن کے بقول وہ اپنے والد کے نام سے مستحق طلبہ کے لیے اسکالر شپ پروگرام شروع کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں تاکہ ان کے والد کا مشن جاری رہے۔

ڈاکٹر مغیث الدین شیخ یکم جنوری 1951 کو لاہور میں پیدا ہوئے۔ وہ 2003 سے 2009 تک ادارہ علومِ ابلاغیات کے ڈائریکٹر تعینات رہے۔ 2005 سے 2011 تک پنجاب یونیورسٹی کے ڈین آف فیکلٹی آف بیہیویرل اینڈ سوشل سائنسز رہے۔

ڈاکٹر مغیث 2002 سے 2005 تک چیئرمین ہال کونسل پنجاب یونیورسٹی تعینات رہے۔ وہ 2006 سے 2007 تک اسٹوڈنٹ ایڈوائزری کمیٹی کے چیئرمین بھی رہے۔ انہوں نے امریکہ کی یونیورسٹی آف آئیووا سے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔

پروفیسر مغیث نے 1976 میں پنجاب یونیورسٹی سے ایم اے صحافت اور 1977 میں ایم اے سیاسیات کیا۔ انہوں نے آسٹریا میں دو مرتبہ میڈیا اینڈ گلوبلائزیشن میں پوسٹ ڈاکٹریٹ فیلو شپ بھی کی۔

ڈاکٹر مغیث الدین نے 1976 میں گومل یونیورسٹی سے بطور لیکچرر اپنے تدریسی سفر کا آغاز کیا۔ 1982 میں انہوں نے پنجاب یونیورسٹی شعبہ صحافت کو بطور اسسٹنٹ پروفیسر جوائن کیا۔ 1998 میں ترقی پا کر ڈاکٹر مغیث پنجاب یونیورسٹی میں پروفیسر تعینات ہو گئے۔

وہ 40 سال سے زائد صحافت کے استاد رہے۔ وہ ناروے کی اوسلو یونیورسٹی کالج میں بھی پڑھاتے رہے۔

اُنہیں پاکستان میں 2005 میں زلزلہ زدگان کے لیے ہنگامی بنیادوں پر ایف ایم ریڈیو قائم کرنے پر اقوامِ متحدہ نے بھی ایوارڈ سے نوازا۔ اس کے علاوہ بھی دنیا کے مختلف تعلیمی اداروں اور ریسرچ سینٹرز نے ڈاکٹر مغیث کی خدمات کو سراہا اور اُنہیں کئی ایوارڈز سے نوازا گیا۔

ڈاکٹر مغیث الدین شیخ مختلف مواقع پر پاکستان میں ایک میڈیا یونیورسٹی کے قیام کی خواہش کا اظہار کرتے رہے۔ لیکن اُن کی زندگی میں یہ خواب پورا نہ ہو سکا۔

وائس چانسلر پنجاب یونیورسٹی پروفیسر ڈاکٹر نیاز احمد مغیث الدین شیخ کے انتقال پر کہتے ہیں کہ شعبہ صحافت ایک عظیم استاد سے محروم ہو گیا۔

ڈاکٹر نیاز نے کہا کہ ڈاکٹر مغیث کی وفات سے پیدا ہونے والا خلا پر نہیں ہو سکتا۔ ہزاروں صحافی اُن کے زیرِ سایہ رہے اور ترقی کی منازل طے کرتے رہے۔

اُنہوں نے کہا کہ پنجاب یونیورسٹی کا شعبہ صحافت ایک مکمل انسٹی ٹیوٹ بھی ڈاکٹر مغیث کی کاوشوں سے بنا۔ اُنہوں نے نہ صرف شعبہ صحافت کو جدید خطوط پر استوار کیا بلکہ وقت کے تقاضوں کے مطابق کئی نئے کورس بھی متعارف کرائے۔

ڈاکٹر نیاز کے بقول "لیکچرار سے لے کر پروفیسر، پھر ڈائریکٹر اور پھر بطور ڈین ڈاکٹر مغیث الدین شیخ نے بہت محنت کی۔ پنجاب یونیورسٹی میں ایک چھوٹے سے ڈپارٹمنٹ کو جو کہ ڈپارٹمنٹ آف جرنلزم ہوا کرتا تھا اُس پر اتنی محنت کی کہ وہ ایک ادارہ بن گیا۔"

ڈاکٹر مغیث الدین کے کئی شاگرد پاکستان کے میڈیا اداروں میں اپنے فرائض سرانجام دے رہے ہیں۔

دنیا ٹی وی سے وابستہ پروگرام اینکر اجمل جامی بھی ڈاکٹر مغیث کے شاگرد ہیں۔ اُن کا کہنا ہے کہ ڈاکٹر مغیث باقی اساتذہ کی نسبت طلبہ پر زیادہ محنت اور اُن کی حوصلہ افزائی کرتے تھے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اجمل جامی نے کہا کہ "ڈاکٹر صاحب پڑھانے کے علاوہ دیگر نشستوں میں بھی طلبہ کے ساتھ حالاتِ حاضرہ پر تبادلہ خیال کرتے تھے جس سے طلبہ کو بہت فائدہ ہوتا تھا۔"

اجمل جامی کے بقول مشکل سے مشکل حالات میں بھی ڈاکٹر مغیث رنجیدہ نہیں ہوتے تھے بلکہ ہمت کے ساتھ حالات کا مقابلہ کرتے تھے۔

اجمل جامی نے بتایا کہ وہ اُن کے ہوسٹل کے وارڈن بھی تھے۔ "میرے ہاسٹل کے چھوٹے سے کیوبیکل کمرے میں نو لڑکے لیٹے ہوئے تھے۔ جس میں صرف ایک چارپائی یا بمشکل دو یا تین لڑکے آ سکتے ہیں۔ وہ معائنے کے لیے آئے تو میں اُس وقت اپنے کمرے کا دروازہ کھول کر اور ٹانگیں باہر نکال کر سویا ہوا تھا۔ کمرے کی بتی جلا کر اُنہوں نے تمام لڑکوں کو کہا کہ میں تمہیں اُسی صورت میں معاف کر سکتا ہوں جب تم تمام نو لڑکے مجھے اِس کمرے میں سو کر دکھاؤ۔ ہم نے بتی بجھائی اور دوبارہ لیٹ کر دکھا دیا۔ جس پر اُنہوں نے ہمیں معاف کر دیا اور کافی عرصہ اِس بات کا تذکرہ کرتے رہے۔"

جامعہ پنجاب سے 2011 میں ریٹائرمنٹ کے بعد ڈاکٹر مغیث مختلف نجی یونیورسٹیز میں بطور ڈین اپنی خدمات سر انجام دیتے رہے۔ ڈاکٹر مغیث مختلف تحقیقی مقالہ جات کے ایڈیٹر اور تحقیقی جریدوں کے ایڈیٹوریل بورڈ کے ممبر رہے۔ وہ متعدد کتابوں کے مصنف بھی تھے۔